spiritual revelations

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونا :قسط دوم

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم

بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونا :قسط دوم

بہت بڑا مسئلہ جو ان سورتوں کے معاملہ میں پیدا کیا گیا وہ یہ ہے کہ روایات کی رو سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا، اور اس کے اثر سے آپ بیمار ہوگئے تھے، اور اس اثر کو دور کرنے کے لیے جبریل (علیہ السلام) نے آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سورتیں پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر قدیم اور جدید زمانے کے بہت سے عقلیت پسندوں نے اعتراض کیا ہے کہ یہ روایات اگر مان لی جائیں تو شریعت ساری کی ساری مشتبہ ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا تھا، اور ان روایات کی رو سے ہوگیا تھا، تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ مخالفین نے جادو کے زور پر نبی سے کیا کیا کہلوا اور کروا لیا ہو، اور نبی کی دی ہوئی تعلیم میں کتنی چیزیں خدا کی طرف سے ہوں اور کتنی جادو کے زیر اثر۔ یہی نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کو سچ مان لینے کے بعد تو یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ جادو ہی کے ذریعہ سے نبی کو نبوت کے دعوے پر اکسایا گیا ہو اور نبی نے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کے پاس فرشتہ آیا ہے۔ ان کا استدلال یہ بھی ہے کہ یہ احادیث قرآن مجید سے متصادم ہیں۔ قرآن میں تو کفار کا یہ الزام بیان کیا گیا ہے کہ نبی ایک مسحور، یعنی سحر زدہ آدمی ہے ( یَقُول الظّٰلِمُونَ ان تَتَّبِعُون الا رَجُلاً مُّسحُوراً۔ بنی اسرائیل ٤٧) اور یہ احادیث کفار کے الزام کی تصدیق کرتی ہیں کہ واقعی نبی پر سحر کا اثر ہوا تھا۔

اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہوا تھا ؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا ؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر وہ اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں یا نہیں جو کئے گئے ہیں ۔

۳ قرون اولیٰ کے مسلمان علماء کی یہ انتہائی راستبازی تھی کہ انہوں نے اپنے خیالات اور مزعومات کے مطابق تاریخ کو مسخ کرنے یا حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی، بلکہ جو کچھ تاریخی طور پر ثابت تھا اسے جوں کا توں بعد کی نسلوں تک پہنچا دیا اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ ان حقائق سے اگر کوئی الٹے نتائج نکالنے پر اتر آئے تو ان کا فراہم کردہ یہ مواد کس طرح اس کے کام آسکتا ہے۔ اب اگر ایک بات نہایت مستند اور کثیر تاریخی ذرائع سے ثابت ہو تو کسی دیانت دار صاحب علم کے لیے نہ تو یہ درست ہے کہ وہ اس تاریخ کا انکار کردے کہ اس کو مان لینے سے اس کے نزدیک فلاں فلاں قباحتیں رونما ہوتی ہیں، اور نہ یہی درست ہے کہ جتنی بات تاریخ سے ثابت ہے اس کو قیاسات کے گھوڑے دوڑا کر اس کی اصلی حد سے پھیلانے اور بڑھانے کی کوشش کرے۔ اس کے بجائے اس کا کام یہ ہے کہ تاریخ کو تاریخ کی حیثیت سے مان لے اور پھر دیکھے کہ اس سے فی الواقع کیا ثابت ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا۔

جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اسے حضرت عائشہ (رض)، حضرت زید بن ارقَم اور حضرت عبداللہ بن عباس سے بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ، امام احمد، عبد الرزاق، حُمَیدی، بہیقی، طبرانی، ابن سعد، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ، حاکم، عبد بن حمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں سے نقل کیا ہے کہ اس کا نفس مضمون تواتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے‘ اگرچہ ایک ایک روایت بجائے خود خبر واحد ہے، اس کی تفصیلات جو روایات میں آئی ہیں انہیں ہم مجموعی طور پر تمام روایات سے مرتب کرکے ایک مربوط واقعہ کی صورت میں یہاں درج کرتے ہیں۔

یہ مندرجہ ذیل الفاظ مولانا مودودی رحمتہ الله کے ہیں۔ ویسے جسکو مولانا مودودی پر کوئی اعتراض ہو تو یہ ذھن میں رکھا جائے کہ میرے پاس، اس موضوع پر ، کئی بزرگان دین کے اقوال موجود ہیں اور ایک کے بعد ایک وہ منہ پر وج سکتے ہیں، اس لیے مولانا مودودی رحمتہ الله پر ہی اگر گزارا کر لیا جائے تو بہتر ہو گا۔

صلح حدیبیہ کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ واپس تشریف لائے تو محرم 7 ھ میں خیبر سے یہودیوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور ایک مشہور جادوگر لبید بن اعصم سے ملا جو انصار کے قبیلہ بنی زُرَیق سے تعلق رکھتا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہم نے ان پر بہت جادو کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اب ہم تمہارے پاس آئے ہیں، کیونکہ تم ہم سے بڑے جادوگر ہو۔ لو، یہ تین اشرفیاں حاضر ہیں، انہیں قبول کرو اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک زور کا جادو کردو۔ اس زمانے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں ایک یہودی لڑکا خدمت گار تھا۔ اس سے ساز باز کر کے ان لوگوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کنگھی کا ایک ٹکڑا حاصل کرلیا جس میں آپ کے موئے مبارک تھے۔ انہی بالوں اور کنگھی کے دندانوں پر جادو کیا گیا۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ لَبِید بِن اَعصم نے خود جادو کیا تھا، اور بعض میں یہ ہے کہ اس کی بہنیں اس سے زیادو جادوگرنیاں تھیں، ان سے اس نے جادو کروایا تھا۔ بہرحال ان دونوں صورتوں میں جو صورت بھی ہو، اس جادو کو ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف میں رکھ کر لَبِید نے بنی زُرَیق کے کنویں ذروان یا ذی اَرُوان نامی کی تہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اس جادو کا اثر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوتے ہوتے پورا ایک سال لگا، دوسری ششماہی میں کچھ تغیر مزاج محسوس ہونا شروع ہوا، آخری چالیس دن سخت اور آخری تین دن زیادہ سخت گزرے۔ مگر اس کا زیادہ سے زیادہ جو اثر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا وہ بس یہ تھا کہ آپ گھلتے چلے جارہے تھے، کسی کام کے متعلق خیال فرماتے کہ وہ کرلیا ہے مگر نہیں کیا ہوتا تھا، اپنی ازواج کے متعلق خیال فرماتے کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں مگر نہیں گئے ہوتے تھے، اور بعض اوقات آپ کو اپنی نظر پر بھی شبہ ہوتا تھا کہ کسی چیز کو دیکھا ہے مگر نہیں دیکھا ہوتا تھا۔ یہ تمام اثرات آپ کی ذات تک محدود رہے، حتی کہ دوسرے لوگوں کو یہ معلوم تک نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزر رہی ہے۔

رہی آپ کے نبی ہونے کی حیثیت تو اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض کے اندر کوئی خلل واقع نہ ہونے پایا کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں آپ قرآن کی کوئی آیت بھول گئے ہوں، یا کوئی آیت آپ نے غلط پڑھ ڈالی ہو، یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو، یا کوئی ایسا کلام آپ نے وحی کی حیثیت سے پیش کردیا ہو جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو، یا نماز آپ سے چھوٹ گئی ہو اور اس کے متعلق بھی کبھی آپ نے سمجھ لیا ہو کہ پڑھ لی ہے مگر نہ پڑھی ہو۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی، اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادوگر کے جادو نے چت کردیا۔ لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ اپنی جگہ اسے محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے۔ آخر کار ایک روز آپ حضرت عائشہ کے ہاں تھے کہ آپ نے بار بار اللہ تعالیٖ سے دعا مانگی۔ اسی حالت میں نیند آگئی یا غنودگی طاری ہوئی اور پھر بیدار ہو کر آپ نے حضرت عائشہ سے کہا کہ میں نے جو بات اپنے رب سے پوچھی تھی وہ اس نے مجھے بتا دی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا دو آدمی ( یعنی فرشتے دو آدمیوں کی صورت میں ) میرے پاس آئے۔ ایک سرہانے کی طرف تھا اور دوسرا پائینتی کی طرف۔ ایک نے پوچھا انہیں کیا ہوا ؟ دوسرے نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے کیا ہے؟ جواب دیا لَبِید بن اَعُصَم نے۔ پوچھا کس چیز میں کیا ہے؟ جواب دیا کنگھی اور بالوں میں ایک نر کھجور کے خوشے کے غلاف کے اندر۔ پوچھا وہ کہاں ہے؟ جواب دیا بنی زریق کے کنویں ذی اَرُوان ( یا ذَرُوان) کی تہ کے پتھر کے نیچے ہے۔ پوچھا اب اس کے لیے کیا کیا جائے؟ جواب دیا کہ کنویں کا پانی سونت دیا جائے اور پھر پتھر کے نیچے سے اس کو نکالا جائے۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی، حضرت عمّار بن یاسر اور حضرت زبیر (رضی اللہ عنہم) کو بھیجا۔ ان کے ساتھ جُبَیر بن ایاس الزرقی اور قیس بن محصن الزرقی (یعنی بنی زریق کے یہ دو اصحاب) بھی شامل ہوگئے۔ بعد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی چند اصحاب کے ساتھ وہاں پہنچ گئے۔ پانی نکالا گیا اور وہ غلاف برآمد کرلیا گیا۔ اس میں کنگھی اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑھی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبریل (علیہ السلام) نے آکر بتایا کہ آپ معوِّذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپ ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہے۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں گھل گئیں، ساری سوئیاں نکل گئیں، اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر بالکل ایسے ہوگئے جیسے کوئی شخص بندھا ہوا تھا، پھر کھل گیا۔ اس کے بعد آپ نے لَبِید کو بلا کر باز پرس کی۔ اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرلیا اور آپ نے اس کو چھوڑدیا، کیونکہ اپنی ذات کے لیے آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ یہی نہیں بلکہ آپ نے اس معاملہ کا چرچا کرنے سے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے اللہ نے شفا دی ہے۔ اب میں نہیں چاہتا کہ کسی کے خلاف لوگوں کو بھڑکاؤں۔

یہ ہے سارا قصہ اس جادو کا۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصب نبوت میں قادح ہو۔ ذاتی حیثیت سے اگر آپ کو زخمی کیا جاسکتا تھا جیسا کہ جنگ احد میں ہوا، اگر آپ گھوڑے سے گر کر چوٹ کھا سکتے تھے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اگر آپ کو بچھو کاٹ سکتا تھا، جیسا کہ کچھ اور احادیث میں وارد ہوا ہے، اور ان میں سے کوئی چیز بھی اس تحفظ کے منافی نہیں ہے جس کا نبی ہونے کی حیثیت سے اللہ نے آپ سے وعدہ کیا تھا، تو آپ اپنی ذاتی حیثیت میں جادو کے اثر سے بیمار بھی ہوسکتے تھے۔ نبی پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے، یہ بات تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔

4 سورۃ اعراف میں فرعون کے جادوگروں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ کے مقابلے میں جب وہ آئے تو انہوں نے ہزارہا آدمیوں کے اس پورے مجمع کی نگاہوں پر جادو کردیا جو وہاں دونوں کا مقابلے دیکھنے کے لیے جمع ہوا تھا (سَحَرُوا اعیُن الناسِ۔ آیت ١١٦) اور سورۃ طٰہٰ میں ہے کہ جو لاٹھیاں اور رسیاں انہوں نے پھینکی تھیں ان کے متعلق عام لوگوں ہی نے نہیں حضرت موسیٰ نے بھی یہی سمجھا کہ وہ ان کی طرف سانپوں کی طرح دوڑی چلی آرہی ہیں اور اس سے حضرت موسیٰ خوف زدہ ہوگئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ خوف نہ کرو تم ہی غالب رہو گے، ذرا اپنا عصا پھینکو۔

اب یہاں اظہر حسین صادق آپکے سامنے سورہ طه کی آیت پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے جسکو کہ عقلیت پسند جادو کے خلاف ایک دلیل و بنیاد بنا کر پیش کرتے ہیں۔

قَالَ بَلْ اَلْقُوْاۚ-فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى(۶۶)فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِهٖ خِیْفَةً مُّوْسٰى(۶۷)قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى(۶۸) سورہ طه

ترجمہ:

موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کے زور سے ان کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیںتو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایاہم نے فرمایا ڈر نہیں بےشک تو ہی غالب ہے۔

5 اب اس آیت کی تفسیر کسی قرآن میں اُٹھا کر دیکھ لیجیے۔ وہ کچھ یہ ہو گی کہ جب جادوگروں نے رسیاں لاٹھیاں وغیرہ جو سامان وہ لائے تھے سب ڈال دیا اور لوگوں کی نظر بندی کر دی توحضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے دیکھا کہ زمین سانپوں سے بھر گئی اور میلوں کے میدان میں سانپ ہی سانپ دوڑ رہے ہیں اور دیکھنے والے اس باطل نظر بندی سے مَسحور ہو گئے، اور اب جب کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انسانی فطرت کے مطابق اپنے دل میں اس بات کا خوف محسوس کیا کہیں وہ سانپ ان کی طرف ہی نہ آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامسے فرمایاـ: تم ڈرو نہیں ،بے شک تم ہی ان پر غالب آؤ گے اور تمہیں ہی ان پر غلبہ و کامیابی نصیب ہو گی۔

‎اب یہاں آپ لوگ غور کیجیے کہ جادو حضرت موسی پر چلا تو انکو لاٹھیاں اور رسیاں سانپ نظر آنا

‎شروع ہو گئیں۔ سانپ اصلی تھے یا نقلی و نفسیاتی، یہ ایک الگ بحث ہے لیکن حضرت موسی پر جادو چلا تو انہیں سانپ نظر آئے اور اسکی وجہ سے انہوں نے کچھ خوف بھی محسوس کیا اور فورا ہی الله کی مدد بھی ان پہنچی۔ اب یہ اور اس سے آگے کی چند آیات تو گواہ ہیں اس بات پر کہ جادو کا اثر ہے اور وہ نبی و پیغمبر پر بھی ہو سکتا ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ یہ تو کفار مکہ کے اس الزام کی تصدیق ہوگئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ سحرزدہ آدمی کہتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کفار آپ کو سحرزدہ آدمی اس معنی میں نہیں کہتے تھے کہ آپ کسی جادوگر کے اثر سے بیمار ہوگئے ہیں، بلکہ اس معنی میں کہتے تھے کہ کسی جادوگر نے معاذ اللہ آپ کو پاگل کردیا ہے اور اسی پاگل پن میں آپ نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں اور جنت ودوزخ کے افسانے سنا رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اعتراض ایسے معاملہ پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتا جس کے متعلق تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ جادو کا اثر صرف ذات محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا تھا، نبوت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔. عربی گرائمر اور الفاظ کی ترتیب عام لوگوں کو سمجھ نہیں آ سکتی اور احادیث کو جھٹلانے والوں کو تو بالکل ہی نہیں آ سکتی

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ جادو کو محض اوہام کے قبیل کی چیز قرار دیتے ہیں ان کی یہ رائے صرف اس وجہ سے ہے کہ جادو کے اثرات کی کوئی سائنٹفک توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ لیکن دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں، مگر سائنٹفک طریقہ سے یہ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کیسے رونما ہوتی ہیں۔ اس طرح کی توجیہ پر اگر ہم قادر نہیں ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس چیز ہی کا انکار کردیا جائے جس کی ہم توجیہ نہیں کرسکتے۔ جادو دراصل ایک نفسیاتی اثر ہے جس نفس سے گزر کر جسم کو بھی اسی طرح متاثر کرتا ہے جس طرح جسمانی اثرات جسم سے گزر کر نفس کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خوف ایک نفسیاتی چیز ہے، مگر اس کا اثر جسم پر یہ ہوتا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور بدن میں تھر تھری چھوٹ جاتی ہے۔ دراصل جادو سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، مگر انسان کا نفس اور اس کے حواس اسے متاثر ہوکر یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ حقیقت تبدیل ہوگئی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کی طرف جادوگروں نے جو لاٹھیاں اور رسیاں پھینکی تھیں وہ واقعی سانپ نہیں بن گئی تھیں، لیکن ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں پر ایسا جادو ہوا کہ سب نے انہیں سانپ ہی محسوس کیا، اور حضرت موسیٰ تک کے حواس جادو کی اس تاثیر سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اسی طرح قرآن (البقرہ، آیت ١٠٢) میں بیان کیا گیا ہے کہ بابل میں ہاروت اور ماروت سے لوگ ایسا جادو سیکھتے تھے جو شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دے۔ یہ بھی ایک نفسیاتی اثر تھا، اور ظاہر ہے کہ اگر تجربے سے لوگوں کو اس عمل کی کامیابی معلوم نہ ہوتی تو وہ اس کے خریدار نہ بن سکتے تھے۔ بلا شبہ جو چیز ہزارا ہا سال سے انسان کے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو اس کے وجود کو جھٹلا دینا محض ایک ہٹ دھرمی ہے۔

امید کرتا ہوں کہ آپکو یہ سب باتیں سمجھانے میں میں کامیاب ہو گیا ہونگا۔ لیکن پھر بھی اگر آپکو سمجھ نہیں لگی تو ایک چھوٹا سا نکتہ یہ یاد رکھیے گا کہ محمد کریم پر جادو والی حدیث مختلف کتب احادیث کے علاوہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں آئیں ہیں جسکی وجہ سے اس حدیث کو متفقہ علیہ کہا جاتا ہے۔ متفقہ علیه حدیث کا حدیث کی دنیا میں بڑا اونچا مقام ہے اور اس حدیث کو ہر شک و شبہ سے بالا تر سمجھا جاتا ہے۔ سارے اعتراضات ایک طرف اور متفقہ علیه حدیث ایک طرف۔ایک بات جان لیجیے کہ حدیث ہے کیا۔ حدیث بھی درحقیقت کلام الہی ہے کیونکہ نبی اپنی مرضی سے نہیں، رب قھار کی مرضی و منشا سے کلام کرتے ہیں، سو ایسے الفاظ جو محمد کریم کی طرف منسوب ہوں اور انکی صحت و سچائی زمانہ کے امامان حدیث ثابت کر چکے ہوں، انکا انکار کر کے اپنے آپکو جاہلین میں سے نہ ٹھرائیں/گنوائیں بلکہ حدیث کی حرمت کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنے آپکو محمد کریم کے ساتھی و جانثار اور محبین میں سے ثابت کیجیے۔

پیراگراف تین ، چار، پانچ غور سے پڑھیے گا۔ جن لوگوں نے پچھلی بار شئیر کیا تھا میری پوسٹ کو، وہ اس پوسٹ کو بھی شئیر کر دیں۔

صدق الله العلی العظیم

وَاللّٰه اعلی و اعلم

Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment