spiritual revelations

الوھاب، قسط پنجم

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم

انه من سلیمن و انه بسم الله الرحمن الرحیم

بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔

دعا:

اَللّٰھُمَّ یَا قَھَّارُ یَا وَہَّابُ ہَب لِی مِن الرِّزࣿقِ وَالࣿفَتُوࣿحَاتِ وَ نِّعࣿمَةِ الدُّنیَا وَالاٰخِرَةِ

آیت:

رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ھَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ۔ إِنَّكَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرماجو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو، یقینا تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔ سورہ ص،

یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔

آپ سب کو پتہ ہی ہے کہ یہ مندرجہ بالا آیت انک انت الوھاب تک دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایسا ملک دے کہ مجھ سے کوئی اور چھین نہ سکے اور مجھے ایسا ملک اور سلطنت دی جائے کہ میرے بعد پھر کسی اور شخص کو ایسی سلطنت نہ ملے۔ یہی آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے اور یہی احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے۔

صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن نے گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میرے بھائی سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی۔ راوی حدیث روح رحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا۔ [صحیح بخاری:461] ‏‏‏‏(میراثیوں کی ناپسندیدہ ترین کتاب)

ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اعوذ باللہ منک» پھر آپ نے تین بار فرمایا «‏‏‏‏العنک بلعنتہ اللہ» پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لیے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا۔ [صحیح مسلم:542-40] ‏‏‏‏

صحیح حدیث میں یہ بھی ہے جب رسول اللہ محمد کریم کو اختیار دیا گیا کہ اگر چاہیں عبد و رسول رہیں یعنی جو حکم کیا جائے بجا لاتے رہیں اللہ کے فرمان کے مطابق تقسیم کرتے رہیں اور اگر چاہیں نبی اور بادشاہ بنا دیئے جائیں جسے چاہیں دیں جسے چاہیں نہ دیں اور اس کا کوئی حساب اللہ کے ہاں نہ لیا جائے تو آپ نے جبرائیل علیہ السلام سے مشورہ لیا اور آپ کے مشورے سے پہلی بات قبول فرمائی۔ کیونکہ فضیلت کے لحاظ سے اولیٰ اور اعلیٰ وہی ہے۔ حالنکہ نبوت و سلطنت بھی بڑی چیز ہے۔ اسی لیے رسول الله محمد کریم نے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کی دنیاوی عزت اور شان و شوکت بیان کرتے ہی فرمایا کہ حضرت سلیمان آخرت میں بھی بڑے مرتبے اور بہترین بزرگی کے حامل اور محمد کریم سے قریب رہنے والوں میں سے ہیں۔

اسم الٰہی وھابُ کی برکت سے اللہ تعالیٰ فقر و فاقہ سے ایسے نجات دیتا ہے جس کا انسان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس کا ورد کرنے سے وسعت رزق نصیب ہوتی ہے۔ جو کوئی فقروفاقہ کی تکلیف و مصیبت برداشت کر رہا ہو تو اسے چاہئے کہ اس اسم پاک کو پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کرے۔ رب القھار الوھاب  اسے اس مصیبت سے اس طرح نجات دے گا کہ وہ حیران رہ جائے گا۔ اس وڈیو کا عمل بھی ہر طرح کا رزق اور نعمتیں حاصل کرنے کے لیے ہے۔ امام علی رضاؓ، شاہ عبدالعزیزؒ، حضرت اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلویؒ اور کئی دیگر بزرگوں کی کتب میں اسم ِ مبارک ‘‘الۡوَھَّابُ’’ کو خاص الخاص غربت اور تنگدستی دور کرنے اور غیب سے رزق کے اسباب فراہم کرنے کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ اسم الٰہی وھاب کی برکت سے اولاد اور نیک بیوی یا شوہر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے کا عمل میں وھاب کی اگلی پوسٹ یعنی چھٹی اور ساتویں قسط میں بیان کروں گا۔ فی الحال یہ پوسٹ دیگر دنیاوی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے ہے اور ببانگ دہل یہ اعلان بھی ہے کہ یہ عمل اگر کر لیا گیا اور دعا قبول ہو گئی تو ذاکر کو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی حصہ عظیم عطا کیا جائے گا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا سے عیاں ہے۔

قرآن مجید کا واسطہ دے کر دعا کرنا جائز ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کو اس  کی صفات کا واسطہ دینے  سے تعلق رکھتا ہے، اور اللہ تعالی کی صفات کا واسطہ دینا شرعی طور پر جائز ہے۔ سو کلام بھی اللہ تعالی کی صفت ہے، اور قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے، چنانچہ  قرآن کریم کو وسیلہ بنانا جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین میں سے امام احمد وغیرہ نے  یہ دلائل دیئے ہیں کہ اللہ تعالی کا کلام  مخلوق نہیں ہے۔ اس بات کی ایک دلیل یہ ہے کہ رسول الله محمد کریم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ  [ترجمہ: میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کی پناہ چاہتا ہوں] سلف صالحین کا کہنا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے کلام کی پناہ طلب کی ہے اور مخلوق سے پناہ طلب نہیں کی جاتی۔

ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ،یعنی  کہ انسان اپنے رب کو اس کی صفت کلام کا واسطہ دے۔۔۔اور قرآن کریم جب اللہ رب القھار کی صفت ہے کیونکہ یہ حقیقی طور پر رب القھار کے  الفاظ ہیں جس کے معنی اس کے ارادہ و منشاء کے مطابق ہیں چنانچہ یہ اللہ کا کلام ہوا۔اور جب قرآن اللہ کی صفتوں میں سے ایک صفت ہوا تو اس کا توسل یعنی قران کو وسیلہ بنانا بھی جائز ہوا۔

سو آپ اپنے دینی و دنیاوی مقاصد میں بلا جھجک قران کریم کو وسیلے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور قرآنی آیات و اسما الٰہی کو وظائف کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ آپکو فیس بک پر اکثر میراثی یہ کہتے نظر آئیں گے کہ قران  وظائف کی کتاب نہیں جبکہ دوسری طرف ان میراثیوں کے پیج خود قرآنی وظائف سے بھرے پڑے ہونگے۔ اعلی درجے کے منافق لوگ ہیں یہ۔ یہ جو عملیات، نقوش، طلسمات اور شمع وغیرہ ہیں جو قرآنی قوت سے تیار کیے جاتے ہیں، درحقیقت سب وظائف ہی کی اقسام ہیں اور کئی سو سالوں سے لوگ اپنے اپنے علوم میں قران مجید کی آیات و اسما الٰہی کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ شیطان و شیطانی علوم کی تکذیب کرتے رہے ہیں بلکہ اپنے دینی و دنیاوی مقاصد میں بھی قوت اجابت کو بڑھاتے اور حاصل کرتے آئے ہیں۔ اب جو میراثی آج آٹھ کر ایک نیا نظریہ بنا لے کہ قرآنی آیت یا اسم الٰہی کو وظیفہ کے طور نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ قران تو وظائف کی کتاب ہی نہیں اور یہ کہ دنیاوی مقاصد میں قران کو دعا و وسیلہ کے طور پر استعمال کرنا ناجائز بھی ہے اور اسکا ثواب بھی نہیں ہوتا اور خود اپنا پورا پیج طلسمات و وظائف سے بھرا پڑا ہو جسمیں قران ہی استعمال کیا گیا ہو، تو درحقیقت ایسا بندہ ذہنی معذور اور اعلی درجے کا کنفیوز میراثی ہے۔ باقی فیصلہ آپ خود کر لیجیے۔

عمل کا مکمل طریقہ وڈیو میں ہے۔ اس عمل کو کسی بھی مشکل میں چودہ یا انیس دن کر لیا جائے۔ ہر مہینہ پانچ یا چودہ دن دھرایا بھی جا سکتا ہے۔ یاد رکھیے کہ عمل بس ایک ہی مرتبہ کر کے مطمئن نہ ہو جائے کیجیے۔ کبھی کبھار دنیاوی مقاص بہت الجھے ہوئے ہوتے ہیں اور اُنکے حل کے لیے اسباب کا بننا وقت لیتا ہے۔ اب اگر کسی بندے کے اوپر سحر کیا گیا ہے اور رزق وغیرہ کی بندش لگائی گئی ہے اور سحر کرنے و کروانے والا اس سحر پر پہرہ بھی دیتا ہے یعنی بار بار عمل کرتا ہے تو ایسی مصیبت سے چھٺکارہ کے لیے آپکو عمل بھی بار بار کرنا چاہیے۔ میرے تمام عملیات ذکر قھار میں ہی داخل ہیں کیونکہ آپ جب میرا کوئی بھی عمل کرتے ہیں تو درحقیقت قران ہی پڑھ رہے ہوتے ہیں اور ایسی قوتوں، ملائکہ و جنات، سے رجوع کر رہے ہوتے ہیں جو خود کلام الٰہی کے ذاکر ہیں اور کلام الٰہی سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں۔ نیک کام کی پابندی پر مندرجہ ذیل حدیث دیکھیے۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: ”یہ کون ہے“؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔‏‏‏‏“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4238]

سو ذکر قھار تھوڑا کر لیں لیکن کریں ریگولر۔ اپنے وظیفے کو صرف ایک بار نہ کریں بار بار کریں اور کبھی بھی ذکر سے بددل نہ ہوں۔ حاجت پوری نہیں ہو رہی، کوئی بات نہیں لیکن یہ کنفرم ہے کہ یہ ذکر ضائع نہیں ہو رہا ہو گا۔ نہ صرف یہ کہ بہت ساری ان دیکھی مشکلات کو روک رہا ہو گا بلکہ قربت الٰہی کا سبب بن کر بے تحاشہ ثواب کا موجب بھی بن رہا ہو گا، آپکے دشمنوں کا کام مشکل سے مشکل کر رہا ہو گا اور ملائکہ کی دنیا میں نیک نامی اور شیطانی دنیا میں نہائت حسرت و ماتم کا سبب بن رہا ہو گا۔

صدق الله العلی العظیم

والله اعلی و اعلم۔

الوھابُ قسط چہارم

Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment