spiritual revelations

دشمنان اسلام اور یاقھارُ یاجبارُ

اجکا مضمون تو ویسے کچھ اور ہے لیکن پہلے میں بات عمران خان کے اوپر کرنا چاہوں گا۔ ایک پوسٹ شئیر کی میں نے عمران خان کے پیج سے اور میری ریچ ہزاروں سے گھٹا کر کچھ سو تک کر دی فیس بُک نے۔ فیس بُک سے زیادہ منافق میڈیم میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ خیر میں جلد چھوڑ جاونگا فیس بُک کو۔

آجکل سو کالڈ نجومیوں کی بھی پیشنگوئیاں بہت آ رہی ہیں عمران خان کے اوپر۔ ان ہندوؤں کی باقیات سے کوئی پوچھے بھلا اتنا ہی علم ہے تو صاف صاف بتاؤ کب آئے گا باہر۔ ان کی پیشنگوئیاں پڑھیں تو ہنسی آتی ہے۔ جی عمران خان کی ساڑھ ستی شروع ہو گئی ہے یعنی زحل نحوست میں ہے، لیکن ہاں جی ایک تبدیلی کا ستارہ بھی حرکت میں ہے سو تبدیلی بھی آ سکتی ہے عمران خان کی زندگی میں۔ یعنی اگر عمران خان کی رہائی نہ ہوئی تو کہہ دینگے کہ جی ہم نے تو کہا تھا اُسکا زحل نحوست میں ہے۔  اگر رہائی ہو گئی تو کہہ دینگے کہ جی وہ ہم نے کہا تھا نا کہ تبدیلی کا سیارہ تبدیلی لے کر آئے گا ہاہاہاہاہاہا۔ کیسی بیہودہ پیشنگوئی ہے۔ اب بندہ کیسے سمجھائے انکو کہ تمھاری اوقات نہیں عمران خان کے اوپر پیشنگوئی کرنے کی۔ بہرحال آتے ہیں اپنی پوسٹ کی طرف۔

لنک کو کلک کر کے پوسٹ پڑھ لیجیے۔

ارشاد رب القھار ہے،

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔

وَلَيَنصُرَ‌نَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُ‌هُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزيزٌ

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو لوگ اللہ کے دین کی مدد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی ضرور مدد کرتا ہے اور وہ اس کی طاقت رکھتا ہے۔

علمائے کرام نے اللہ کے دین کی مدد کی ترغیب دینے والی اس آیت کی تفسیر میں متعدد صورتیں بتائی ہیں جن سے ہم الله کے مددگار بن سکتے ہیں۔ میں آج اُن تمام صورتوں میں سے صرف ایک یا دو کا ذکر کرونگا، جنکا ذکر میری پوسٹ سے متعلق ہے۔

سو ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کو غالب کرنے کیلئے دین کے دشمنوں  کے ساتھ زبان،قلم اور تلوار سے جہاد کرنا۔

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرکین سے اپنے مال، جان اور زبان سے جہاد کرو۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب کراہۃ ترک الغزو، ۳ / ۱۶، الحدیث: ۲۵۰۴)

دوسرا طریقہ کہ اپنے مال سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانا، چاہے وہ مساجد کے ساتھ مالی تعاون کرنا ہو، علمائے کرام کے ساتھ مالی تعاون کرنا ہو، دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں اپنا مالی حصہ ڈالنا ہو یا پھر دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی زبوں حالی کا شکار ہیں، مثلاً فلسطین، وہاں اپنا مال خرچنا ہو۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘(الصف۱۰، ۱۱)

ترجمۂ

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتادوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم (اپنا حقیقی نفع) جانتے ہو۔

مضمون کا اگلا حصہ ہے جادو۔ اب جادو کو سمجھیے کہ وہ کیا ہے۔ جادو کے لیے عربی زبان میں سحر کا لفظ استعمال ہواہے جس کی تعریف علماء نے یوں کی ہے:

اللیث کہتے ہیں:” سحر وہ عمل ہے جس میں پہلے شیطان کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس سے مدد لی جاتی ہے۔”

ابن  عائشہ سے مروی ہے کہ “عربوں نے جادو کانام سحر اس لیے رکھا ہے کہ یہ تندرستی کو بیماری میں بدل دیتاہے۔”

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کہتی ہیں کہ قبیلہ بنو زریق سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے( جسے لبید بن اعصم کہا جاتا  تھا)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کردیا،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  متاثر ہوئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کاخیال ہوتاہے کہ آپ نے  فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں کیا ہوتا تھا،یہ معاملہ ایسے چلتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دن(یا ایک رات) میرے پاس تھے اور بار بار اللہ سے دعا کررہے تھے،اس کے بعد مجھ سے فرمانے لگے:”اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ہے،میرے پاس دو آدمی آئے تھے،جن میں سے ایک میرے سر اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا اور ایک نے دوسرے سے پوچھا:

اس شخص کو کیا ہوا ہے؟

اس پر جادو کیا گیا ہے!

کس نے کیا ہے؟

لبید بن اعصم نے۔۔۔۔

کس چیز میں کیا ہے؟

کنگھی ،بالوں اور کھجور کے خوشے کے غلاف میں،

جس چیز میں اس نے جادو کیا ہے ،وہ کہا ں ہے؟

بئر ذروان میں۔۔۔۔۔۔۔۔(ایک کنوئیں کا نام)

اس کنوئیں سے جب جادو نکالا گیا تو اسکا کا پانی انتہائی سرخ رنگ کا ہوچکا تھا اور اس کی کھجوروں کے سر ایسے تھے جیسے شیطان کے سر ہوں”(یعنی وہ انتہائی بد شکل تھیں)۔

اس حدیث کے تحت محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے مجھے آفیت دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگ کسی شر اور فتنہ میں مبتلا ہوجائیں۔”

بخاری کتاب السلام باب السحر۔

مازری رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:مبتدعین نے اس حدیث کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق یہ حدیث منصب نبوت کی توہین اور اس میں شکوک وشبہات پیدا کردیتی ہے اور اسے درست ماننے سے شریعت پر اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا ہو کہ جبرئیل علیہ السلام   آئے حالانکہ وہ نہ آئے ہوں اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف وحی کی گئی ہے حالانکہ وحی نہ کی گئی ہو!!

پھر کہتے ہیں کہ مبتدعین کا یہ کہنابالکل غلط ہے۔کیونکہ معجزات نبوت اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  تبلیغ وحی کے سلسلے میں معصوم اور سچے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عصمت جب معجزات جیسے قوی دلائل سے ثابت شدہ حقیقت ہے تو اس کے خلاف جو بات ہوگی وہ بے جا تصور کی جائے گی۔(38) زاد المسلم ج4ص221۔

ابو الجکنی الیوسفی رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

“جہاں تک جادو سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے متاثر ہونے کاتعلق ہے،تو اس سے منصب نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا،کیونکہ دنیا میں انبیاء علیہ السلام   پر بیماری آسکتی ہے جو آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کاباعث بنتی ہے۔لہذا جادو کی بیماری کی وجہ سے اگر آپ کو خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دنیاوی امور میں سے کوئی کام کرلیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے نہیں کیاہوتا تھا،اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اطلاع دے دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو کیا گیا ہے اور وہ فلاں جگہ پر ہے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے وہاں سے نکال کر دفن بھی کروادیا تھا اس سبب سے رسالت میں کوئی نقص نہیں آتا،کیونکہ یہ دوسری بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہی تھی،جس سے آ پ کی عقل متاثر نہیں ہوئی۔صرف اتنی بات تھی کہ آپ کا خیال ہوتا کہ شاید آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی کسی بیوی کے قریب گئے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا نہیں کیاہوتا تھاسو اتنا اثر بیماری کی حالت میں کسی بھی انسان پر ہوسکتاہے”۔۔۔پھر کہتے ہیں:

“اور حیرت اس شخص پر ہوتی ہے کہ جو جادو کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بیمار ہونے کو رسالت میں ایک عیب  تصور کرتا ہے حالانکہ قرآن مجید میں فرعون کےجادوگروں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام   کاجوقصہ بیان کیا گیا ہے،اس میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام   کو بھی ان کے جادوکی وجہ سے یہ خیال ہونے لگا تھا کہ ان کے پھینکے ہوئے ڈنڈے سانپ بن کر دوڑ رہے ہیں۔۔۔لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا اور نہ ڈرنے کی تلقین کی”(39) سورۃ طہٰ کی آیات 66تا69۔

مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام   کے متعلق کسی نے یہ نہیں کہا کہ جادو گروں کے جادو کی وجہ سے انہیں جو خیال آرہا تھا۔ وہ ان کے منصب نبوت کے لئے عیب تھا(سو اگر وہ عیب نہیں تھا تو جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ پیش آیا وہ بھی عیب نہیں ہوسکتا کیونکہ) اس طرح کی بیماری انبیاء علیہ السلام   پر آسکتی ہے جس سے ان کی ایمانی قوت میں اضافہ ہوتاہے،اللہ تعالیٰ انہیں ان کے دشمنوں پر فتح نصیب کرتا ہے۔خلاف عادت معجزات عطا کرتا ہے۔جادوگروں اور کافروں کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور بہترین انجام متقی لوگوں کے لیے خاص کردیتاہے۔”(40) زاد المسلم ج4ص22

حیرت کی بات ہے کہ آجکل کے میراثی، دین پر چند آرٹیکلز پڑھ کر جادو کو شان نبوت کے خلاف قرار دینے لگ جاتے ہیں۔ تو ہمیں بھی دکھایا جائے کہ قرآن کے الفاظ کے مطابق تو حضرت موسیٰ پر صریحا جادو چل گیا تھا اور انکو اپنے قلب میں خوف محسوس ہوا، کیا اجتک چودہ سو سال میں کسی نے یہ کہا یا لکھا کہ حضرت موسیٰ کی نبوت میں عیب تھا؟ تو اگر نہیں لکھا تو محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باری کیوں اپنی ڈھولکیاں نکال کر رقص شروع کر دیتے ہو؟ محمد کریم خاتم النبیین کی ساری زندگی ہی تکلیفات میں گزری اور ہر تکلیف کی گھڑی میں محمد کریم کا طرز عمل امت مسلمہ کے لیے ایک روشن سنت ہے۔ کوئی تکلیف، کوئی پریشانی، کوئی برائی، کوئی جادو محمد کریم کا کچھ نہ بگاڑ سکا، ہاں اُمت کو اسوہ حسنہ کی شکل میں ایک بہترین راہ نجات ضرور مل گئی۔

صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے دوست سے کہا: ہمیں اس نبی کے پاس لے چلو، دوست نے اس سے کہا: تم یہ نہ کہو کہ وہ نبی ہے، اگر اس نے تمہاری بات سن لی تو اس کی چار چار آنکھیں ہوں گی (یعنی اسے بہت خوشی ہو گی)، پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئے اور آپ سے نو واضح احکام کے بارے میں پوچھا (جو موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے) آپ نے ان سے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری اور زنا نہ کرو اور اللہ نے جس نفس کو حرام قرار دیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرو، کسی بےقصور کو (سزا دلانے کی غرض سے) حاکم کے پاس نہ لے جاؤ، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر الزام تراشی نہ کرو، جنگ کے دن پیٹھ دکھا کر نہ بھاگو، اور اے یہود! ایک حکم تمہارے لیے خاص ہے کہ تم ہفتے (سنیچر) کے دن میں غلو نہ کرو، یہ سن کر ان لوگوں نے آپ کے ہاتھ پاؤں چوم لیے۔ اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں، آپ نے فرمایا: ”پھر کون سی چیز تمہیں میری پیروی کرنے سے روک رہی ہے؟“ انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ ہمیشہ نبی ان کی اولاد میں سے ہو، ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم آپ کی پیروی کریں گے تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے“۔ سنن نسائی۔

ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو بغیر حق کے قتل کرنا،سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن  پیٹھ پھیر لینا اور پاک دامن ایمان والی اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا”

بخاری ج5ص393مسلم ج2 ص83

اس حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جادو سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اسے ہلاک کردینے والے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے،اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جادو ا یک حقیقت ہے ،محض خام خیالی نہیں۔

امام مازری رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

“جادو ثابت اور فی الواقع موجود ہے،اور جس پر جادو کیا جاتا ہے اس پر اس کا اثر ہوتا ہے،اور کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ جادو حقیقتاً موجود نہیں ہے اور محض وہم وگمان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ذکر فرمایاہے کہ جادو ان چیزوں میں سے ہے جن کا علم باقاعدہ طور پر سیکھا جاتا ہے اور یہ کہ جادو کی وجہ سے جادوگر کافر ہو جاتا ہے اور یہ کہ جادو کر کے میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالی جاسکتی ہے۔چنانچہ ساری باتیں کسی ایسی چیز کےمتعلق ہی ہوسکتی ہیں جو فی الواقع موجود ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر جادو والی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ چند چیزوں کو دفن کیاگیا تھا اور پھر انھیں نکال دیاگیا، تو کیا یہ سب کچھ جادو کی حقیقت کی دلیل نہیں ہے؟ اور یہ بات عقلاً بعید نہیں ہے۔ کہ باطل سے مزین کئے ہوئے کلام کو بولتے وقت یا چند چیزوں کو آپس میں ملاتے وقت یا کچھ طاقتوں کو اکھٹا کرتے وقت جس کا طریقہ کار جادو گر کو ہی معلوم ہوتاہے اللہ تعالیٰ کسی خلاف عادت کام کو واقع کر دے۔

اور یہ بات تو ہر شخص کے مشاہدے میں موجود ہے کہ کچھ چیزیں انسان کی موت  کا سبب بن جاتی ہیں،مثلاً زہر وغیرہ اور کچھ چیزیں انسان کو بیمار کر دیتی ہیں، مثلاً گرم دوائیاں ،اور کچھ چیزیں انسان کو تندرست بنادیتی ہیں مثلا وہ دوائیاں جو بیماری کے الٹ ہوتی ہیں سو اس طرح کا مشاہدہ کرنے والا آدمی اس بات کو بھی عقلا بعید نہیں سمجھتا کہ جادوگر کو چند ایسی چیزوں کا علم ہو جو موت کا سبب بنتی ہوں یا اسے ایسا کلام معلوم ہو جو تباہ کن ثابت ہو یا میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہو۔

زادالمسلم ص225ج4

امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

“اور جادوفی الواقع موجود ہے اور اس کی کئی اقسام ہیں،وہ جو کہ مار دیتا ہے ،اور وہ جو کہ بیمار کر دیتا ہے،اور وہ جو کہ خاوند کو بیوی کےقریب جانے سے روک دیتا ہے۔اور وہ جو کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیتا ہے اور یہ بات تو لوگوں کے ہاں بہت مشہور ہے کہ جادو کی وجہ سے شوہر اپنی بیوی سے جماع کرنے پر قادر نہیں ہوتا، پھر جب اس سے جادو کا اثر ختم ہوجاتاہے تو وہ جماع کرنے کے قابل ہوجاتاہے اور یہ بات تواتر کی حد تک پہنچ چکی ہے جس کا انکار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔اور اس سلسلے میں جادوگروں کے قصے اتنی کثرت سے موجود ہیں کہ ان سب کوجھوٹا قرار دینا ناممکن ہے۔

المغنی ج10ص102

امام ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

“علماء نے حقیقت جادو اور اس کی اقسام میں اختلاف کیا ہے ،ان میں سے اکثریہ کہتے ہیں کہ جادو کبھی  جادو کئے گئے آدمی کی موت کا سبب بنتا ہے اور کبھی اس کی بیماری کا”

شرح عقیدہ طحاویہ ص505

ارشاد رب القھار ہے

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ۔

اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مملکت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان ( علیہ السلام) نے تو کفر نہیں کیا تھا۔ یہ کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے جو بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا۔

اس آیت میں یہود کے ایک اور مکروہ کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ یہود پر جب اخلاقی اور مادی زوال کا دور آیا تو انہوں نے تورات اور اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور جادو ٹونے، طلسمات، عملیات اور تعویذ گنڈوں کے پیچھے پڑ گئے اور ایسے طریقے ڈھونڈھنے لگے جن سے محنت کے بغیر  صرف پھونکوں اور منتروں سے سارے کام ہو جایا کریں۔ چنانچہ وہ جادو وغیرہ سیکھنے سکھانے میں مشغول ہوگئے۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی بات ہے۔ انہیں جب یہود کے ان کاموں کا علم ہوا تو انہوں نے ساحرین سے ان کی سب کتابیں چھین کر اپنے قبضے میں کر لیں۔ اب سلیمان علیہ السلام کو جو معجزات عطا ہوئے تھے وہ حکمت الٰہی کے مطابق ایسے عطا ہوئے جو جادو اور جادوگروں کی قوت و دسترس سے باہر تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے تمام سرکش جنوں کو آپ کے لیے مسخر کردیا تھا اور سلیمان علیہ السلام ان جنوں سے سخت مشقت کا کام لیتے تھے۔ ہوائیں آپ کے لیے مسخر تھیں جو آن کی آن میں آپ کا تخت مہینوں کی مسافت پر پہنچا دیتی تھیں۔ پرندے بھی آپ کے مسخر تھے اور آپ ان سے بھی کام لیتے تھے۔ آپ پرندوں کی بولی سمجھتے تھے اور پرندے بھی آپ کی بات سمجھ جاتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ جب سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے تو ان شیطان یہودیوں نے کہا کہ سلیمان علیہ السلام تو یہ سب کچھ جادو کے زور پر کرتے تھے اور اس کی دلیل یہ پیش کی کہ سلیمان علیہ السلام کے دفتر میں جادو کی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اس مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کفر کا کام سلیمان نے نہیں کیا تھا بلکہ ان شیطان لوگوں نے کیا تھا جو جادو سیکھتے سکھاتے تھے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جادو سیکھنا اور سکھانا کفر ہے۔

حضرت قتادہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سعید بن مسیب ؓ سے کہا، ایک شخص پر اگر جادو ہو یا اس کی بیوی تک پہنچنے سے اسے باندھ دیا گیا ہو ،اس کا دفعیہ کرنا اور جادو کے باطل کرنے کے لیے عمل کرنا درست ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ جادو کا توڑ کرنے والوں کی نیت تو اچھی ہوتی ہے اور اللہ پاک نے اس بات سے منع نہیں فرمایا جس سے فائدہ ہو۔(صحیح بخاری)

جادو کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔ ہر علاقے کا جادو اپنے اپنے نام سے مشہور ہے۔ یہود کا جادو کبالہ کے نام سے دنیا کا خطرناک ترین جادو مشہور ہے۔ یہود ہمیشہ سے ہی جادوگری میں مشغول رہے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں بھی یہی تھے، محمد کریم پر بھی انہی لعنتیوں نے جادو کیا۔ عرب معاشرے میں کبالہ کا بڑا رواج تھا اور لازمی بات ہے کرنے والے یہود تھے۔ آج بھی یہ بدبخت قوم مسلمانوں پر جادو کرنے میں مصروف ہے اور اسکا ثبوت وڈیو کی صورت میں فیس بک پر پیش خدمت ہے۔ چونکہ میں جادو کا ہی علاج کرتا ہوں سو دوران علاج ایک مرتبہ میرا ٹاکڑا ایک ایسے جادوگر سے ہو گیا جو کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہ تھا۔ اس بندے کا جادو کچھ مختلف بھی تھا۔ یہ ہندوؤں کا جادو یا بھان متی نہ تھا۔ خیر مقابلا ہوتا رہا آخر ایک دن جس عورت کا علاج ہو رہا تھا، اُس نے مجھے ایک عجیب بات کہی۔ اُسکی دیورانی یا نند جو بھی اُس پر جادو کروا رہی تھی اُس نے اُسکو پیغام دیا کہ میرا اُستاد تمھارے اُستاد سے ملنا چاہتا ہے۔ گو یہ بہت عجیب بات تھی لیکن میں نے حامی بھر لی اور ڈیفنس رایا کا وقت کر لیا۔ اپنے ساتھ چار تگڑے بندے لیے اور اُنکو کہا کہ جب تمھیں اشارہ کروں تو اُس جادوگر کو مارنا شروع کرنا اور ٹکا کر مارنا۔ تھانہ کچہری میں سنبھال لونگا۔ لیکن دخل اندازی صرف تب کرنا جب میں اشارہ کروں کیونکہ ایک دو کے لیے میں عام طور پر اکیلا ہی کافی ہوتا ہوں۔  وقت مقررہ پر میں پہنچ گیا اور میرے ساتھی اِدھر اُدھر بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ایک بلیک ٹو پیس سوٹ میں سر پر کالا ہیٹ پہنے داڑھی والا بندہ آیا، جس نے سر کے دونوں اطراف پونیاں بھی بنائی ہوئی تھیں، اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔ کہنے لگا کہ جناب میرا آپ سے ملنے کا وقت تھا۔ میں نے کہا جی کوئی ڈریس کوڈ تھا تو مجھے بھی بتا دیتے میں تو ٹی شرٹ جینز میں ہی آ گیا۔ کہنے لگا کہ کپڑوں میں کیا رکھا ہے آپ سے ملنے کی تمنا تھی آج پوری ہو گئی۔ خیر کافی منگوائی اور پوچھا کہ بتائیے جناب آپ ملنا چاہتے تھے۔ کہنے لگا کہ بس پوچھنا تھا کہ جو علم آپ استعمال کرتے ہیں، کونسا ہے اور کہاں سے سیکھا۔ میں نے کہا جی ہم مسلمان تو آپکو پتہ ہے قران کا علم ہی استعمال کرتے ہیں۔ کہنے لگا جناب مجھے پتہ ہے کہ قرآن سے آپکو خاصا شغف ہے لیکن میرے کیس میں آپ نے جو علم استعمال کیا وہ قران کا نہ ہے بلکہ کچھ اور ہے۔ میں نے پوچھا کہ جناب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کہنے لگا کہ آپکے جنات مسلمان اور قرآن پڑھنے والے نہ تھے۔ اوپر سے تو میں ہنس پڑا لیکن اندر سے مجھے پتہ چل گیا کہ میرے سامنے بھی ایک صاحب علم بیٹھا ہے۔ میں نے کہا جناب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے جادو کی طاقت استعمال کی ہے۔ کہنے لگا کہ نہیں جو علم آپ نے میرے خلاف استعمال کیا وہ جادو نہیں ہے لیکن قرآنی بھی نہیں ہے اور ہزاروں سال قدیم ہے۔ اب میں نے اُسکو کہا کہ ٹھیک ہے میں آپکو اپنے علم کی ماہیت بتا دیتا ہوں، کیا آپ بھی بتائیں گے۔ اُس نے کہا بتاؤنگا۔ میں نے کہا کہ جناب میں نے آپکے خلاف دعائے برھتیه استعمال کی ہے۔ ( اب یہاں آپ لوگوں کو آج بتا دوں جو اس دنیا میں کسی کو بھی نہیں پتہ اور اگر پتہ بھی ہے تو اجتک اسکا اظہار نہیں کیا گیا۔ دعائے برھتیہ کے جنات کی ایک بہت بڑی قسم اُن جنات کی ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لائے تھے اور آج بھی سلیمان علیہ السلام کو اپنا نبی مانتے ہیں۔ مسلمان نہیں ہیں لیکن توحید پرست ہیں اور ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ کسی مائی کے لعل کو اس بات کا نہیں پتہ، آج میں نے بتا دی۔ دعائے برھتیہ کے جنات ہزاروں سال پرانے اور بیتحاشہ جلال اور تعداد میں ہیں۔ آجکل فیس بک پر بڑی زکوتیں ادا ہوتی ہیں اسکی۔ ان جاہلین کو پتہ ہی نہیں کہ دعائے برھتیہ کیا چیز ہے اور اسکی رجعت کیسی اعلی ہوتی ہے، بس پیسے لے لیے اور لوگوں کو زکوة ادا کروا دی، زکوة ادا کروانے والا بھی جاہل مطلق اور ادا کرنے والا بیچارہ)۔ پوچھنے لگا آپکا استاد کون تھا۔ میں نے کہا ڈاکٹر منشور عالم صدیقی صاحب۔ میں نے کہا اب میں کچھ پوچھوں۔ کہنے لگا شوٹ۔ میں نے کہا آپ مجھے شکل و حلیے سے یہودی کیوں لگ رہے ہیں۔ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ وہ یہودی ہی ہے اور اُستاد بھی یہودی ہے۔ میں نے کہا کہ پھر تو آپ کبالہ کرتے ہونگے۔ کہنے لگا جی ہاں۔ قصہ مختصر کہ ہم لوگ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بیٹھے رہے اور تبادلہ خیال ہوتا رہا جسمیں مجھے یہ پیشکش بھی ہوئی کہ میں اور وہ اکھٹے کام کریں، پیسہ بہت کمائیں گے جسپر میں نے معذرت کر لی۔ دوران گفتگو ہی میں نے نوٹ کیا تھا کہ میرے چاروں بندے غائب ہو گئے تھے۔ جب ہماری ملاقات کا اختتام ہوا اور وہ یہودی چلا گیا تو میں نے اپنے لوگوں کو کال کی کہ چول کے بچو کدھر مر گئے ہو۔ کہنے لگے کہ ہمارے سر میں اسقدر درد ہوئی، جونہی وہ بندہ آیا، کہ ہمیں یہاں سے اُٹھ کر جانا پڑا۔ میں نے کہا بہت اعلی بیغئرتو! کبھی کبھار نماز و ذکر کیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔

یہودی ازل سے جادو کر رہا ہے اپنے دشمنوں کے اوپر اور ابد تک کرتا رہے گا۔ پوری دنیا کے مسلمان ممالک اور سربراہان مملکت کے اوپر کبالہ جادو ہوتا ہے۔ اور صرف مسلمان ہی نہیں عیسائیوں پر بھی۔ جادو کا استعمال صرف یہود ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تقریباً ساری قومیں یہ گھٹیا کام صدیوں سے سرانجام دیتی آئی ہیں۔ خصوصا جنگوں میں۔ یورپ و انگلینڈ کی پوری پسٹری گواہ ہے کہ کس طرح بادشاہ اپنے دربار میں اپنے ساتھ جادوگر رکھتے تھے۔ فرعون بھی بادشاہ تھا اور اُسکے دربار کے جادوگروں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ ہوا تھا۔ رومنز بھی بیتحاشہ جادو کرتے تھے لیکن زیادہ مشہور انگلینڈ والے ہوئے۔  انگلینڈ کے شاہی خاندان میں کئی سو سال جادو ہوتا رہا۔ vikings بھی بہت بڑے جادوگر تھے۔ اپنے حملوں سے پہلے باقاعدہ جادو کرتے اور قربانی دیتے تھے انسانوں کی۔ مسلمان بادشاہ بھی اپنے دربار میں اکثر بزرگ عاملین رکھتے تھے جو مسلمان بادشاہ کے لیے دعا و عملیات کرتے جو لازمی بات ہے جادو نہیں بلکہ قرآنی یا جفری ہوتے تھے۔ میرے ایک کرنل صاحب واقف تھے جو وزیرستان کے کسی علاقے میں جنگ میں مصروف تھے۔ اپنے جوانوں کو مشن پر بھیجنے سے پہلے وہ دو بندوں کی ڈیوٹی لگاتے تھے کہ وہ مشن کے دوران مسجد میں بیٹھ کر قران کی تلاوت کرتے تھے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جنگ اور امن دونوں میں دنیا کا رواج رہا ہے کہ لوگ اپنے مخالفین کے خلاف دنیاوی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی قوتوں سے بھی مدد لیتے ہیں، لیتے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے بھی۔ اب چاہے یہ قوت قرآنی ہو یا سحر و جادو کی۔

یہود ہمارے خلاف پوری دنیا میں کبالہ کا استعمال کر رہے ہیں تو کیا ہم اُنکے خلاف اپنے قرآن سے کوئی میزائل بنا کر استعمال نہیں کر سکتے؟ ایسا ہی ایک میزائل میں نے اس پوسٹ میں دیا ہے۔  یہ پوسٹ بہت زیادہ طویل ہو گئی ہے لیکن سمجھانے و بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اس دنیا میں رب القھار کی مدد اپنے لیے چاہتے ہیں تو ہمیں بھی اپنی جان و مال و وقت کی قربانی رب القھار کو دینی پڑے گی۔ اب جان تو ہم دے نہیں سکتے کیونکہ ہم ہیں سیانے بہت۔ تو مال و وقت بھی بچا کر ڈیڑھ سیانے نہ نہ بنیں بلکہ جان بچی سو لاکھوں پائے کو کافی سمجھتے ہوئے کم از کم وقت و مال تو اللہ کی راہ پر لگائیں۔ کیا ہم مساجد اور علما دین کے ساتھ مالی معاونت نہیں کر سکتے؟ کہ سارا مال مزاروں کے لیے ہی وقف ہے مسلمانوں کا؟ مسلمان اس وقت پوری دنیا میں حالت جنگ میں ہیں۔ کیا ہم اپنے مجاہدین کے لیے دعا و ذکر نہیں کر سکتے؟ کیا ہم اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف عمل و ذکر نہیں کر سکتے؟

حدیث مبارکہ میں ہے کہ دوران جنگ مسلمانوں کو اپنی نمازوں میں کفار اور مشرکین کے لئے درج ذیل دعا مانگنی چاہئے۔

عَنْ عَطَائٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ اَنَّہٗ سَمِعَ عُبَیْدَ بْنَ عُمَیْرٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ یُوْثِرُ عَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ فِی الْقُنُوْتِ (( اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَ اَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَاصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ وَانْصُرْہُمْ عَلٰی عَدُوِّکَ وَ عَدُوِّہِمْ اَللّٰہُمَّ الْعَنْ کَفَرَۃَ اَہْلَ الْکِتَابِ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ وَ یُقَاتِلُوْنَ اَوْلِیَائَ کَ اَللّٰہُمَّ خَالِفْ بَیْنَ کَلِمَتِہِمْ وَ زَلْزِلْ اَقْدَامَہُمْ وَ اَنْزِلْ بِہِمْ بَأْسَکَ الَّذِیْ لاَ تَرُدُّہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ )) رَوَاہُ الْمَرُوْزِیُّ فِیْ قِیَامُ اللَّیْلِ

حضرت عطا رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ کو ذکر کرتے ہوئے سنا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے قنوت میں یہ دعا مانگی ”یا اللہ! مومن مردوں اور مومن عورتوں کو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے ان کے دلوں میں الفت ڈال دے اور ان کی آپس میں اصلاح فرما دے، اپنے اور ان کے (مشترکہ ) دشمن کے خلاف ان کی مدد فرما ، اے اللہ! اہل کتاب میں سے ان کافروں پر اپنی لعنت فرما، جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں تیرے دوستوں سے جنگ کرتے ہیں، اے اللہ ! ان کے معاملات میں اختلاف ڈال دے ، ان کے قدم ڈگمگا دے اور ان پر ایساعذاب نازل فرما جسے تو مجرم لوگوں سے پھیرتا نہیں۔” اسے مروزی نے قیام اللیل میں روایت کیا ہے۔

سو اجکی اتنی لمبی پوسٹ درحقیقت یہود و انڈیا کی اسلام دشمن سرگرمیوں کے جواب میں اپنی ایک روحانی کاوش کو آپکے سامنے رکھنا ہے۔ آپ سب کو یہ حکم ہے کہ ہر بندہ اس عمل کو کم از کم نو دن ضرور کرے۔ اُسکے علاوہ جب چاہے جتنے مرضی دن کرے۔  اس عمل سے ذاکر، قھارُ جبارُ کی زکوة ادا کر کے ان دونوں اسمائے الٰہی کا عامل بھی بن جائے گا۔ ہر بندہ کسی نہ کسی دشمن سے پریشان رہتا ہے۔ آپ میرے لیے یہ عمل کم از کم نو دن کر لیجیے۔ پھر میں ایک اور عمل پوسٹ کرونگا دشمنوں کے لیے جسکی اُن لوگوں کو اجازت ہو گی جنھوں نے میرا یہ عمل کیا ہو گا۔ ویسے بھی جب آپ مسلمانوں کے دشمنوں کے لیے بددعا کرینگے تو آپکے اپنے دشمن بھی بھگتیں گے کیونکہ،

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے لیے اس کے پیٹھ پیچھے ضرور قبول ہوتی ہے، اس دعا مانگنے والے کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو یہ فرشتہ کہتا ہے: آمین اور تم کو بھی یہی ملے‘‘۔ صحیح مسلم۔

51376237488576

شمع کے اعداد یہ ہیں۔ یہ ایک بہت ہی طاقتور شمع ہے جس کے موکلات و جنات کی اشکال اژدھوں اور بھیڑیوں جیسی ہے۔ اس شمع کا روحانی وزن ایک پہاڑ کی مانند ہے۔ اسمائے الٰہی یاقھارُ یاجبارُ کی پڑھائی 963 مرتبہ ہے۔ پہلے شمع بنا کر اُسپر یہ عزیمت تین مرتبہ دم کر دیں۔ پھر شمع جلا کر نو سو مرتبہ اسمائے الٰہی پڑھیں پھر تین مرتبہ دعا۔ پھر ساٹھ مرتبہ اسمائے الٰہی پڑھیں اور تین مرتبہ دعا۔ پھر تین مرتبہ دونوں اسمائے الٰہی پڑھ کر تین مرتبہ دعا اور تین مرتبہ اللھم آمین۔

اَللّٰھُمَّ یَاقَھَّارُ یَاجَبَّارُ اِمࣿنَحِ اسرائیل وَ بھارت ہَزِیࣿمَةً کَامِلَةً مِنَ الࣿمُسࣿلِمِیࣿن

كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ

اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ

إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

نو دن کے بعد آپ اسمائے الٰہی یا قھارُ یا جبارُ کے عامل بن جائیں گے۔ اب اسی طرح کسی دشمن کے لیے پڑھائی کرینگے تو وہ دشمن نیست و نابود ہو گا۔ چاہے انسانوں میں سے ہو چاہے جنات میں سے۔ بس عزیمت و شمع تبدیل ہو گی وہ اگلی پوسٹ میں دے دونگا۔

اب اس عمل سے ہو گیا کیا۔ ایک تو مسلمانوں کے خلاف کام کرنے والوں میں بیماریاں پھیلیں گی۔ اس شمع کے خدام دشمن کو مختلف نفسیاتی مسائل میں مبتلا کرینگے۔ ان کی طبعیتوں میں خوف و ہیبھت پیدا کی جائے گی۔ بوکھلاہٹ پیدا ہو گی، صحیح فیصلہ نہ کر سکیں گے اور انکی فوجوں میں انتشار پھیلے گا۔ چونکہ بھارت میں مسلمان آبادی بھی بہت زیادہ ہے اسلیے تباہی کا عمل دینا مناسب نہ تھا۔  اسرائیل نے فلسطین کو تباہ کر دیا ہے۔ ہزاروں بچے مار دیے ہیں۔ رج کر عمل و بددعا ہونی چاہیے اس بدبخت حرامی قوم پر۔

یاد رکھیے گا۔ الله کے دین کو غالب کرنے کی کوئی بھی کوشش ہو، چاہے روحانی چاہے دنیاوی، آپکو اُسکا اجر و ثواب تو ملے گا ہی اور ساتھ ساتھ قرآن کے ملائکہ آپکی عزت کرینگے اور آپکے دنیاوی کاموں میں نہ صرف آپکی مدد کرینگے بلکہ آپکے دشمنوں و حاسدین کو بھی ذلیل کرینگے۔ ملک کندیاس رحمتہ الله (صلی الله علی محمد و علی الملک کندیاس) کے بقول، “کسی بھی روحانی طریقے سے مجاہدین اسلام کو مدد دینے کی کوشش کرنا یا دشمنان اسلام کو ہزیمت کا سامنا کروانا، آپکو روحانی دنیا میں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے، درجات میں بلندی کا سبب بنتا ہے اور ملائکہ و جن کے جہانوں میں مقبولیت کا باعث ہوتا ہے”۔

حضرت عبداللہ بن عمرو  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ غازی ( مجاہد) کے لیے اس کا ثواب ہے اور غازی کے مددگار کے لیے اپنا ثواب بھی ہے اور غازی کا ثواب بھی ۔(ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب الرخصۃ فی اخذ الجعائل، ۳ / ۲۴، الحدیث: ۲۵۲۶)

صدق اللہ العلی العظیم

واللہ اعلی و اعلم۔

IMG_9219.jpeg

Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment