توکل و کافی کی پوسٹ
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
انه من سلیمن و انه بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رب القھار پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقہ کے ساتھ اللہ عزوجل کا حکم بھی ہے۔ قرآن وحدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم میں سات مرتبہ ’’وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ کی تکرار فرما کر ہمیں صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک طرح سے یہ حکم رب القھار ہے کہ قھار پر ایمان لانے والوں کو صرف قھار ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
حضرت ابو تراب رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں : دل کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ مطمئن ہو جانا توکل کہلاتا ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تک پہنچانے والے سترہ درجات ہیں ان میں سے سب سے چھوٹا درجہ اجابت (مان لینے کا) ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ پر توکل اختیار کرنا ہے۔
حضرت یحی بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تین خوبیاں اولیاء کی صفات میں شامل ہیں : ہر کام میں اللہ کی ذات پر یقین رکھنا، اس کے لئے باقی ہر چیز سے بے نیازی اور ہر کام کرنے سے پہلے اس کی طرف رجوع کرنا۔
اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا عظیم کام ہے لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اسی پر بھروسہ رکھے اور اپنا معاملہ اسی کے سپرد کر دے کیونکہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام دُنیوی اور اُخروی امور میں اسے کافی ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں مسلمانوں کو توکل کی طرف راغب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’اِنْ یَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْۚ-وَ اِنْ یَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖؕ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘(ال عمران:۱۶۰)
اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو پھراس کے بعد کون تمہاری مدد کرسکتا ہے؟ اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
اور ارشاد فرماتا ہے :
’’وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ‘‘( طلاق:۳)
اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِاللهِ ط هُوَ مَوْلٰـکُمْ ج فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُo
(الحج، 22 : 78)
’’اور اللہ (کے دامن) کو مضبوطی سے تھامے رکھو، وہی تمہارا مدد گار ہے، پس وہ کتنا اچھا کارساز اور کتنا اچھا مدد گار ہے‘‘
۱۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضي الله عنهما نے فرمایا : جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ معزز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بے نیاز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر کفایت کرے۔ (مسند احمد بن حنبل) (کیا کمال کی خوبصورت حدیث ہے)
۲۔ حضرت سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان اور عبد اللہ بن سلام آپس میں ملے، تو ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ اگر تو مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ملا تو مجھ سے ملنا اور جو کچھ تو اللہ تعالیٰ سے انعام و اکرام پائے اس کے بارے میں مجھے بھی بتانا، اور اگر میں تم سے پہلے اللہ تعالیٰ سے ملا تو میں تم سے مل کر تمہیں بتاؤں گا، پس ان میں سے ایک فوت ہوگیا، اور اپنے دوست سے خواب میں ملا اور اسے کہا کہ توکل اختیار کرو اور خوش خبری ہو تمہیں، پس میں نے توکل جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، ایسا تین مرتبہ کہا۔ (بیھقی)
میرے یعنی اظہر حسین صادق کے نزدیک توکل کی تعریف بڑی سمپل ہے۔ اللہ رب القھار کی ذات کو اپنے ہر معاملے میں اپنے لیے کافی سمجھنا توکل ہے۔ مندرجہ ذیل جو آیات میں دینے لگا ہوں یہ آیات الکفایہ کہلاتی ہیں۔ درحقیقت ان آیات میں اللہ رب القھار کی ذات انسان کو بتا رہی ہے کہ وہ انسان کے لیے کافی ہے۔ اب آگے انسان بے شرم نکل ائے تو وہ الگ بات ہے۔
وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآىٕكُمْؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَلِیًّا ﱪ وَّ كَفٰى بِاللّٰهِ نَصِیْرًا
اور اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور حفاظت کے لئے اللہ ہی کافی ہے اور اللہ ہی کافی مددگار ہے ۔
الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں کرتے اور اللہ کافی حساب لینے والاہے۔
ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا
یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو اور ان کی ایذا پر درگزر فرماؤ اور اللہ پر بھروسہ کرواور اللہ بس ہے کارساز
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
وہی (اللہ ) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کردے اور اللہ کافی گواہ ہے۔
وَکَفٰی بِرَبِّکَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًاo
اور تمھارا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لیے کافی ہے.
جن لوگوں نے سورہ مزمل کی زکوۃ پچھلے دنوں دی تھی، اُنھوں سے اُس عمل میں ایک دعا پڑھی تھی جسمیں یہ سب آیات میں نے شامل کی تھیں۔ اب اُسی دعا کو مزید کچھ تبدیلیوں کے ساتھ آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ دعا کے فوائد جب آیات الکفایہ کے ساتھ ملینگے تو ایک نہایت جامع چیز وجود میں آئے گی۔ لیجیے دعا حاضر ہے۔
اَللّٰھُمَّ یَا ذَا الْجَلَا لِ وَ الْاِکْرَامِ یَا کَافِیَ المُھِمَّاتِ یَا دَافِعَ البَلِیَّاتِ يَا مُفَتِّحَ الْأَبْوَابِ يَا مُسَبِّبَ الْأَسْبَابِ اِفْتَحْ لَنَا اَبوَابَ الخَیرِ وَالرزقِ وَ سَهِّلْ إِلَيْنَا وَ اَصرِف عَنَّا جَمِیعِ اَنوَاعِ السِّحرِ وَاَبطَلَهُ يَا مُفَرِّجُ فَرِّجْ يَا مُيَسِّرُ يَسِّرْ يَا مُسَهِّلُ سَهِّلْ يَا مُتَمِّمُ تَمِّمْ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ نِعْمَ الْمَوْلَى وَ نِعْمَ النَّصِيرُ وَ كَفَى بِاللَّهِ وَلِيّاً وَ كَفَى بِاللَّهِ نَصِيراً وَ كَفَى بِاللَّهِ حَسِيباً وَ كَفَى بِاللَّهِ عَلِيماً وَ كَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا وَ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً وَکَفٰی بِرَبِّکَ هَادِيًا وَّنَصِيْرًا هُوَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِیْلًا اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۔
اس دعا کی اجازت صرف اُن لوگوں کو ہے میری طرف سے، جنھوں نے اللھم پارٹ ون یا سورہ مزمل کا عمل مکمل کیا ہے۔ اگر کسی نے کبھی میرا کن فیکون والا عمل کیا ہو تو اُسکو بھی اجازت ہے۔ حدیث نمبر ایک بھی زبانی یاد کر لیجیے گا۔ باقی سب حضرات سے فی الحال معذرت ہے۔
اس دعا میں آپ اللہ سے خیر اور رزق کے دروازے کھولنے کی درخواست کر رہے ہیں، اپنے لیے اپنے کاموں میں آسانی مانگ رہے ہیں، اپنے اوپر سے ہر قسم کے جادو کے ختم ہونے کا سوال کر رہے ہیں اور اپنے لیے سہولت و آسانیاں مانگتے ہوئے اللہ رب القھار کی واحدانیت اور بڑائی اور اُس کے انسان کے لیے مددگار و کافی ہونے کا اقرار بھی کر رہے ہیں۔ اس دعا میں ہر قسم کی خیر شامل ہے۔ شروع اسم اعظم اللھم سے ہو رہی ہے۔ ذاالجلال والاکرام کو بھی اسم اعظم مانا جاتا ہے۔ دعا کے اندر اللہ رب العزت کے مختلف نام شامل ہیں اور قران مجید کی آیات کی شمولیت اس دعا کو مزید حسن بخشتی ہے۔ چونکہ اس دعا میں اللہ کے مددگار ہونے کو کافی سمجھا گیا ہے، اس لیے یہ دعا پڑھنے کا مطلب شیطان کو ڈائریکٹ ضرب مارنا اور شرک سے مکمل اظہار برأت کرنا ہے۔ اس سے نہ صرف انسان اللہ کی نظروں میں ایک پسندیدہ بندہ ٹھرے گا بلکہ ملائکہ و نیک جنات بھی کثرت سے اس انسان کو شرف ملاقات بخشیں گے۔ اس دعا کا پڑھنا سراسر خیر ہے اور دعا کو ہی عبادت بھی کہا گیا ہے۔ آیات الکفایہ، وکفی باللہ والی، جو اس دعا میں شامل ہیں اُنکے کئی وظائف عاملین میں مشہور ہے۔ اسم الٰہی کافیُ کے ساتھ یہ آیات کفایہ کمال اثرات کی حامل ہیں۔ اس دعا میں رب القھار کی قوت کُن فیکون کا بھی تذکرہ ہے کہ وہ اللہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہوجاتی ہے۔ یہ دعا ایک جامع پیکج ہے اور سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں کہ اس دعا میں کیا کیا ہے۔
چند چول ترین لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ سے دنیاوی حاجات طلب کرنے کے لیے وظائف کرنے کا ثواب نہیں ملتا۔ جبکہ اللہ خود فرماتا ہے کہ مجھ سے دنیا و آخرت دونوں طلب کرو۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا، لهٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں، سو تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تم کو ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جس کو میں کھانا کھلائوں، پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تم کو کھلائوں گا، اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو سوائے اس کے جس کو میں لباس پہنائوں، لهٰذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تم کو لباس پہنائوں گا، اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تم کو بخش دوں گا۔‘‘
اسے امام مسلم، بزار اور بخاری نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں روایت کیا ہے۔
اب یہاں اللہ رب القھار کھانا اور لباس کے طلب کرنے کے بارے جو دعا کا حکم دے رہے ہیں کیا یہ دنیاوی حاجات نہیں؟ اور کیا دعا کرنا عبادت نہیں؟
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دعا عین عبادت ہے، پھر آپ ﷺ نے (بطور دلیل) یہ آیت تلاوت فرمائی :
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِيْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ {اور تمہارے رب نے فرمایا ہے : تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے}۔‘‘
امام ترمذی اور ابو داود نے اسے روایت کیا ہے، اور امام ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہیں دشمن سے بچائے اور تمہارے رزق میں اضافہ کر دے؟ اللہ تعالیٰ سے دن رات دعا کرتے رہو، کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘ اسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
حضرت سہل بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا : اللہ نے مخلوق کو پیدا کر کے فرمایا : مجھ سے باتیں کرو، اگر یہ نہ کر سکو تو میری طرف دیکھو، اگر یہ بھی نہ کر سکو تو میری بات کو سنو، اگر یہ بھی نہ کر سکو تو میرے دروازے پر رہو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو دعا کی صورت میں میرے پاس اپنی ضرورتوں کو لاؤ۔
اب تین احادیث آپکے سامنے پیش کیں۔ دو میں اللہ رب العزت ہمیں اپنی دنیاوی ضروریات اللہ سے مانگنے کی ترغیب دے رہا ہے اور ایک حدیث میں اللہ اپنی ذات سے مانگنے کو عبادت کا درجہ دے رہا ہے۔ تو جب آپ اللہ سے مانگیں گے، دینی و دنیاوی سب ضروریات، اور وہ مانگنا عبادت ہی کہلائے گا تو کیا اسکا ثواب نہ ہو گا؟ ہمارے نزدیک تو ہے لیکن سیانے کوووں کے نزدیک ایسا نہ ہے کیونکہ سیانے کوے نے گرنا گونھ پر ہی ہوتا ہے۔ ضرب المثال مشہور ہے۔ سو کوئی کوا کتنی ہی بکواس کیوں نہ کر لے، یاد رکھیے گا کہ اپنی دنیاوی حاجات کے لیے کسی بھی قسم کا قرآنی وظیفہ کرنا، یا اسمائے الٰہی سے مدد لینا نہ صرف یہ کہ ایک پسندیدہ طریقہ ہے، عام مسلمانوں کا بھی اور بزرگان دین کا بھی، بلکہ اسکا بے پناہ ثواب ہے۔ مثلا کسی عورت نے شادی کے لیے سورہ کوثر کا وظیفہ کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے تو اُس نے یہ مانا کہ سورہ کوثر اللہ کا ایسا کلام ہے جو اُسکی حاجت پوری کر سکتا ہے۔ یہ ماننا ہی اُس عورت کے ایمان کی دلیل ہے کہ وہ اللہ رب العزت اور اُسکے کلام قرآنی کو اس قابل سمجھتی ہے کہ اُس سے استفادہ حاصل کر سکے ورنہ ذرائع تو اور بھی ہیں۔ پھر جب اُس عورت نے سورہ کوثر کو پڑھنا شروع کیا تو اب اُسکو تلاوت قران پاک کا شرف حاصل ہو گیا۔ اب تلاوت کے بعد جب اُس عورت نے اپنی شادی کی حاجت اللہ کی بارگاہ میں پیش کی تو دعا کی فضیلت حاصل ہو گئی۔ اس پورے پروسیس کے بعد اگر عقیدہ یہ رکھا جائے کہ چونکہ حاجت دنیاوی تھی اسلیے اس عورت کو کوئی ثواب حاصل نہ ہوا تو ایسا چول اور جاہل عقیدہ رکھنے پر آپکو شہنشاہِ چولیات کا خطاب تو ضرور ملنا چاہیے۔ میری دعا کہ آپ اپنی پوری بچی کُچی حیات مبارکہ ایسی ہی چولیات میں گزاریں اور دن دگنی رات چگنی ترقی آپکو عطا ہو۔ دوسرا عقیدہ یہ رکھا جائے کہ نکاح جیسی دنیاوی سنت پوری کرنے کے لیے کسی عورت نے سورہ کوثر کا عمل کیا تو اب سورہ کوثر کے موکلات غصے میں آ کر عورت کو نقصان پہنچائیں گے تو بلاشبہ اب آپ چولیت کے میدان میں شہنشاہ ہند بن چکے۔ اور مطمئن رہیے کہ یہ عہدہ آپکا ہی تاحیات رہے گا اور اس چولیت کی گدی پر آپ ہی تاحیات براجمان رہیں گے۔ ہم جیسے اس میدان میں آپکی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔
ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن تامر کا ہے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ جب ان کو پکڑ کر کسی بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ نے ان سے دین اسلام چھوڑنے کو کہا تو انہوں نے اس سے انکار کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اس کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جائیں۔ پھر اس سے اس کے دین چھوڑنے کو کہیں اگر یہ مان لے تو اچھا ہے ورنہ اس پہاڑ سے اسے لڑھکا دیں۔ چنانچہ اس کے سپاہی پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے۔ جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو انہوں نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی:
(اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِمَا شِئْتَ)
’’خدا جس طرح چاہے مجھے ان سے نجات دے۔‘‘
اس دعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک کر گر گئے۔ صرف حضرت عبداللہ بن تامر بچے رہے۔ جب وہاں سے اترے تو ہنسی خوشی اس ظالم بادشاہ کے پاس گئے تو بادشاہ نے کہا: کیا ہوا میرے سپاہی کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میرے خدا نے مجھے بچا لیا ہے اور ان سب کو گرا دیا۔ اور وہ سب مر گئے۔ پھر اس نے اور سپاہیوں کو بلوایا اور ان سے یہ کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ۔ اور بیچو بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ۔ یہ اسے لے کر چلے اور بیچو بیچ سمندر میں پھینکنا چاہا تو انہوں نے وہی دعا پڑھی:
(اللَّهُمَّ اكْفِنِيْهِمْ بِمَا شِئْتَ)
’’خدایا جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے۔‘‘
وہ سب کے سب سمندر میں ڈوب گئے۔ صرف تنہا یہی زندہ سلامت باقی رہے۔ (مسند احمد)
تو عرض یہ ہے کہ اللہ کو کافی سمجھنا ایمان کا ایک بہت بڑا درجہ ہے۔ اور اللہ کو کافی سمجھتے ہوئے اپنی دینی و دنیاوی حاجات اللہ سے ہی طلب کرنا، چاہے وہ پوری ہوں یا نہ ہوں، ایک ایسا مقام ہے جسکی فضیلت کے بارے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک حدیث ہے کہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے اور اللہ اس پر ناراض ہونے کی وجہ سے اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ وہ پھر پکارتا ہے، اللہ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے : میرے بندے نے میرے سوا کسی اور کو پکارنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجھے ہی پکارتا رہا حالانکہ میں نے اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ لهٰذا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کی دعا قبول فرما لی۔
اسے امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
خیر مضمون پھر لمبا ہو گیا۔ آتے ہیں اس عمل کی دعا کی طرف۔ تو شمع کے اعداد یہ ہیں۔
13658781113082
یہ شمع جلا کر یہ پہلے کوئی درود پڑھیں۔ پھر ایک مرتبہ بسم اللہ کے ساتھ دعا تین مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔ پھر بسم اللہ پڑھ کر دعا چھ مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔ پھر بسم اللہ پڑھ کر دعا نو مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں۔ اب ایک مرتبہ پھر درود پڑھ کر تین مرتبہ اللھم آمین کہہ کر عمل مکمل کر لیں۔ شمع جلتی رہے۔ آپ اپنے کام کریں بیشک۔ اس عمل کو تین دن یا چھ دن یا نو دن یا بارہ دن یا پندرہ دن یا اٹھارہ دن یا اکیس دن یا چوبیس دن یا ستائیس دن کیا جائے۔ جب ضرورت پڑے دھرا لیں۔ چاہے تو لمبا چلائیں چاہے تو کچھ دن چلائیں۔ لیکن سورہ مزمل اور اللھم کے ذاکر کو اسکے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہ ہے۔ اس دعا کو یاد کر لیا جائے اور مشکل مواقع پر بھی اور عام دنوں میں بھی اپنی نماز کے بعد ایک مرتبہ یا تین مرتبہ توجہ سے پڑھ لیا جائے۔
جب اس عمل کی شمع روشن کی گئی تو یہ معلومات حاصل ہوئیں۔
عرش پر احدیت اور واحدانیت کے نور سے مجسم ایک دریا ہے۔ وہاں پر جو ملائکہ موجود ہیں اُنکا تصرف ہے اس دعا کے کلمات پر۔ اس شمع کے موکلات و اثرات تیز تر ہیں اور ملائکہ کی ایک بہت بڑی تعداد اس دعا میں شامل ہے۔ یہ موکلات چاندی کی طرح چمکتے ہیں اور انکا نور سنہری ہے۔ بہت تیز خوشبو ہے اور بالکل الگ ہے۔ آپ میں سے جو اس خوشبو کو محسوس کرے گا ، اُس نے پہلے ایسی خوشبو نہ سونگھی ہو گی۔ نور و خوشبو کا ایسا حسین امتزاج ہیں یہ موکلات کہ بیان سے باہر ہے۔ ہر نماز میں اس دعا کو دہرایا جائے اور اپنی دعا اور مقصد کو بیان کیا جائے اللہ کے حضور۔ یہ دعا جلالی دعا ہے اور بجلی کی تیزی سے اسکے موکلات ذاکر کے پاس پہنچتے ہیں اور اُسکے لیے کام کرتے ہیں۔ رزق کے عطا ہونے کے لیے شمع کے موکلات نے ایک عمل بتایا۔ یہ عمل تہجد گزار لوگوں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔
تہجد کے دو نفل پڑھ کر اسغفراللہ کو سو مرتبہ پڑھیں اور اُسکے بعد ایک مرتبہ دعا۔ اس طرح نو سو مرتبہ استغفرالله پڑھا جائے اور ہر سو مرتبہ کے بعد دعا ایک مرتبہ۔ یہ عمل رزق کے لیے دیا گیا۔ دنوں کی تعداد کا تعین اپنی مرضی سے کیا جائے۔ لیکن وقفے وقفے سے عمل جاری رکھا جائے تو بہتر ہے۔
اس دعا کو مقام ابراہیم کے پاس پڑھنے کی بہت تاثیر بتائی گئی۔ اس دعا میں موجود اسم الٰہی ذاالجلال والاکرام کی ایک خاص نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قائم ہے اور مقام ابراہیم کے گرد بھی اس اسم الٰہی کا ایک سنہرہ نور گردش کر رہا ہے۔ جو بندہ بھی اسم ذوالجلال والاکرام کا عمل کرتا ہے اس کی ایک خاص نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔
مکہ مکرمہ کی مسجد حرام کے صحن مقدس میں واقع ایک جگہ کو’مقام ابراہیم’ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران جب دیواریں سر سے اونچی ہونے لگیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمائیل علیہ السلام ںسے ایسا پتّھر لانے کا فرمایا جس پر کھڑے ہوکر تعمیراتی کام کرسکیں، چنانچہ آپ عَلَیْہِ السّلَام قریب ہی موجود دنیا کے پہلے پہاڑ’’اَبُو قُبَیْس‘‘کی طرف تشریف لے گئے۔ راستے میں جبرائیل علیہ السلام ملے اور اَبُو قُبَیْس میں موجود دو مُبارَک پتّھر دکھائے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ جنّت سے دنیا میں آئے تھے لیکن حضرت ادریس علیہ السلام نے ’’طوفانِ نوح‘‘ کے خوف سے اِنہیں اِس پہاڑ میں چھپا دیا تھا۔ جبریل عَلَیْہِ السّلَام نے ایک پتّھر خانَۂ کعبہ میں لگانے اور دوسرے پتّھر پر کھڑے ہوکر تعمیراتی کام کرنے کی عرض کی، چنانچہ جس پتّھر کو خانہ کعبہ میں لگایا گیا اُسے حجر اسود کہا جاتا ہے اورجس پتّھر پر کھڑے ہوکر حضرتِ اِبراہیم عَلَیْہِ السّلَام نے تعمیراتی کام کیا اُسے’’مقام ِ ابراہیم‘‘ (ابراہیم عَلَیْہِ السّلَام کے کھڑے ہونے کی جگہ) کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حجراسود اور مقام ابراہیم جنت کے دو یاقوت ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی مٹا دی ، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ مشرق و مغرب کو روشن کردیتے۔ مقام ابراہیم کی اپنی بھی ایک بہت بڑی اہمیت ہے لیکن فی الحال وہ ہمارے موضوع کا حصہ نہیں۔
ہر بدھ کی رات کو جائز حاجات کے لیے ایک کمال کا عمل بتایا گیا۔ سب سے پہلے دو رکعات نفل پڑھنی ہےاور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسکا ثواب و ہدیہ پیش کرنا ہے۔ اس کے بعد درود پڑھ کر اللہ تعالی کے 99 نام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پڑھنے ہیں۔ (یاد رکھیے گا کہ محمد کریم کے ناموں کے ساتھ کبھی یَا نہیں پڑھنا، یَا صرف رب القھار کے ناموں کے ساتھ ہی پڑھا جاتا ہے) اس کے بعد یاسین شریف پڑھنی ہے اور ہر مبین پر ٹھہر کر یہ دعا سات مرتبہ پڑھنی ہے ۔ آخر میں پھر درود پڑھ کر اللھم آمین تین مرتبہ کہنا ہے۔ کمال کا عمل ہے یہ اور اسکی میں الگ سے پوسٹ بھی کرونگا۔ ہر جائز مقصد کے لیے اس عمل کو کیا جائے تو مقصد ضرور پورا ہوتا ہے ان شاءاللہ۔ جو بندہ نبی کریم کے ناموں کے ساتھ یا نہ پڑھنے کی میری بات سے متفق نہ ہو، وہ یہ عمل نہ کرے کیونکہ میری طرف سے اُسکو قطعا اجازت نہیں۔
اگر کسی کو یہ عمل کچھ طویل لگے تو ایک آسانی یہ دی گئی کہ نماز، رب القھار کے نام اور محمد کریم کے نام تو لازمی پڑھے جائیں۔ پھر درود پڑھا جائے اور یاسین شریف شروع کرنے سے پہلے اس دعا کو پڑھا جائے پھر ہر مبین پر ایک مرتبہ اور اخر میں ایک دفعہ پڑھا جائے اس طرح تعداد نو ہو جائے گی اس دعا کی۔ پھر درود پڑھ کر اللھم آمین تین مرتبہ۔
یہ جو بھی عملیات، روحانیت نے بتائے ہیں استغفراللہ سے لے کر سورہ یس تک، انمیں آپ چاہیں تو شمع جلا سکتے ہیں اور شمع جلانا ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلہ ہو تو بیشک نہ جلائیں۔
اس دعا کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ایک تو یہ دعا خود بہت بڑا عمل ہے دوسرا اس دعا کو کسی بھی عمل کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ یعنی جو شمع میں نے دی ہے یہ آپ کسی بھی وظیفے میں جلا سکتے ہیں۔ یعنی قران و اسما سے جو بھی وظیفہ کریں اُسکے ساتھ یہ شمع جلا لیں اور دعا پڑھ لیں۔
پھر دھرا دوں کہ اس پوسٹ کی اجازت صرف اللھم پارٹ ون اور مزمل کے اعمال میرے ساتھ جنھوں نے کیے ہیں، اُنکو اجازت ہے اور کسی کو نہیں۔ حدیث نمبر ایک یاد سے یاد کر لیجیے گا۔
صدق اللہ العلی العظیم
واللہ اعلی و اعلم۔