spiritual revelations

آیت الکرسی

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان
آیت الکرسی بہت بڑی عظمت و رفعت والی آیت ہے، اور اس بلندی اور برتری کا سبب اس میں بیان کردہ باتیں ہیں۔ یہ رب العالمین کی توحید، ان کی کبریائی، بڑائی اور صفات پر مشتمل ہے، اور جیسا کہ معلوم ہے ،کہ سب سے بلند و برتر ذات اللہ قھار و جبار کی ہے۔ اسی سلسلے میں علامہ رازیؒ نے تحریر کیا ہے:
تمام جہانوں میں، جس جس کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جس کسی کے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں، ان میں سے اشرف و اعلیٰ اور سب سے بلند و بالا اللہ رب القھار کی ذات اقدس ہے۔ اسی وجہ سے وہ کلام، جو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ، اور اوصافِ کمال پر مشتمل ہوگا، وہ جلالت و عظمت کی انتہا کو پہنچا ہوا ہوگا۔ آیت الکرسی، چونکہ ایسا ہی کلام ہے، لہٰذا اس کا شرف و منزلت کی بلندیوں پر ہونا، شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’وَلَیْسَ فِی الْقُرْآنِ آیَۃٌ وَاحِدَۃٌ تَضَمَّنَتْ مَا تَضَمَّنَتْہُ آیَۃُ الْکُرْسِيِّ۔ وَ إِنَّمَا ذَکَرَ اللّٰہُ فِيْ أَوَّلِ سُوْرَۃِ الْحَدِیْدِ وَ آخِرِ سُوْرَۃِ الْحَشْرِ عِدَّۃَ آیَاتٍ ، لَا آیَۃً وَّاحِدَۃً۔‘‘
[جو کچھ آیت الکرسی میں ہے، وہ قرآن کریم کی کسی بھی دوسری ایک آیت میں نہیں ہے، البتہ اللہ تعالیٰ نے (آیت الکرسی میں موجود باتوں کو) سورۃ الحدید کی ابتدائی اور سورۃ الحشر کی آخری آیات میں بیان کیا ہے، لیکن وہ متعدد آیات ہیں، ایک آیت نہیں۔
وحیِ الٰہی سے زبان کو حرکت دینے والے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت الکرسی کے فضائل و اہمیت کو متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے۔
امام حاکم نے قاسم بن عبد الرحمن سے، اور انہوں نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مستدرک میں روایت نقل کی ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بلاشک و شبہ اللہ عزوجل کا اسمِ اعظم قرآن کریم کی تین سورتوں میں ہے: سورۃ البقرۃ، آل عمران اور طٰہٰ میں۔‘‘
(راوی نے بیان کیا): میں نے اسے تلاش کیا، تو سورۃ البقرہ کی آیت الکرسی [کے جملے] {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} ،
سورۃ آل عمران [کی آیت] {الٓمَّٓ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ}
اور سورۃ طہٰ [کی آیت] {وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ} میں پایا۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے میں اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم [الْحَيّ] ہے، اور اسی بنا پر قرآن کریم کی عظیم ترین آیت: {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ} ہے۔
امام ابن قیمکی رائے میں اسم اعظم [اَلْحَيُّ الْقَیُّوْمُ] ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اِسْمُ الإِلٰہِ الْأَعْظَمُ اشْتَمَلَا عَلَی اسْ
لمِ الْحَیِّ الْقَیُّوْمِ مُقْتَرِنَانِ
فَالْکُلُّ مَرْجِعُہَا إِلَی الْاِسْمَیْنِ یَدْ
رِيْ ذَاکَ ذُوْ بَصَرٍ بِہٰذَا الشَّأْنِ۔‘‘ [3]
[الإلہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) کا اسم اعظم دو باہمی ملے ہوئے(مبارک) ناموں [اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ] پر مشتمل ہے۔
تمام اسمائے (مبارکہ) انہی دو(مبارک) ناموں کی طرف لوٹتے ہیں۔
امام احمد اور امام ترمذی نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ:
’’بے شک ان کے ہاں [گھر میں] ایک طاق تھا، جس میں کھجوریں تھیں۔ ایک جنّنی وہاں آکر، اس سے کچھ اٹھا کر، لے جایا کرتی تھی۔ اس بارے میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت پیش کی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بِسْمِ اللّٰہِ، أَجِیْبِيْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔‘‘
’’جائیے، جب تم اسے دیکھو، تو کہو:
’’اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوجاؤ۔‘‘
انہوں نے بیان کیا، کہ انہوں نے اسے پکڑلیا، تو اس نے قسم کھائی، کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گی۔ اس پر انہوں نے اسے چھوڑ دیا، پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
’’تمہارے قیدی نے کیا کیا؟‘‘انہوں نے جواب دیا: اس نے قسم کھائی، کہ وہ دوبارہ نہیں آئے گی۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس نے جھوٹ بولا ہے، اور جھوٹ بولنا اس کی عادت ہے۔‘‘
انہوں نے بیان کیا، کہ انہوں نے اسے دوبارہ پکڑلیا، تو اس نے دوبارہ نہ آنے کی قسم کھائی، تو انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’تمہارے قیدی نے کیا کیا؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’اس نے واپس نہ آنے کی قسم کھائی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس نے جھوٹ بولا ہے، اور دروغ گوئی اس کا شیوہ ہے۔‘‘ انہوں نے اسے پھر پکڑلیا، اور کہا
’’اب میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو پیش کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔‘‘وہ کہنے لگی:
’’میں تمہیں ایک چیز بتلاتی ہوں: اپنے گھر میں آیت الکرسی پڑھا کرو، شیطان تمہارے نزدیک نہیں آئے گا، اور نہ ہی کوئی اور [ضرر رساں] چیز۔‘‘ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
’’تمہارے قیدی نے کیا کیا؟‘‘ انہوں نے بیان کیا، کہ انہوں (یعنی حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، اس جنّنی کی کہی ہوئی بات بتلائی، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’اس نے سچ بولا ہے، حالانکہ وہ جھوٹی ہے۔‘‘
حضراتِ ائمہ نسائی، ابن حبان، طبرانی، حاکم اور بغوی نے حضرت أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ(انہوں نے بیان کیا ، کہ)
’’یقینا وہ ایک جگہ کھجوریں سکھایا کرتے تھے۔ انہوں نے دیکھا، کہ کھجوریں کم ہورہی ہیں، تو انہوں نے ایک رات جاگ کر ان [کھجوروں] کی حفاظت کی۔ یکایک انہوں نے اپنے روبرو ایک جوان لڑکے کی شکل کا شخص دیکھا۔ اُس نے انہیں سلام کہا۔ انہوں نے اُسے سلام کا جواب دیا اور پوچھا:
’’کیا جن ہو یا انسان؟‘‘ اس نے جواب دیا:
’’بلکہ جنوں میں سے ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا:
’’اپنا ہاتھ دکھاؤ۔‘‘
اس نے اپنا ہاتھ دکھایا، تو وہ کتّے کا ہاتھ [یعنی اس کی مانند] تھا، اور کتّے ایسے بال تھے، اس پر انہوں نے پوچھا:
’’کیا جنّ اسی طرح تخلیق کیے گئے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’ [تمام] جنّ جانتے ہیں، کہ مجھ ایسا طاقت ور شخص ان میں کوئی نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے پوچھا:
’’تمہیں [یہاں] کون سی چیز لائی ہے؟‘‘ اس نے کہا:
’’ہمیں بتلایا گیا، کہ آپ صدقہ [کرنا] پسند کرتے ہیں، اسی لیے ہم آپ کے غلے میں سے اپنا حصہ لینے آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا:
’’ہمیں تم سے کون سی چیز محفوظ رکھتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا
’’(کیا) آپ آیت الکرسی: [اَللّٰہُ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ] ، جو کہ سورۃ بقرہ میں ہے، پڑھتے ہیں؟‘‘
انہوں نے فرمایا:
’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا:
’’اگر تم اسے صبح پڑھو گے، تو شام تک ہم سے محفوظ رکھے جاؤ گے، اور اگر تم اسے شام کو پڑھو گے، تو صبح تک ہم سے محفوظ رکھے جاؤ گے۔‘‘
حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صَدَقَ الْخَبِیْثُ۔‘‘
’’خبیث نے سچ بات کہی ہے۔‘
بعض مفسرین رحمتہ الله علیہ نے تحریر کیا ہے، کہ آیت الکرسی دس مستقل جملوں پر مشتمل ہے۔
۱: {اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ}
۲: {اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ}
۳: {لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوْمٌ}
۴: {لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ}
۵: {مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ}
۶: {یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ}
۷: {وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ}
۸: {وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ}
۹: {وَ لَا یَؤُْدُہٗ حِفْظُہُمَا}
۱۰: {وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الَعَظِیْمُ}
مدت ہوئی میرے اُستاد اور مربّی ، ڈاکٹر منشور عالم خان صدیقی، نے مجھے آیت الکرسی کی زکوۃ کا ایک طریقہ دیا تھا جسمیں موکل بھی حاضر ہوتا تھا۔ ڈ اکٹر منشور عالم صدیقی بہت ہی شفیق اُستاد تھے جو ہمیشہ دینے پر یقین رکھتے تھے۔ بے عزتی بھی بڑی کڑاکے دار کرتے تھے لیکن میں اپنے کیس میں اکثر جان بوجھ کر بے عزتی کرواتا تھا کیونکہ مجھے مزہ بہت آتا تھا۔ ایک دن جب میں نے جان بوجھ کر دوبارہ ایک غلط حرکت کی تو کہنے لگے مجھے لگتا ہے تو جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے۔ میں نے کہا جی جب آپ غصے میں ہوتے ہیں تو دل کرتا ہے آپکی پپیاں لوں لیکن بیچ میں ایک ہزار کلومیٹر ہیں۔ کوئی ایسا عمل عطا فرمائیے کہ ایسے موقع پر زمین میرے قدموں تلے سمٹ جایا کرے۔ آگے سے انہوں نے تاریخی جواب دیا، لاحول ولا قوة الا بالله۔ ہاہاہاہہاہاہہہہاہاہا
بہرحال یہ عمل اُنکا عطا کردہ ہے۔ عزیمت میں سے موکل کے حصے والی عزیمت حذف کر کے پوسٹ کر رہا ہوں۔ ویسے تو سنی سنائی والجماعت والے پیروں کا موقف ہے کہ موکلات آتے ہی نہیں بلکہ شیاطین ہوتے ہیں۔ اور میری رائے میں ایسی سڑیاں وہی مارتے ہیں جنکو موکلات کی الف ب کا پتہ نہیں ہوتا۔ نتیجتاً خود بھی جاہل اور اُنکے مرید بھی جاہل۔
آیت الکرسی میں دس جملے ہیں۔ دس دن کی ریاضت ہو گی۔ ریاضت کا طریقہ ہے کہ
پہلے دن پہلے جملے الله لا اله الا ھو کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
دوسرے دن دوسرے جملے یعنی الحی القیوم کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
تیسرے دن تیسرے جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
چوتھے دن چوتھے جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
پانچویں دن پانچویں جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
چھٹے دن چھٹے جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
ساتویں دن ساتویں جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
آٹھویں دن آٹھویں جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
نویں دن نویں جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
دسویں دن دسویں جملے کو ۱۹۰۰ مرتبہ پڑھا جائے۔
ہر روز عمل مکمل کرنے کے بعد ایک مرتبہ یا دس مرتبہ تصویر والی دعا نہایت توجہ سے پڑھی جائے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہر سو مرتبہ کے بعد دعا ایک مرتبہ پڑھ لی جائے۔ اس طرح دعا بھی انیس مرتبہ ہو جائے گی۔ عمل مکمل ہونے کے بعد اپنے جملہ مقاصد کے لیے دعا کر لی جائے۔
دوسرا طریقہ ریاضت کا یہ ہے ہر روز پوری آیت الکرسی ۱۹۰ مرتبہ پڑھی جائے دس دنوں تک لگاتار۔ ہر روز تلاوت کے بعد ایک مرتبہ یا دس مرتبہ تصویر والی دعا پڑھ لی جائے۔ اگر اسی ریاضت کو انیس دن تک کھینچا جائے تو آپ آیت الکرسی کی ایک نہایت عمدہ ریاضت کے وارث بن جائیں گے۔ جملہ عملیات و ریاضات آیت الکرسی نہ صرف یہ کہ خود کر سکتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں اور دوستوں کو بھی کروا سکتے ہیں۔
آیت الکرسی کا ایک طلسم اور شمع بھی میں نے بنائی ہے۔ پڑھائی کے وقت طلسم شغل کے طور پر اپنے بازو پر لکھا جائے اور پھر مجھے بتایا جائے کہ آپ نے کیا محسوس کیا۔ طلسم تو میں دے رہا ہوں اور وہ یہ ہے ۲۵۸۰۷۰۷۲۔ شمع کا ہدیہ ہو گا کیونکہ مفت کی چیز کی ویسے بھی قدر نہیں ہوتی۔
شمع کا ہدیہ ہو گا ۱۹۰۰ انیسو روپے جو آپ میرے اس نمبر پر جیز کیش کریں گے۔
03248430162
Azharhussain
یہ عمل شمع کے بغیر بھی ہو سکتا ہے اگر آپ کرنا چاہیں تو۔ لیکن شمع کا فائدہ یہ ہو گا کہ شمع سے آپ اپنا علاج بھی کر سکتے ہیں اور گھر میں موجود کسی اور بندے کا بھی۔ شمع کی اجازت صرف آپکو اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے ہو گی۔
اب کچھ اس عمل کے فوائد لکھنے تھے لیکن تحریر ہمیشہ کی طرح بہت لمبی ہو گئی۔ اب اسکا حصہ دوئم لکھونگا۔ اس عمل کے بہت سے فوائد اور اسکے کرنے والے کے درجات پر روشنی اگلی قسط میں ڈالی جائے گی۔ لیکن بس اتنی سی بات کہ اس عمل و دعا کا ذاکر اولیا الله کا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم
Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment