اللہ عزوجل کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ زبردست طاقت و قوت رکھنے والی ذات ہے یعنی قھار ہے۔
قھار کے معنی غلبہ پانے کے ہیں۔ سورہ رعد میں اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیۡءٍ وَّ ہُوَ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ
کہہ دیجئے کہ صرف اللہ ہی تمام چیزوں کا خالق ہے وہ اکیلا ہے اور زبردست غالب ہے ۔
قھار، اللہ عزوجل کے اُن ناموں میں سے ہے جو تدبیر الٰہی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ کے تصرف و تدبیر پر دلالت کرتے ہیں۔
اللہ تعالی کا نام ” القہار” قرآن میں کئی جگہ وارد ہوا ہے۔ قھار کا معنی یہ ہے کہ اللہ ظالموں کو جھکا دینے والا ہے اور ان کے بارے میں موت، شکست یا بیماری کا فیصلہ کرنے والا ہے، کیونکہ حکمت کا تقاضہ یہی ہے۔ اللہ کا عدل اور انسانی منطق یہی کہتی ہے کہ جو لوگ اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوں سے زیادتی کرتے ہیں اور کمزوروں کے ساتھ تکبر و غرور سے پیش آتے ہیں ان کو جھکا نےکے لئے ایک زبرددست قوت ہونی چاہیے۔ چناچہ اللہ عزوجل کی صفت قھار وجود میں آئی۔ اور اللہ عزوجل کے نام “القہار” سے انسان کا حصہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں کو مقہور کرے اور اسی طرح اپنے نفس کو بھی مغلوب کرے۔
محمد الکوسی الکویتی اپنی کتاب شرح اسما اللہ الحسنی میں فرماتے ہیں کہ وہ قہار ہی ہے جسکے سامنے گردنیں جھک جاتی ہیں اور بڑے بڑے دنیاوی ظالم ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ اور بڑے ہی (با وقار) چہرے اس کے سامنے بجھ جاتے ہیں تمام مخلوقات اس کے سامنے پست ہو جاتی ہیں۔ اور تمام اشیاء نے اس کے جلال و عظمت و کبریائی اور اس کی قدرت کو مان لیا۔ اور اس کے سامنے تمام اشیاء کمزور اور ساکن ہو گئیں اور اللہ کی حکمتوں اور اس کے غلبہ کی وجہ سے دب گئیں۔
قھار کے ایک معنی چھا جانے والے بھی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل آیت سے استخراج کیے گئے ہیں۔
لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ۔
قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور پوچھے گا لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ” کس کے لیے ہے بادشاہی آج کے دن ؟؟
لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ ” (جواب ملے گا : ) اکیلے اللہ کے لیے ہے جو تمام کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ “
حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا صرف ایک اللہ ہی ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا بھی یہی قول ہے اور اس کی تائید حضرت ابوہریرہ اور ابن عمر کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ساری زمینوں کو بائیں ہاتھ میں اور آسمانوں کو داہنے ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائیں گے۔ انا الملک این الجبارون این المتکبرون۔ یعنی میں ہی ملک اور مالک ہوں، آج جبارین اور متکبرین کہاں ہیں۔
اللہ عزوجل کی صفت قھاریت یہ ہے کہ اس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا اور پھر اس وجود پر فنا و فساد طاری کرتا رہتا ہے۔ جن و انس میں سے جو بھی القھار سے بغاوت کرتا ہے، قھار اُسکو اپنی زبردست قوت سے پکڑ لیتا ہے اور پھر اُسکی پکڑ سے چھڑانے والا کوئی نہیں۔ تمام مخلوقات قھار کے سامنے مجبور و بے بس ہیں۔
اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد ( 331 ۔ 301 ) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو ۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہوں نے سورہ مومن کا رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت، لِمَنِ الۡمُلۡکُ الۡیَوۡمَ ؕ لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَہَّارِ، پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی ۔ لرزتا ہوا تخت سے اترا ، تاج سر سے اتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب ، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری ۔
بدترین مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کا دور تھا۔ ایک پنڈت اپنے علوم و کمالات میں ایسا ماہر تھا کہ محمد شاہ رنگیلا بادشاہ بھی اس کی ایسی قدر کرتاتھا کہ شاید ماں کی بھی کم کرتا ہو۔ بادشاہ، ہندو پنڈت جس کا نام پنڈت بھگو رام تھا، سے ایک دفعہ سوال کر بیٹھا کہ مہاراج کوئی ایسی چیز بتائیں جو جنات اور جادو کا آخری ہتھیار ہو ننگی تلوار ہو اور جب بھی اس کو پڑھا جائے تو جادو جنات ایسے ٹوٹے جیسے میرے ہاتھ سے جام، پتھر کے فرش پر ٹوٹ کر چکنا چور ہوجاتا ہے۔ پنڈت بھگورام اپنی چاپ میں مصروف تھا۔ سراٹھایا تو اس کی سرخ آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ پنڈت نے کہا آپ کو ایک چیز بتاتا ہوں کیونکہ آپ مسلمان ہیں تو آپ کو ایک ایسی اسلامی چیز دیتا ہوں جو یقینا آپ کو زندگی کے وہ کمالات دے جو آپ کو آپ کی نسلوں کو سدا اور صدیوں یا د رہیں . محمد شاہ رنگیلا بادشاہ ایک دم چوکنا ہو کر بیٹھ گیا۔ اپنے تاج کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا اور کانوں کے قریب لے گیا تو پنڈت بھگورام بولا شہنشاہ اعظم آپ کے قرآن میں ایک لفظ ہےقَہّار یہ ایک ایسا لفظ ہے کہ جب بھی آپ یَاقَہَّارُ پڑھیں گے تو یہ بدکار جنات اور جادوگروں پر ایک ننگی تلوار ثابت ہو گا۔ (کیسی مزے کی بات ہے کہ ہندو ہمارے قرآن کا درس ہمیں دے رہے ہیں اور ہم منتروں پر توجہ کر رہے ہیں) آجکل بھی محمد شاہ رنگیلے کی باقیات کافی باقی ہیں فیس بُک پر جو ہندو لٹریچر سے بڑے متاثر ہیں اور قرآن کا نام سُنتے ہی اُنھیں غشی کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں، کبھی لمبا لگنا شروع ہو جاتا ہے اور کبھی جلالی۔
ایک اور قرآنی آیت ہے کہ، یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ
جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا اور آسمان، اور لوگ سب نکل کھڑے ہوں گے ایک اللہ کے سامنے جو سب پر غالب ہے۔
مسروق رحمہ اللہ نے کہا: میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ کا اللہ کے اس فرمان: یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (ابراہیم: 48/14) کے بارے میں کیا خیال ہے، لوگ اس دن کہاں ہوں گے؟ ترجمہ: جس دن زمین اس زمین کے سوا بدل دی جائے گی اور آسمان بھی، اور سب کے سب اللہ واحد و قہار (ایک و زبردست غلبہ والے) کے رو برو ہوں گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس وقت لوگ) پل صراط پر ہوں گے۔“
ان مندرجہ بالا آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سارے عالم میں اللہ کے سوا کسی کی کوئی تدبیر اور تصرف نہیں ہے کیونکہ اگر وہی خالق ہے تو پھر کنٹرول بھی اُسی کا ہے۔ اور یہ کہ اللہ عزوجل اپنی ذات، اپنے اسماء وصفات کی عظمت اور اپنے افعال کی عظمت میں منفرد ہے۔ وہ تمام کائنات پر غالب ہے یعنی قھار ہے۔ کائنات کی ہر چیز اس کے دست تصرف اور تدبیر کے تحت ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز حرکت کرسکتی ہے نہ ساکن ہوسکتی ہے۔
میں قھار کی ایک زکوۃ ادا کروانا چاہ رہا تھا۔ بڑا عرصہ ہو گیا کہ کسی اسم الٰہی کا پراپر ذکر نہ میں نے خود کیا نہ کروایا۔ دور حاضر کے کچھ جاہل عاملین نے اس عقیدہ کی ترویج میں بڑا حصہ لیا کہ اللہ کو اُسکے کسی جلالی نام سے نہ پکارا جائے۔ ایک عقیدہ کچھ یوں بھی ہے کہ ہر نام مختلف فریکونسیز پر مشتمل ہے اور اگر کسی اسم الٰہی یا آیت قرآنی کی فریکونسی آپ سے میچ نہ ہو تو جسم و روح کا سارا نظام درھم برھم ہو جاتا ہے۔ آئیے قران کی ایک آیت دیکھتے ہیں،
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے:
وَللہ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بھَا وَ ذَرُوا الَّذِین یُلْحِدُوْنَ فی اَسْمَآئِہٖ، سَیُجْزَوْنَ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (الاعراف:180)
اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے ہیں، انھیں جلد ہی اس کا بدلہ دیا جائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
ایک ترجمہ یہ بھی ہے۔
اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو پکارو اسے ان (اچھے ناموں) سے اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس کے ناموں میں کجی نکالتے ہیں عنقریب وہ بدلہ پائیں گے اپنے اعمال کا۔
اب غور کیجیے کہ قران تو کہہ رہا ہے کہ اللہ عزوجل کے تمام نام اچھے ہیں اور سو کالڈ عاملین فرما رہے ہیں کہ فلانہ نام نہ پڑھا جائے وہ جلالی ہے۔ تجلیات کے بڑے پیر صاحب، جو کہ پیر تو بہت بڑے تھے شائد، لیکن انسان بہت چھوٹے نکلے، نے بھی ایک دن ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ آپ لوگوں سے قھار پڑھواتے رہتے ہیں، اللہ سے اُسکا قھر مانگتے رہتے ہیں جبکہ قھار یا پھر ممیت پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اللہ عزوجل سے قھر اور موت مانگ رہے ہیں۔ ماضی کے ایک معروف عامل عظیمی صاحب نے بھی کچھ اس طرح کا مضمون بیان کیا کہ غلط آیت یا اسم الٰہی پڑھنے سے کینسر تک ہو سکتا ہے اور یہ سٹوپڈ عقیدہ آجکل کے بہت سے عاملین کا بھی ہے، جبکہ قرآن کہتا ہے،
یٰأَیُّھَاالنَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَائ’‘ لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ (یونس57)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت اور دلوں کی بیماریوں کی لئے شفا آگئی ہے۔‘‘
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ھُوَ شِفَائ’‘ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ إِلاَّ خَسَارًاO (بنی اسرائیل82)
’’اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے شفاء ہے مگر ظالموں کے لئے یہ قرآن خسارے کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔ ‘‘
قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَاء
’’کہہ دیجئے، یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے۔‘‘ (حم السجدہ 44)
اب غور فرمائیے کہ آیات و اسمائے الٰہی کو قران کے مطابق شفا مانا جائے یا کسی گھسے پٹے ہندو و عیسائی لٹریچر سے متاثر عامل کے بقول کینسر اور دیگر مسائل بڑھانے کا موجب؟
کیا قران کے مطابق سب اسمائے الٰہی کو اچھا مانا جائے یا سو کالڈ گھسے پٹے پیروں و عاملین کی رائے کے مطابق جلالی و جمالی؟
ٹھیک ہے عملیات کے قواعد کی اپنی ایک حقیقت ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ انکو قرآن و حدیث کے مقابلے پر لا کھڑا کیا جائے۔ سو یہ جلالی و جمالی کی سو کالڈ بکواس سے نکل کر قرآن کے اس عقیدے کی طرف آئیے کہ تمام اسما الحسنی اچھے ہیں اور آپ جسکا بھی ورد کرینگے آپکو فائدہ ہو گا، نقصان کبھی نہ ہو گا۔ چلو مجھے ہی دیکھ لیجیے۔ عمر ہو گئی قھار پڑھتے ہوئے۔ تقریباً بیس سال۔ ان بیس سالوں میں صرف قھار ہی نہیں مذل بھی بکثرت پڑھا۔ جبار بھی پڑھا، ممیت بھی پڑھا۔ ان میں سے کوئی بھی اسم الٰہی میرے نام یا برج یا سیارے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اگر کینسر ہوتا ہوتا تو ابھی تک مجھے چار بار ہو چُکا ہوتا۔ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، کہیں سے تھوڑا سا بھی لگتا ہے آپکو کہ میں نقصان میں ہوں، بیمار ہوں، کمر گردے اور دل کی بیماری میں مبتلا ہوں، رجعت زدہ ہوں، مرنے والا ہوں، شوکت خانم سے میری تھیراپی چل رہی ہے، دنیا و آخرت تباہ ہو چکیں ہیں، غربت ہی غربت ہے، برے حال بانکے دیہاڑے ہیں؟ اگر تو نہیں لگتا، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ، تو پھر اپنا عقیدہ درست کر لیجیے۔ بلکہ ہر چیز کے برعکس، میں سمجھتا ہوں میری زندگی کی رونق ہی اسمائے الٰہی اور مزمل ہیں۔ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ۔ سارے سو کالڈ قھر، ذلت، موت، والے جلالی نام بقول میراثیوں کے، اور دوسری قرآن کی لمبی سورہ مزمل جسکے بارے میراثیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ لمبی لمبی سورتیں پڑھنے کا کیا فائدہ جب کہ حاجت ایک نقش سے پوری ہو سکتی ہے۔ جبکہ لوگوں کے فیڈ بیک کی روشنی میں سب سے زیادہ فارغ نقوش انھی پیروں اور انکے نونہال شاگردوں کے ہیں۔ اچھا انکو شرم بھی نہیں آتی۔ یا تو یہ ہو کہ انکے نقوش کے لمبے لمبے سینکڑوں ہزاروں فیڈ بیک ہوں تو سمجھ بھی آئے کہ یار کیا فائدہ لمبے لمبے وظائف کا، حاجت تو واقعی اُنکے چھوٹے سے نقش سے پوری ہو جاتی ہے۔ جبکہ فیڈ بیک یہ ہیں کہ جناب بیسیوں نقوش لکھے لیکن آخر میں سارے فیض کو دریا بُرد ہی کرنا پڑا۔ اصل میں انکا فیض اور فٹے منہ دونوں ہی ف سے شروع ہوتے ہیں۔ بڑے پیر صاحب کے ساتھ انکی اپنی ٹیم میں موجود حضرات اپنی نجی محافل میں فرماتے ہیں کہ پیر صاحب کے علم میں ٹکے کا اثر نہیں۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ (حالنکہ اثر بھی ہے لیکن وہ ایک خاص طریقے سے ملتا ہے جس سے خود پیر صاحب بھی واقف نہیں)۔ دوسرے چھوٹے پیر صاحب، ٹکے کی اوقات نہیں جنکی، شاعری نقل کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا اور لائکس اور کمنٹس بھی تب ہی آتے تھے جب بھولے و شریف شبیر بھائی عوام کو ایک دھمکی لگا دیتے تھے ورنہ عوام ان پیر صاحب کو منہ لگانا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ ایک بڑے پیر صاحب کے ساتھ کنیڈا کا چول ترین مولوی نما ٹڈا اٹیچ تھا۔ عورتوں کو پیسوں کے لیے دھمکیاں دیتا تھا آج بھی ثبوت میرے پاس ہیں۔ پیر صاحب کو کنیڈا سے جیکٹ بھیج دی اور پیر صاحب اوقات سے باہر ہو گئے۔ چھوٹے بندے کی چھوٹی خواہشات۔ ہم مسند پر بٹھانا چاہتے تھے، پیر صاحب جیکٹ لے کر مطمئن ہو گئے۔ ہم ایک چھوٹی سی لائن خلاف منشا لکھ دیتے تھے تو گھنٹے کا لیکچر سننا پڑ جاتا تھا کہ گستاخی کر دی بزرگوں کی۔ انھی کا سو کالڈ شاگرد، گندے نالے کی پیداوار ، اگلے نے پوری بخاری شریف اور حدیث کی دیگر کتابوں کے اوپر ٹکا کر کیچڑ اچھالا لیکن بڑے پیر صاحب کو غیرت نہ آئی۔ ایک لفظ نہ نکلا منہ سے۔ منافقت کا کیا کمال لیول ہے۔ کمال کمایا بھی تو کس میں کمایا۔
ایک اور سو کالڈ زنانہ سید عابد کرشنا ہندو میراثی بھی نکلا تھا مجھ پر سات سال کا تباہی کا عمل کرنے، روزانہ سات مرتبہ کرنا شروع کیا تھا، سال سے اوپر ہو گیا، گھنٹہ کچھ نہ اکھاڑ سکا اور جب کچھ نہ بنا تو گروپ سے نکال دیا میراثی نے ہاہاہاہاہاہا۔ بس اتنا فرق پڑا کہ اب میں دن میں پیشاب بس سات مرتبہ کرتا ہوں۔
سو فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ ان سو کالڈ عاملین و ٹٹ پونجیوں پیروں کی فریکونسی والی چولیاں ماننی ہیں یا قرآن کی اس آیت کے مطابق اپنا قبلہ درست کرنا ہے۔
{فَمَنْ شَائَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیْلا} ’’جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے‘‘ (الدہر29)
اب آتے ہیں قھار کی ریاضت کی طرف۔ بہت دن ہو گئے کوئی اسم الٰہی کی ریاضت نہیں کی نہ کروائی۔ سو نو اکتوبر دو ہزار چوبیس، تاریخ جس کا مفرد اٹھارہ سے نو بنتا ہے، کو ہم قھار کا ایک عمل شروع کریں گے۔ ویسے تو نو تاریخ ہی اصل تاریخ ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے نو کو عمل نہ شروع کر سکیں تو پھر بارہ اکتوبر دو ہزار چوبیس سے شروع کر لیجیے گا۔ یہ عمل آپکے جمیع دشمنوں، حاسدین، سحر و جنات کے اوپر قھار کا عکس ڈالنے کا عمل ہو گا۔ اس عمل کے بے تحاشہ فوائد حاصل ہونگے کیونکہ یہ عمل زندگی سے جمیع نحوستوں کو ختم و کمزور کرے گا اور جب نحوست ختم ہوتی ہے تو خیر کے دروازے کھلتے ہیں۔
یہ عمل بھی پچھلے مزمل کے عمل کی طرح ۳٦٩ کی قوت سے مزین ہو گا۔ اس نمبر کا مفرد بھی اٹھارہ سے نو بنتا ہے۔ اور قھار کا مفرد بھی نو ہی ہے۔ اٹھارہ ہی دن کا عمل ہو گا۔ سو یہ تو ہو گئیں عددی مناسبات۔
اس عمل کے بھی ورد کے تین درجات ہونگے۔ عمل کی شمع کے اعداد بائیں بازو پر بھی لکھنے ہیں دوران عمل روزانہ۔ شمع کے اعداد یہ ہیں
164590270869024
درجہ نمبر ایک:
اول و آخر یہ درود پڑھا جائے گا۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ يَا قَهّارُ بِعَدَدِ مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ
پھر ۱۱۱ مرتبہ یاقھارُ کا ورد کیا جائے گا اور اُسکے بعد ایک مرتبہ پوسٹ کے اینڈ پر موجود دعا پڑھی جائے گی۔
پھر ۲۲۲ مرتبہ یاقھارُ پڑھا جائے گا اور آخر میں ایک مرتبہ دعا۔
پھر ۳۳۳ مرتبہ یاقھارُ پڑھا جائے گا اور آخر میں ایک مرتبہ دعا۔
اب درود پڑھ کر تین مرتبہ اللھم آمین کہ دیجیے گا۔
درجہ نمبر دو:
اول و آخر درود۔
پھر ٤٤٤ مرتبہ یاقھارُ کا ورد کیا جائے گا اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔
پھر ۵۵۵ مرتبہ یا قھارُ پڑھا جائے گا اور آخر میں ایک مرتبہ دعا۔
پھر ٦٦٦ مرتبہ یاقھارُ پڑھا جائے گا اور آخر میں ایک مرتبہ دعا۔
اب درود پڑھ کر تین مرتبہ اللھم آمین کہہ دیجیے گا۔
درجہ نمبر تین۔
اول و آخر درود۔
پھر ٧٧٧ مرتبہ یاقھارُ کا ورد کیا جائے اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔
پھر ۸۸۸ مرتبہ یاقھارُ کا ورد کیا جائے اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔
پھر ۹۹۹ مرتبہ یاقھارُ کا ورد کیا جائے اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔
اب درود پڑھ کر تین مرتبہ اللھم آمین کہہ دیجیے گا۔
اگر ان درجات کے اعداد پر غور کیا جائے تو ٣٦٩ کی قوت آپکے سامنے عیاں ہو گی۔ مثلا ،
111, 222, 333, 444, 555, 666, 777, 888, 999
3 6 9 , 3 6 9 , 3 6 9
رب القھار کی عنایت سے یہ ریسرچ بھی پہلی مرتبہ میں ہی آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آپ دیکھ رہے ہونگے کہ آپ جس بھی نمبر کی تلاوت کرتے ہیں اس عمل میں، بنتا وہ ۳٦٩ ہی ہے۔ یہ نمبر ذاتی ترقی اور کشش کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اس عدد کا روحانی توانائی سے ایک خاص تعلق ہے۔ یہ ایک بند دروازے کی چابی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ بندشوں کا قاطع اور مادی برائیوں کا خاتمہ کرنے والا نمبر ہے۔ کسی بھی اسم یا آیت یا سورہ قرآنی کو اس نمبر کے مطابق ورد کرنے سے بہترین اثرات رونما ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک مثلث بھریں اس طرح کہ پہلے خانے میں ۱۱۱ لکھیں، دوسرے میں ۲۲۲ لکھیں، تیسرے میں ۳۳۳ لکھیں اور اسی طرح ہر خانہ ۱۱۱ کے اضافے سے پُر کرتے جائیں یہاں تک کہ ۹۹۹ پر نقش ختم ہو جائے تو یہ ایک عظیم نقش ہو گا جو ٣٦٩ کی قوتوں سے بھرپور ہو گا۔ اتوار تیرہ تاریخ کو فجر کی نماز کے بعد ایک نقش بنانا چاہیں تو بنا کر اپنے کمرے میں لٹکا لیں۔ قھار کے ذکر میں کام آئے گا۔ میں کوشش کرونگا اس کو بنا کر پوسٹ میں شامل کر دوں۔
پہلے تین درجے نارمل لوگوں کے لیے ہیں۔ اب جو درجہ بتانے جا رہا ہوں، اسکا تعلق عاملین کے ساتھ ہو گا یا وہ لوگ جو پورے گھنٹے کا ذکر آرام سے کر سکتے ہوں کیونکہ اس درجے میں ایک گھنٹہ لازما لگے گا۔
درجہ نمبر چار:
ایک نمبر ہے ٧۵٦٠٠، اسکا مفرد بھی اٹھارہ سے نو بنتا ہے۔ آپ کسی بھی اسم الٰہی کی زکوۃ اس نمبر کے مطابق مندرجہ ذیل طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ یہ نمبر ایسا کمال کا نمبر ہے جو دو چار پانچ چھ سات آٹھ نو سب اعداد سے برابر تقسیم ہوتا ہے۔ علم العداد کی رو سے (وہ علم العداد جو مجھے آتا ہے) ایسا نمبر جو تمام مفرد اعداد پر تقسیم ہوتا ہو، ایک یونیورسل مطابقت والا نمبر تمام بروج و اشخاص کے لیے ہوتا ہے۔ مثلاً میرے نام کا مفرد عدد اگر سات بنتا ہے تو سوا لاکھ والا ہندسہ مجھے سوٹ نہیں کرتا یا میری زکوة کے لیے مناسب نہیں۔ اور مزیدار بات تو یہ کہ علم العداد کی رو سے تو سوا لاکھ کا ہندسہ قھار کے اعداد کے ساتھ بھی میل نہیں کھاتا۔ سو عملیات کے قوانین کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم نے اسم الٰہی قھار کی زکوۃ ادا کرنی ہے تو ہمیں کوئی ایسا نمبر چاہیے ہو گا جو قھار کے اعداد کے ساتھ بھی منسلک ہو اور زکوة ادا کرنے والے کے اعداد کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہو۔ اور جناب ایسا نمبر ہے ٧۵٦٠٠
میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ نمبر اور یہ تحقیق آپکو کسی کتاب میں نہ ملے گی۔ اب زکوة کا طریقہ سمجھ لیجیے۔
اکیس دنوں کی زکوة ہو گی۔
پہلے بیس دن کی روٹین یہ ہو گی۔
اول درود۔
پھر ٣٦٩ کی ایک تسبیح یاقھارُ کی اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔ ایسی دس تسبیحات ٣٦٩ کی ہونگی اور ہر تسبیح کے بعد ایک مرتبہ دعا پڑھی جائے گی سوائے دسویں تسبیح کے۔ یعنی نو تسبیحات جو آپ ٣٦٩ کی کریں گے اور ہر تسبیح کے بعد ایک مرتبہ دعا تو یہ کل نو مرتبہ دعا پڑھی جائے گی۔ جب آپ آخری تسبیح، دسویں تسبیح، یاقھارُ کی ٣٦٩ مرتبہ پڑھیں گے تو اُسکے بعد درود پڑھ کر تین مرتبہ اللھم آمین کہہ کر عمل ختم کر دیجیے گا۔ روزانہ ٣٦٩٠ کی تعداد ہو گی اس طرح۔ اس طرح بیس دن کرنا ہے۔ اکیسویں دن آپ نے عمل ایسے کرنا ہے کہ پہلے چار تسبیحات ٣٦٩ کی آپ نے کرنی ہے اور ہر تسبیح کے بعد ایک مرتبہ دعا۔ پانچویں تسبیح آپ نے ٣٢٤ کی کرنی ہے جسکے فورا بعد درود پڑھ کر اللھم آمین تین مرتبہ کہہ کر عمل آپ نے ختم کر دینا ہے اور پھر اُسکے بعد عمل و زکوة قھار کا ختم دلا دینا ہے۔ ختم کے بعد دعا ایسے کرنی ہے۔
اے اللہ ربَ القھار جو میں نے تیرے اسم پاک قھار کا ورد کیا ہے، یہ ورد میں ق کے موکلات و جنات کو ہدیہ کرتی/کرتا ہوں۔ اے رب القھار ان خدام ق کے مرتبے کو بلند فرما اور انکی قوت و طاقت میں اضافہ فرما اور اے اللہ ، اسم پاک قھار کی برکت و وسیلے سے میری جمیع حاجات پوری فرما۔
چاروں درجات میں سے جو بھی زکوة آپ ادا کریں اُسکے بعد روزانہ مداومت ٣٦٩ مرتبہ ہو گی ایسے کہ پہلے درود، پھر تین سو مرتبہ قھار پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ دعا، پھر ساٹھ مرتبہ قھار پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ دعا اور پھر نو مرتبہ قھار پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ دعا، پھر درود اور اللھم آمین تین مرتبہ۔ اگر کبھی مداومت چھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں۔ جب موقع ملے دوبارہ شروع کر لیں۔ مدامت چھوڑ دینے سے آپکی زکوۃ ختم نہ ہو گی۔ قھار کے موکلات اپنے ذاکر کو یاد رکھتے ہیں۔
اگر اس چوتھے درجے کی تفصیل آپکو سمجھ نہ آئے تو بس روزانہ اکیس دن ٣٦٠٠ کی تعداد میں یاقھارُ کا ورد کر لیجیے گا۔ پہلے درود اور پھر ایک مرتبہ دعا پڑھیے، پھر اٹھارہ سو مرتبہ قھار پڑھ کر ایک مرتبہ دعا پڑھیے۔ پھر دوبارہ اٹھارہ سو مرتبہ قھار پڑھ کر ایک مرتبہ دعا پڑھ کر درود پڑھ لیجیے اور اللھم آمین تین مرتبہ کہہ کر عمل مکمل کر لیجیے گا۔ اسکے بعد مداومت کی تعداد روزانہ اول و آخر درود کے ساتھ تین سو ساٹھ مرتبہ ہو گی کہ پہلے درود، ایک مرتبہ دعا، پھر ۱۸۰ مرتبہ قھار پھر دعا پھر ۱۸۰ مرتبہ قھار کا ورد اور دعا، پھر درود اور آمین۔
یہ جو دعا آپ لوگ پڑھیں گے یہ ایک نہایت ہی اعلی دعا ہے جسمیں ق کے سارے اسمائے الٰہی شامل ہیں۔ یہ کمال کی دعا ہے۔ جب زکوۃ مکمل کر لیں تو کبھی بھی اس شمع کے ساتھ صرف یہ دعا اٹھارہ مرتبہ یا پینتالیس مرتبہ پڑھی جائے نو دن یا اٹھارہ دن۔ یہ دعا آپکے دشمنوں، جن و انس کے لیے قھار کی زور دار چپیڑ ہو گی۔ حاسدین کا منہ توڑے گی اور بہت ساری خیر و برکات آپکی زندگی میں پیدا کرے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ ان باتوں کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کسی اسم الٰہی یا آیت یا سورہ قرآنی کی زکوة کا کانسیپٹ ہمیں قرآن و حدیث سے ملتا ہے۔ یہ ہمارے (عاملین) کے بنائے ہوئے اپنے طریقے ہیں۔ ایک عام آدمی کو کسی بھی زکوة کی ضرورت ہوتی نہیں۔ وہ صرف اپنی مرضی کا اسم الٰہی منتخب کرے اور اُسکا ذکر کسی بھی تعداد میں کرنا شروع کر دے۔ مثلا ۹۹ اسمائے الٰہی ہیں تو ۹۹ کی ایک تسبیح ہر نماز کے بعد یا صبح شام کر لے۔ قران کی ایکسو چودہ سورتیں ہیں، تو ایکسو چودہ مرتبہ صبح شام یا ہر نماز کے بعد پڑھ لے یا ویسے ہی کھلا ذکر قھار جاری کر لے۔ چاہے تو اپنی طرف سے کوئی تعداد مقرر کر کے ورد کر لے۔
دوبارہ میرا اسمائے الٰہی سے متعلق عقیدہ پڑھ لیجیے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو میں نے قرآن سے اخذ کیا ہے۔ “اللہ عزوجل کی ذات مکمل کامل اور عظیم ترین صفات سے مزین ہے۔ اللہ عزوجل کے مختلف نام درحقیقت اُسکی مختلف صفات ہیں اور اپنی ہر صفت میں اللہ عزوجل کو حد درجہ کمال حاصل ہے۔ اس کے کسی اسم (صفت) میں کوئی نقص یا کمی نہیں۔ سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، سو اسے ان کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں سیدھے راستے سے ہٹتے و ہٹاتے ہیں، انھیں جلد ہی رب القھار سے ان کے کرتوتوں کا بدلہ دیا جائے گا۔
دعا یہ ہے
اَللّٰھُمَّ یَا قَیُّومُ یَا قَھَّارُ یَا قَادِرُ یَا قَوِیُّ یَا قُدُّوسُ یَا قَابِضُ
یَا قَرِیࣿبُ یَا قَدِیࣿمُ یَا قَاھِرُ یَا قَائِمُ بِفَضࣿلِ وَ بِسِرّ ِ وَ بِبَرَکَةِ
وَبِعَظࣿمَةِ وَ بِھَیࣿبَةِ وَ بِجَلَالِ وَ بِجَمَالِ وَ بِکَمَالِ وَ بِجَبَرُوࣿتِ
وَبِمَلَکُوࣿتِ اِسࣿمِکَ الࣿعَظِیࣿمِ الࣿاَعࣿظَمِ الࣿقَھَّارِ اَنࣿ تَنࣿصُرَنِیࣿ عَلَی
مَنࣿ ظَلَمَنِیࣿ وَ تَقࣿھَرَ مَنࣿ قَھَرَنِیࣿ وَ تُھࣿلِکَ وَ تَخࣿذُلَ مَنࣿ اَرَادَنِیࣿ
بِسُوءٍ مَکࣿرًا وَ غَدࣿرًا وَ ظُلࣿمًا وَ سِحࣿرًا وَ کَیࣿدًا وَ حِقࣿدًا وَ حَسَدًا
مِنَ الࣿجِنّ ِ وَالࣿاِنࣿسِ وَالشَّیَاطِیࣿنِ وَ سَائِرِ خَلࣿقِکَ اَجࣿمَعِیࣿنَ فَمَا
اَسࣿرَعَ نُزُوࣿلُ بَطࣿشِکَ الشَّدِیࣿدِ وَمَا اَسࣿرَعَ حُلُوࣿلُ قَھࣿرِکَ الࣿمَجِیࣿدِ
بِکُلّ ِ جَبَّارٍ عَنِیࣿدٍ وَ شَیࣿطَانٍ مࣿ مَرِیࣿد۔
صدق اللہ العلی العظیم
واللہ اعلی و اعلم۔