اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
بارہ اکتوبر رات گیارہ بجے سے لے کر چودہ اکتوبر تک سیارہ قمر سعد حالت میں رہے گا۔ بارہ اکتوبر رات گیارہ بجے یا گیارہ بجے کے بعد سے آپ یہ عمل شروع کر سکتے ہیں۔ یہ وہی عمل ہے جو پچھلے شرف قمر میں بھی کیا گیا تھا۔ اسمائے الہی یا کافی یا غنی کا عمل ہے۔ ایک مہینہ قبل ستمبر کے شرف قمر میں یہ عمل سات دن کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ اکتوبر میں عمل تو وہی ہو گا لیکن کرنے کا دورانیہ صرف تین دن، یعنی بارہ سے چودہ اکتوبر تک۔ طلسم بھی سات کی بجائے چار عدد لکھ لیجیے گا۔ ایک اپنے موبائل کے بیک کور میں رکھ لیجیے گا اور باقی تین روزانہ کی بنیاد پر ایک سارا دن پی لیجیے گا۔ سب گھر والوں کو بھی پلایا جا سکتا ہے۔ یہ عمل جمیع حاجات کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
یاد رکھیے اسمائے الہی کا ورد خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ عمل کی زیادہ تعداد اور وقت سے وہ لوگ گبھراتے ہیں جنکی قسمت میں اسماء کا فیض نہیں ہوتا۔ وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ وظیفہ اتنا لمبا ہے، تعداد اتنی زیادہ ہے، اور نصیب والے پڑھ کر فیض حاصل کر کے کہاں کے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ اتنی تعداد میں اسمائے الہی مثلاً سوا لاکھ یا نوے ہزار پڑھ کر کیا حاصل کر لیا۔ اوّل تو ایسے بندوں کو جواب ہی نہیں دینا چاہیے کیونکہ وقت کا ضیائع ہے۔ لیکن آپ لوگوں کی معلومات کے لیے کچھ چیزیں درج کر دیتا ہوں۔
قرآن مجید میں رب القھار نے فرمایا،
1. وَ ِللهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی (فَادْعُوْهُ بِهَا) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْ اَسْمَآئِهِ ط سَيُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo
(الاعراف، 7/ 180)
اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے اِنحراف کرتے ہیں، عنقریب انہیں ان (اَعمالِ بد) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔
علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ص 325 ج 7) آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص نماز میں یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ کہہ رہا تھا۔ مکہ مکرمہ کے ایک مشرک نے سن لیا تو کہنے لگا کہ محمد ﷺ اور ان کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ ہم ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ یہ شخص ایسے الفاظ کہہ رہا ہے جن سے دو رب کا پکارنا سمجھ میں آ رہا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آج بھی کفار مکہ سے مشابہ کچھ لوگ اسمائے الہی کے پڑھنے اور طویل عملیات پر جرح و اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس آیت میں اسما الہی کے معاملات میں حق سے انحراف کرنے والے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسما کے ورد سے منع کرتے ہیں اور اسما کے ورد کے نتیجے میں رجعت اور موکلات کے غصہ ہونے اور آپکو طرح طرح کی پریشانیوں کا شکار کرنے والے عقائد کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔
ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور ان اسماء کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگنا یہ سب (فَادْعُوْہُ بِھَا) کے عموم میں آجاتا ہے۔ علامہ سیوطی (رح) نے جامع صغیر میں بحوالہ حلیۃ الاولیاء حضرت علی ؓ سے حدیث نقل کی ہے۔ اِنَّ لِلّٰہَ تسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ اِسْماً مَاءۃ غیر واحِدۃ اِنَّہٗ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ وَ مَا مِنْ عَبدٍ یَّدعُوْبِھَا اِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ اس میں بھی یدعوبھا کا ایک مطلب تو وہی ہے کہ ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان سماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے یعنی ان اسماء کو پڑھے پھر اللہ تعالیٰ سے دعاء کرے۔
علامہ قرطبی نے فادعوہ بھا کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ای اطلبوا منہ باسماۂ فیطلب بکل اسم مایلیق بہ تقول یا رحیم ارحمنی یا حکیم احکم بی یا رازق ارزقنی یا ھادی اھدنی یا فتاح افتح لی یا تواب تب علی ھکذا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ سے اس کے ناموں کے وسیلہ سے مانگو اور ہر نام کے مطابق طلب کیا جائے مثلاً کہو اے رحیم مجھ پر رحم فرما، اے حکیم میرے لیے حکمت کا فیصلہ فرما، اے رازق مجھے رزق دے، اے ہادی مجھے ہدایت دے، اے فتاح میرے لیے فتوحات کے دروازے کھول، اے توبہ قبول کرنے والے میری توبہ قبول فرما) ۔
علامہ جزری (رح) نے الحصن الحصین میں اس طرح کی احادیث نقل کی ہیں جن سے اسماء الٰہیہ کا ذکر کرنے کے بعد دعاء کی جائے تو دعا قبول ہونے کا وعدہ ہے بحوالہ سنن ترمذی علامہ جزری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا کہ تیری دعاء قبول ہوگی تو سوال کرلے، پھر بحوالہ مستدرک حاکم نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ایک شخص پر گزر ہوا جو یا ارحم الراحمین پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا کہ سوال کر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے تیری طرف (رحمت کی) نظر فرمائی۔
اب دیکھیے جلیل القدر محدثین اور تفسیر قرآن کے عامل محمد کریم سے منسوب اسماء کی تعریف و توضیح کیسے بیان کر رہے ہیں اور آجکل کے نام نہاد عاملین و پیر اسماء کا پڑھنا ہی منع کر دیتے ہیں۔ اسما کے وظائف پر قدغن لگا دی جاتی ہے کہ یہ جلالی ہیں، یہ جمالی ہیں، انکے پڑھنے سے رجعت ہوتی ہے، انکو دنیاوی حاجات میں نہیں پڑھنا چاہیے شائد اسلیے بھی کہ دین تو آیا ہی آخرت کے لیے تھا، دنیا سے تو اسکا تعلق ہی کوئی نہیں۔ جب تک ایسے پیر فقیر و عاملین موجود ہیں جو جاہلیت کے مقام اعلی پر فائز ہیں اور جب تک آپ نے انکو فالو کر کے جاہل رہنا ہے تب تک تو آپکی مرض ورنہ میں اور کتنے نامور محدثین اور انکی تعلیمات کا اظہار کروں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا: {اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اللهُ، الْاَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَکُنْ لَهُ کُفُوًا اَحَدٌ} ’اے اللہ! میں تجھ سے اس واسطے سوال کرتا ہوں کہ تو اللہ ہے۔ تو یکتا اور سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے اللہ کے اسم اعظم کے واسطے سے سوال کیا ہے کہ جب اس کے وسیلے سے (کسی چیز کا) سوال کیا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے اور جب اس کے واسطے سے دعا کی جائے تو قبول فرماتا ہے۔
اسے امام احمد، نسائی، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
اب اس حدیث مبارکہ میں محمد کریم اسمائے الہی کے ورد کی ترغیب دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جب انکے وسیلے سے الله سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے۔ اب یہاں پر کیا یہ تخصیص کی گئی ہے کہ اسما پڑھ کر صرف آخرت ہی مانگنی ہے اور دنیاوی حاجات کے لیے اسما پڑھنے منع ہیں؟ کیا صحابہ کرام رضی الله اپنی دنیاوی حاجات نہ رکھتے تھے اور الله سے طلب نہ کرتے تھے؟
اب جو بندہ بھی یہاں آپکو یہ کہتا ہوا ملے کہ اسما تو صرف الله کے ذکر کے طور پر ہی پڑھنے چاہییں اور دنیاوی حاجات کے طور پر انکا ورد منع ہے یا ناپسندیدہ ہے، تو ایسے بندے کی عقل پر فاتحہ پڑھ دیجیے کیونکہ یا تو اُسکو حدیث کا علم نہیں یا وہ حدیث کو مانتا نہیں یا اسماء کے فیض سے مکمل محروم ہے۔
ایک دعا ہے، حدیث کی ہے، اسکا ترجمہ غور سے پڑھیے گا۔
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَ صَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي(السلسلة الصحيحة: 199)
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیرا ہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازل فرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعث کشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔
اب کوئی مائی کا لعل ثابت کرے کہ اس دعا میں غموں، کشادگی، اور پریشانیاں صرف آخرت کی مراد ہیں اور دنیا سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کی کسی دنیاوی حاجت کے لیے تلاوت کے بعد اگر یہ دعا پڑھی جائے تو حاجت مقبول ہوتی ہے اور سنت کا بھی ثواب ملتا ہے۔ میرے سو آیات والے عمل قرآنی کے بعد بھی اس دعا کا ورد کرنا چاہیے۔
اب آئیے اپنا ایک ذاتی واقعہ سناؤں۔ بہت سارے لوگوں کے کشف اور باطنی نگاہ میرے عملیات سے کھلیں ہیں۔ اگر وہ سب لوگ یہاں کمنٹ کر دیں تو نام نہاد پیروں اور عاملین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں۔ بہرحال انھی میں سے ایک، میرا بتایا ہوا لطیف کا، عمل کر رہا تھا جب لطیف کا موکل اُس کے سامنے حاضر ہو گئے۔ اسم الہی لطیف کے بارے یہ بات رکھیے گا کہ دنیائے عملیات میں اسم لطیف کا عامل تسخیرات کے میدان میں بہت کامیابی پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر دنیا جہان کے جنات و موکلات و ہمزاد لطیف کے عامل کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں، تو اس سے لطیف کے روحانی خدام کی طاقت کا اندازہ لگا لیجیے۔ لیکن ایک حیرانی کی بات یہ تھی کہ لطیف کے موکل ایک ہیبت ناک جثہ کے ساتھ حاضر ہوئے لیکن مسکرا رہے تھے۔ کچھ دن ایسا ہی چلتا رہا۔ جب بندے نے مجھے بتایا تو میں نے اُسے کہا کہ عمل کے بعد انکو سلام کرنا اور ان سے انکا نام پوچھنا۔ اب حیرت انگیز طور پر ہوا یوں کہ موکل نے نہ صرف اپنا نام بتایا بلکہ میرے لیے ایک پیغام بھی دیا۔ جب یہ پیغام مجھے ملا تو میں حیرت زدہ رہ گیا دو وجوہات کی بنا پر۔
اوّل تو بندے نے مجھے موکل علیه السلام کا جو نام بتایا وہ میرے علاوہ شائد ہی کسی کو معلوم ہو اور کتابوں میں تو بالکل ہی نہیں لکھا۔ دوسرا موکل نے پیغام دیا کہ اظہر حسین کو کہنا وہ تو ہمیں بھول گیا ہے لیکن ہم اُسکو نہیں بھولے۔ یہ پیغام سُن کر میں اپنے پچپن میں چلا گیا جب کہ مجھے ہمزاد قابو کرنے کا جنون کی حد تک شوق پڑ گیا تھا اور روحانی دنیا (کاش البرنی) کے رسالہ سے دیکھ کر میں نے بغیر اجازت لطیف کی نوے ہزار مرتبہ کی ریاضت کی تھی۔ پھر کچھ عرصہ میں نے مداومت رکھی لیکن پھر چھوڑ دی۔ اب دیکھ لیجیے، اُس وقت سے لے کر اجتک موکلات نے مجھے یاد رکھا ہوا تھا اور محبت سے یاد رکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات جان اور سمجھ وہی سکتا ہے جسکو موکلات کی کچھ سمجھ ہو اور جس نے کبھی کوئی ریاضت کی ہی نہ ہو اور دوسروں کو بھی نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہو، وہ بندہ اس روحانی دنیا کے اسرار و رموز سے آگاہ نہیں ہو سکتا، پھڑیں جتنی مرضی مار لے۔
تحریر ہمیشہ کی طرح پھر لمبی ہو گئی۔
جو لوگ آیت الکرسی کا عمل کر رہے ہیں وہ یہ عمل نہ کریں فی الحال۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم
Please follow and like us: