الوھاب قسط ششم
اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ اسم پاک وھاب کے وظیفہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ فقر و فاقہ سے ایسے نجات دیتا ہے جس کا انسان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ لیکن حقیقت اس سے کچھ کافی زیادہ ہے۔ لنک پر کلک کر کے وھاب کی حقیقت کو جانیے اور پھر مجھے بتائیے کہ آپ نے کیا سیکھا، کیا پایا۔
اللہ رب القھار کا ہر اسم ایک چھپا ہوا خزانہ اور جہان ہے۔ جو لوگ اسمائے الٰہی ورد زبان کرتے ہیں تو ان کے اوپر رحمتوں اور برکتوں کی بارش برستی ہے۔ کسی اسم کو بار بار دھرانے سے دل و دماغ اس اسم کی نورانیت سے معمور ہو جاتے ہیں اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کے اسم کے انوار زندگی میں جمع ہوتے ہیں اسی مناسبت سے بگڑے ہوئے کام سنورتے چلے جاتے ہیں اور حسبِ منشا نتائج مرتب ہوتے رہتے ہیں۔
ہر اسم الٰہی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر صفت قانون ِقدرت کے تحت زندہ و جاوید اور حرکت میں ہے۔ ہر صفت اپنے اندر طاقت اور زندگی رکھتی ہے۔ جب ہم کسی اسم کا ورد کرتے ہیں تو اس اسم کی طاقت اور تاثیر کا ظاہر ہونا ضروری ہے اور لازمی ہے۔ کم یا زیادہ تاثیر ایک الگ امر ہے جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ لیکن یہ بات حتمی ہے کہ اسم الٰہی، چاہے وہ کوئی بھی ہو، کے ورد کی تاثیر نے ظاہر ہونا ہی ہونا ہوتا ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح مبنی بر حقیقت ہے۔
اللہ کا نام ” الوہاب” اللہ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں شائد تین بار یوں آیا ہے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔
ترجمہ:
اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔
اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے
اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِیْزِ الْوَهَّابِ۔
ترجمہ:
کیا وہ تمہارے رب کی رحمت کے خزانچی ہیں وہ عزت والا بہت عطا فرمانے والا۔
اور فرمایا
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَهَبْ لِیْ مُلْكًا لَّا یَنْۢبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیْۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔
ترجمہ:
کہا: اے میرے رب !مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔
لفظ الوہاب، ہبہ سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہدیہ اور عطاء ہے، یعنی رب القھار کا ہمیں کچھ بھی یا سب کچھ دینا بغیر کسی لالچ و عوض و ضرورت کے ہے۔ وہاب وہ ہے کہ عطاہائے صوری و معنوی اور عطیات دنیوی و اخروی کا مالک وہی ہے۔ اسم الوھاب واضح کرتا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب عطائے (تحفہ) خداوندی ہے جسکی قیمت کم از کم انسان تو کبھی چکا نہیں سکتا اور اللہ کو انسان سے اپنی ان عطیات (تحائف، نعمتوں) کے بدلے کچھ چاہیے نہیں۔
بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ وھاب اسم اعظم ہے…. کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسی کے ساتھ دعا مانگی تھی..۔
رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ھَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ
اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے سوا کسی کے لائق نہ ہو تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔
اور پھر یہ دعا قبول بھی ہوئ تھی اور حضرت سلیمان کو پھر جو سلطنت عطا ہوئی اُسکی مثال آج تک نہیں ملتی۔
قرآن کے علاوہ توریت میں بھی اسم وھاب اس نام سے آیا ہے، جیراہ (وہاب)۔
اسم پاک وھاب بڑا کمال کا اسم ہے۔ اسکی ایک ریاضت یہاں شئیر کر رہا ہوں جو میں اکثر کیا کرتا تھا جب گاڑیوں کا کام کرتا تھا اور کوئی گاڑی بکتی نہ تھی۔ اور پھر جب یہ عمل کر لیتا تھا تو گاڑی جلد بک جایا کرتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے عملیات میں پڑ گیا اور یہ عمل چھوڑ دیا۔ پچھلے دنوں پرانے نوٹس دیکھ رہا تھا اور یہ عمل نظر آیا، پھر یاد آیا اور پھر اپنے پر در فٹے مُنہ بھیج کر سوچا کہ اب یہ عمل سب کو بتاؤنگا تاکہ رب الوھاب کا نام پھیلے۔ جتنا عرصہ میں نے نہیں کیا اُسکی کمی ایسے ہی پوری کی جا سکتی ہے کہ لوگوں سے کروایا جائے۔ یہ عمل اس مرتبہ خصوصا ان خواتین کے لیے ہے جنکی شادی نہیں ہو رہی۔ اسکے لیے میں نے عزیمت میں تھوڑی تبدیلی کی ہے۔
اسمائے الٰہی کے بارے ایک بات یاد رکھیے کہ انکو پڑھنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اسم الہی کے لیے اجازت کے حصول کی کوشش ایک بیہودہ اور بکواس کاوش ہے۔ اسمائے الہی کی اجازت رب القھار نے قرآن میں یوں بیان فرمائی ہے،
وَلِلّٰهِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰى فَادۡعُوۡهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِيۡنَ يُلۡحِدُوۡنَ فِىۡۤ اَسۡمَآٮِٕهٖ ؕ سَيُجۡزَوۡنَ مَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ
اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں تو پکارو اسے ان (اچھے ناموں) سے اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جو اس کے ناموں میں کجی (نقائص، ٹیڑھا پن، بے رُخی) نکالتے ہیں عنقریب وہ بدلہ پائیں گے اپنے اعمال کا۔
پھر اللہ فرماتا ہے ایک اور جگہ۔
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَؕ-اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰىۚ-
کہ دیجیے: اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو، تم جو کہہ کر پکارو سب اسی کے اچھے نام ہیں۔
اب ان اجازتوں کے بعد لوگوں کا اسمائے الٰہی پڑھنے کے لیے لوگوں کی اجازت کا طلب گار ہونا ایک چول حرکت ہی ہے اور چولیاں مارنے میں تو ہم، ماشااللہ، نمبر ون ہیں اور رہینگے بھی۔ اللہ کی اجازت مسلمانوں کے لیے کافی نہیں، ہے نا کمال بات بلکہ سراپا کمال۔ ایک وڈیو دیکھی فیس بُک پر۔ ایک لفنٹر عامل صاحب فرما رہے تھے، “ ہم جو اجازت لوگوں کو اسمائے الٰہی پڑھنے کے لیے دیتے ہیں وہ صرف اُسی حاجت کے لیے دیتے ہیں جسکے لیے ہم اسم الہی تجویز کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی اور حاجت کے لیے ہمارا دیا گیا اسم الہی پڑھیں گے تو وہ کام نہیں کرے گا (یعنی اسم الہی کام نہیں کرے گا)۔ ہم اسمائے الٰہی کی تاثیرات کو کنٹرول کرتے ہیں۔”
کیسے کیسے چول ہیں مارکیٹ میں۔ کسی نے صحیح کہا تھا، “چول کا مطلب بتایا یا سمجھایا نہیں جا سکتا، چول صرف دکھایا جا سکتا ہے”۔ اسمائے الہی کی تاثیرات کو کنٹرول کرنے کے دعوے کرنے والے یہ لوگ عام عوام کی جہالت سے طاقت حاصل کرتے ہیں اور ہم جیسے بس تلملاتے ہی رہ جاتے ہیں۔ قران مجید پڑھ کر پھر عملی عقیدہ اس کے مطابق نہ رکھنے والوں کی مثال میرے نزدیک ایسی ہے «كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا» [62-الجمعة:5] یعنی ” گدھے کی مانند ہیں جو کتابیں لادے ہوئے ہو “۔
میں نے حساب لگایا ہے کہ علم دینے کا کوئی فائدہ ہے نہیں کیونکہ علم لینا ہی نہیں کسی نے، جاہل پیدا ہوئے تھے، جاہل ہیں اور ان شااللہ جاہل ہی رہینگے۔ قیامت بھی تو ایسے ہی آنی ہے۔ جاہلیت جب ایک خاص حد سے بڑھ جائے گی تو قیامت آ جائے گی۔ اگر ہم جیسے لوگ علم پھیلا سکیں تو بھلا قیامت کیسے آئے گی؟ لیکن یہ بھی ہے کہ عوام کے ایک محدود طبقے تک، جہاں تک میری پہنچ ہے، یہ لوگ علم اور علمی باتیں سیکھ رہے ہیں اور انکو میری تحاریر سے کچھ نہ کچھ فائدہ ہو رہا ہے۔ تو یہ بات میرے لیے کچھ باعث اطمینان ہے اور یہی لوگ میرے لکھنے کی تقویت بھی ہیں۔
بہرحال أتے ہیں وھاب کے عمل کی طرف۔ ویسے تو بوقت ضرورت عمل کبھی بھی شروع کر سکتے ہیں لیکن اگر بدھ سے کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ دو رکعت نماز پڑھیں۔ پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد یہ آیت پانچ مرتبہ پڑھیں۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ۔ پھر رکوع میں یہ تسبیح پڑھیں پانچ بار، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ الࣿوَھَّاب۔ اب جب سجدے میں جائیں گے تو دونوں سجود میں پانچ پانچ مرتبہ یہ تسبیح پڑھیں، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی الࣿوَھَّاب۔
اب دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد یہ آیت پانچ بار پڑھیں۔ قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ہَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔ پھر رکوع و سجود میں اوپر والی تسبیحات پانچ پانچ بار پڑھیں اور نماز مکمل کر لیں۔ اب یہ درود پڑھیے پانچ مرتبہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمّٰدِِ وَعَلیٰ آلِ مُحَمدِِ کَما صَلَّیتَ عَلیٰ سُلَیࣿمٰنَ اِنَّکَ اَنࣿتَ الرَّحࣿمٰنُ الرَّحِیࣿم اِنَّکَ اَنࣿتَ الࣿوَہَّابࣿ۔
اب یہ دعا(عزیمت) ایک مرتبہ پڑھیں۔
۱۔ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ھَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ وَ ھَبࣿ لِی مِنࣿ لَّدُنࣿکَ رَحࣿمَةً وَ ھَبࣿ لِیࣿ زَوࣿجًا صَالِحًا
اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۔
(یہ دعا، عزیمت خصوصا ان آنٹیوں کے لیے ہے جنکی شادی نہیں ہو رہی)
اب اسم الٰہی یا وھابُ کو ایک ہزار مرتبہ پڑھیں اور پھر اوپر والی دعا ایک مرتبہ پڑھیں۔ پھر اسم الٰہی یا وھابُ کا ایک ہزار مرتبہ پڑھیں اور پھر اوپر والی دعا کو ایک مرتبہ پڑھیں۔ اب اوپر والا درود پانچ مرتبہ پڑھ کر پانچ مرتبہ کہیں یا وَھَّابُ آمین اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّاب۔ عمل مکمل۔
روزانہ سات دن تک یہ عمل کیجیے۔ روزانہ دو ہزار وھاب پڑھا جائے گا اور ٹوٹل سات دن میں چودہ ہزار ہو جائے گا۔ وھاب کی زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے گی۔ یہ عمل بوقت ضرورت کبھی بھی دھرایا جا سکتا ہے۔ خواتین اپنی شادی کے لیے اس عمل کو ہر مہینے سات دن یا چودہ دن یا اکیس دن دہرا لیا کریں اور یہ عمل حیض کی حالت میں نہ کیا جائے کیونکہ اسمیں نماز ہے۔ جب تک شادی نہ ہو عمل اپنی بساط کے مطابق ہر مہینے سات دن، چودہ دن یا اکیس دن دھراتے رہیں۔ بفضل وھاب شادی کے اسباب پیدا ہونگے۔
یہ عمل خصوصا آنٹیوں کی شادی کے لیے ہے۔ باقی رہی انکلوں کی بات۔ تو اینے تُسی سوہنے۔ بڑے آئے شادی کرنے والے۔ شکل ویکھی آئینے وچ۔
البتہ اگر شادی کے علاوہ کسی اور حاجت کے لیے دیگر خواتین و حضرات یہ عمل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، بس عزیمت یہ والی پڑھ لیں۔
۲۔ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ ھَبۡ لِیۡ مُلۡکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِیۡ وَ ھَبࣿ لِی مِنࣿ لَّدُنࣿکَ رَحࣿمَةً وَ ھَبࣿ لِیࣿ مَالاً وَافِرً وَ
رِزࣿقًا بِلَا وَسَائِلَ وَلَا اَسࣿبَابٍ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ
فَیَكُوْنُ۔
یہ عزیمت شان و شوکت اور مال و رزق حاصل کرنے کے لیے ہے۔
اب ویسے تو یہاں پوسٹ ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن مجھے آئی اُشکل اور میں نے اسم وھاب کی شمع بنانے کا سوچا اور ایک نئی ابجد اور ایک نئے طریقے سے شمع بنا کر ذکر کرنے بیٹھا تو کچھ لوگ حاضر ہوئے۔ پہلے تو وہ خاموشی سے دیکھتے رہے، اور ذکر کے اختتام پر کہنے لگے کہ دوہزار کی بجائے نو کی گنتی میں پڑھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہوا کہ ایک مرتبہ قھار کا ذکر کرتے وقت بابا شمھورش رحمتہ الله حاضر ہوئے اور کہا کہ قھار کا ذکر ہی آپ صحیح کیفیت میں نہیں کر رہے بلکہ ایسے کریں (وہ طریقہ پھر کبھی میں لکھونگا، اگر بابا شمھورش نے اجازت دی تو)۔
سو وھاب والی ہستیوں کی بات سن کر دل میں سوچا کہ جناب والا آپ نے تو ساری ریاضت پر پانی ہی پھیر دیا۔ خیر اُن سے وھاب کی ریاضت پوچھی جو کچھ یوں تھی۔ عمل سے ایک دن پہلے وھاب کی نو موم بتیاں بنائی جائیں اور بنانے کے بعد ۱۸۰ مرتبہ یا وھابُ پڑھ کر تمام شمعات پر دم کریں پھر پینتالیس یا نوے مرتبہ اپنی عزیمت پڑھ کر شمعات پر دم کریں اور پھر ۱۸۰ مرتبہ یا وھاب پڑھ کر شمعات پر دم کر دیجیے۔ اب شمعات جلنے کے لیے تیار ہو گئیں اور انھوں نے قوت پکڑ لی۔ اب اگلے دن سے جب عمل شروع ہو تو شمع روشن کر کے پہلے نماز پڑھی جائے اور نماز پڑھنے کے بعد اُسکا ثواب حضرت سلیمٰن علیہ السلام کو ہدیہ کیا جائے۔ نماز میں آیات کا پڑھنا بھی نو نو مرتبہ ہو اور سجدے و رکوع کی تسبیحات بھی نو نو مرتبہ پڑھی جائیں۔
نماز کے بعد جب نماز کا ثواب ہدیہ کر چکیں تو اُسکے بعد نو مرتبہ یہ درود پڑھیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمّٰدِِ وَعَلیٰ آلِ مُحَمدِِ کَما صَلَّیتَ عَلیٰ سُلَیࣿمٰنَ اِنَّکَ اَنࣿتَ الرَّحࣿمٰنُ الرَّحِیࣿم اِنَّکَ اَنࣿتَ الࣿوَہَّابࣿ۔
اب جو بھی عزیمت آپ چنیں اوپر والیوں میں سے، اُسکو نو مرتبہ پڑھیے۔ پھر اب آپ نے ۲۹۷۰ مرتبہ الوھابُ کا ورد کرنا ہے اور اُسکے بعد پھر نو مرتبہ اپنی عزیمت پڑھ کر نو مرتبہ درود پڑھ کر نو مرتبہ یہ کہنا ہے، یا وَھَّابُ آمین اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّاب۔
جب یہ عمل مکمل ہوجاے تو کچھ دیر سکوں کی حالت میں بیٹھ کر اپنے مقصد کو سامنے رکھ کر دل میں کن فیکون ۔۔۔کن فیکون کی تکرار کرے ۔۔اسکی کوئی تعداد نہ ہوگی بس جتنا دل کرے جائے نماز پر بیٹھ کر رجوع کرے۔
اب یہ ذاکر کی مرضی کے مطابق ہے کہ وہ یہ عمل نو دن کریں 18 دن کریں یا 27 دن کریں۔ میرے مشورے کے مطابق وقفہ دے دے کر نو نو دن عمل دھرایا جائے تاکہ بندہ تھکے بھی نہ اور ذکر بھی جاری رہے۔ جب یہ عمل مکمل ہو جائے تو کسی پرندے کو ازاد کر دیجئے گا۔ یہ ایک خاص کنجی ہے جو وھاب کی ہستیوں نے عطا کی اس عمل کے متعلق۔ جونہی وہ پرندہ آزاد کیا جائے گا آپکی حاجت کے پروانے پر روحانی دستخط ہو جائیں گے۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو بندہ پرندہ آزاد نہ کر سکا اُسکا عمل نامکمل ہو گا۔ ذکر و دعا کے اپنے اثرات ہونگے اور ہر بندے کے لیے ہونگے بفضل وَھَّابࣿ۔
اس شمع کے جلنے پر کچھ موکلات اور کچھ جن ایک ساتھ حاضر ہوئے۔ اس شمع کی خاص طاقت اسکے حروف میں ہے۔ کچھ اور باتیں جو اس عمل کے متعلق معلوم ہوئیں وہ یہ ہیں:
اس عمل و شمع میں کوئی ایسا خزانہ ہے کہ موکلات اُسکو کور کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بیتحاشہ موکلات تھے لیکن کوشش کے باوجود خزانے کی طرف اُنھوں نے رہنمائی نہ کی بلکہ کہا کہ اس عمل کی تکرار سے وہ نگاہ و عقل کا پردہ ہٹ جائے گا اور خزانہ نظر بھی آ جائے گا اور ذاکر کے ہاتھ بھی۔ (نہ بتانے پر غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن موکلات کے ساتھ بدمعاشی چلتی بھی تو نہیں اسلیے صبر کرنا پڑا)۔ اس عمل کے کرنے سے ذاکر کو تسخیر کی قوت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس عمل کا جانماز لال ہونا چاہیے۔ اس عمل سے بہت سے جنات، اس عمل کے خادم، آپکے ہاتھ آ جائیں گے۔ اس عمل کے ذکر کے دوران خدام کو کوئی بھی حکم دیا جا سکتا ہے جسکو پورا کرنے کی وہ پوری سعی کرینگے۔ دو عزیمتیں تو میں نے لکھیں ہیں لیکن یہ شمع و عمل اور اسکے خادمین ہزاروں احکامات و عزیمتوں کو پورا کرنے پر قادر ہیں۔ اس عمل کے ذاکر کی غیبی امداد ہوا کرے گی۔ شیاطین اور اُنکے چیلے اس عمل کے ذاکر کے پاس انے سے گبھرائیں گے۔ کُن فیکون والی آیت اس عمل کے ساتھ گہری ضرب لگا رہی ہے۔ یہ شمع دل و دماغ میں سکون اور اعتماد پیدا کرتی ہے۔ دل کی صفائی اور روحانیت میں گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس عمل کی نماز میں آیات کی تقرار سے انسان کی زندگی میں مالی اور روحانی طور پر بہتری آتی ہے۔ مستجاب الدعوات بن جاتا ہے اور اسمیں کوئی شک نہیں۔ کسی بھی کام کو بلا کسی رکاوٹ کے مکمل کر دیگا یہ عمل۔ اس شخص کی زندگی میں ایسے عجیب و غریب کام مکمل ہونگیں کہ انسان خود حیران ہوگا ۔۔جسکو توفیق حقیقی ہوگی وہ اس عمل کو پابندی کے ساتھ مکمل کرسکے گا۔ جب عمل کے آخر پر کن فیکون کی تقرار کرے گا تو اس طریقہ کار سے انسان عاجز ہوکر اپنا مسلہ اللّه کے روبرو پیش کرتا ہے تو ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس قرانی دعا کی برکت سے مستجاب الدعوات بن جاتا ہے ۔۔۔۔اور یہ عمل قبول ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس شمع کا اثر جب ہوتا ہے جب تمام حروف اس شمع کے روشن ہو جاتے ہیں اور اس بات میں ایک خاص راز ہے۔ جو کوئی اس عمل کو کرے وہ شمع والا طلسم اپنے گلے میں بھی ڈال سکتا ہے یا اپنے موبائل کے بیک کور میں رکھ سکتا ہے۔ جب جب موبائل گرم ہو گا تو یہ طلسم زبردست تحریک پیدا کرے گا۔
شمع یہ ہے
۲۲۵۱٤۵٤٤
ذ خ ج ج ث ز س ط ی ب غ م ر ض ق ی ی ی
طلسم لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک سفید کاغذ پر شمع کا ہی طلسم لکھنا ہے کہ پہلے اعداد لکھے بائیس ۲۲ سے شروع کر کے۔ پھر اعداد کے نیچے حروف لکھے ذ خ سے شروع کر کے۔ پھر ذخ کے نیچے سے آیات لکھنا شروع کرے جو کہ نماز میں پڑھی گئیں ہیں اور آیات کو گھما کر کلاک وائز یعنی سیدھی گھڑی کی سمت میں طلسم کے ارد گرد لکھے اور جہاں آیات ختم ہوں وہیں سے عزیمت بھی لکھنا شروع کر دے اور وہ بھی کلاک وائز ہی لکھے۔ پھر اسکو کچھ خوشبو لگائے اور پلاسٹک کور میں لپیٹ کر موبائل کے بیک کور میں رکھ لے۔ یاد رکھیے گا کہ شمع پر صرف اعداد و حروف ہی لکھے جائیں گے۔ جبکہ طلسم پر اعداد، حروف، ایات و عزیمت سب کچھ لکھا جائے گا۔ کنفیوز نہ ہو جائیے گا۔
مجھے کچھ لوگ ایسے بھی فالو کرتے ہیں جو قران زیادہ پڑھنا نہیں جانتے۔ اُنکے لیے عرض ہے کہ وہ سمپل طریقے سے دو رکعت نماز پڑھ کر حضرت سلیمان کو ہدیہ کر دیں۔ پھر کوئی سا درود پڑھ کر پہلے اپنی دعا دھرائیے، بیشک اردو میں ہی جیسے کہ اے اللہ اے وھاب میرے رزق میں اضافہ فرما اور مال و دولت عطا فرما اور تمام رکاوٹوں کو دور فرما۔ اُسکے بعد یا وھابُ کا ورد شروع کریں اور دو ہزار ورد والا عمل کر لیں جیسے اوپر لکھا ہے۔
یاد رکھیے گا وھاب کے اصل معنی ہیں دینے والا، عطا کرنے والا۔ سو عطا کوئی بھی مانگی جا سکتی ہے مثلاً شفاء، اولاد، جادو جنات سے تحفظ، مال، نوکری، بیوی (کتنا خوش ہوئے ہیں بیوی پڑھ کر سارے)، وغیرہ۔ رب القھار کی یہ صفت، الوھاب، حقیقتاً اسم اعظم کے بہت قریب ہے کیونکہ اسکا مطلب ہی دینے والا، عطا کرنے والا ہے۔ اور عطا کرنے والا تو سب کچھ ہی عطا کر سکتا ہے۔ رب القھار کی بہت سی صفات ہیں لیکن الوھاب کا خاص تعلق الله تعالیٰ کی خاص عطا سے ہے اور اس لفظ، عطا، میں دین و دنیا و آخرت کے خزانے پوشیدہ ہیں۔ بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی اہل الله گزرے ہیں وہ سب وھاب کے عامل (ذاکر) تھے۔ اور یہ بات حقیقت بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ الله تعالیٰ کے اس اسم سے دنیا و آخرت کی ہر حاجت طلب ہو سکتی ہے اور اسم وھاب کے معنی کے عین مطابق الله تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ حاجت اُسکو عطا بھی کرنی ہے، کیونکہ مانگا جائے گا تو عطا بھی کیا جائے گا، تو اہل الله کا اسم پاک وھاب کا ذکر کرنا اور پھر الله تعالیٰ کی عطا کو پانا عین منطقی اور ناگزیر ہے۔
ہر چیز جسکا طلبگار انسان اپنے رب سے ہے، وہ اُس رب کی عطا ہے اور عطا کرنے والا درحقیقت وھاب ہے۔ وہ کیا خوب فرمایا ہے کسی نے،
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
سورج کے اجالے سے، فضاؤں سے خلا سے
چاند اور ستاروں کی چمک اور ضیا سے
جنگل کی خموشی سے پہاڑوں کی انا سے
پرہول سمندر سے،پراسرار گھٹا سے
بجلی کے چمکنے سے کڑکنے کی صدا سے
مٹی کے خزانوں سے، اناجوں سے غذا سے
برسات سے طوفان سے پانی سے ہوا سے
ہم نے تجھے جانا ہے فقط تیری عطا سے
عتیق جاذب
صدق اللہ العلی العظیم
واللہ اعلی و اعلم۔
الوھاب کی باقی اقساط کے لنک بھی شئیر کر رہا ہوں اگر کوئی پڑھنا چاہے تو بسم اللہ
https://spiritual-revelations.com/%d8%a7%d9%84%d9%88%da%be%d8%a7%d8%a8%d9%8f/