spiritual revelations

شرف قمر یا کافی یا غنی

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم

بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔

توکلت علی القھار رب العرش العظیم

پندرہ جون ۲۰۲۳ کو قمر اپنے شرفی برج ثور میں داخل ہو گا اور اٹھارہ جون تک رہے گا۔ عمل کی شروعات پندرہ کی راتگیارہ چالیس پر ہو گی۔ اور پانچ دن یا سات دن کیا جائے گا۔ یہ عمل رزق کے لیے اور جمیع حاجات کے لیے کیا جا سکتا ہے۔اسمائے الہی میں سے یَاکَافِیُ یَاغَنِیُّ کو عاملین کرام نے قمر کے ساتھ منسوب کیا ہے اور انہی اسمائے الہی کے وسیلے سےایک حاجت کا عمل شرف قمر کے دوران کیا جائے گا۔

یاد رکھیے اسمائے الہی کا ورد خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ عمل کی زیادہ تعداد اور وقت سے وہ لوگ گبھراتے ہیںجنکی قسمت میں اسماء کا فیض نہیں ہوتا۔ وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ وظیفہ اتنا لمبا ہے، تعداد اتنی زیادہ ہے، اور نصیبوالے پڑھ کر فیض حاصل کر کے کہاں کے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔  کچھ لوگ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ اتنی تعداد میںاسمائے الہی مثلاً سوا لاکھ یا نوے ہزار پڑھ کر کیا حاصل کر لیا۔ اوّل تو ایسے بندوں کو جواب ہی نہیں دینا چاہیے کیونکہ وقتکا ضیائع ہے۔ لیکن آپ لوگوں کی معلومات کے لیے کچھ چیزیں درج کر دیتا ہوں۔

قرآن مجید میں رب القھار نے فرمایا،

1. وَ ِللهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی (فَادْعُوْهُ بِهَا) وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْ اَسْمَآئِهِ ط سَيُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا يَعْمَلُوْنَo

(الاعراف، 7/ 180)

اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میںحق سے اِنحراف کرتے ہیں، عنقریب انہیں ان (اَعمالِ بد) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔

علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں (ص 325 ج 7) آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخصنماز میں یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ کہہ رہا تھا۔ مکہ مکرمہ کے ایک مشرک نے سن لیا تو کہنے لگا کہ محمد اور ان کے ساتھی یوںکہتے ہیں کہ ہم ایک ہی رب کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ یہ شخص ایسے الفاظ کہہ رہا ہے جن سے دو رب کا پکارنا سمجھ میںآ رہا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

آج بھی کفار مکہ سے مشابہ کچھ لوگ اسمائے الہی کے پڑھنے اور طویل عملیات پر جرح و اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور اس آیت میں اسما الہی کے معاملات میں حق سے انحراف کرنے والے لوگوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسما کے وردسے منع کرتے ہیں اور اسما کے ورد کے نتیجے میں رجعت اور موکلات کے غصہ ہونے اور آپکو طرح طرح کی پریشانیوں کاشکار کرنے والے عقائد کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔

ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا اور ان اسماء کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگنا یہ سب (فَادْعُوْہُ بِھَا) کےعموم میں آجاتا ہے۔ علامہ سیوطی (رح) نے جامع صغیر میں بحوالہ حلیۃ الاولیاء حضرت علی ؓ سے حدیث نقل کی ہے۔ اِنَّ لِلّٰہَتسْعَۃً وَّ تِسْعِیْنَ اِسْماً مَاءۃ غیر واحِدۃ اِنَّہٗ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ وَ مَا مِنْ عَبدٍ یَّدعُوْبِھَا اِلَّا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ اس میں بھی یدعوبھا کا ایکمطلب تو وہی ہے کہ ان اسماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان سماء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سےدعا مانگنے یعنی ان اسماء کو پڑھے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔

علامہ قرطبی نے فادعوہ بھا کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ای اطلبوا منہ باسماۂ فیطلب بکل اسم مایلیق بہ تقول یا رحیمارحمنی یا حکیم احکم بی یا رازق ارزقنی یا ھادی اھدنی یا فتاح افتح لی یا تواب تب علی ھکذا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ سے اس کےناموں کے وسیلہ سے مانگو اور ہر نام کے مطابق طلب کیا جائے مثلاً کہو اے رحیم مجھ پر رحم فرما، اے حکیم میرے لیے حکمتکا فیصلہ فرما، اے رازق مجھے رزق دے، اے ہادی مجھے ہدایت دے، اے فتاح میرے لیے فتوحات کے دروازے کھول، اے توبہ قبولکرنے والے میری توبہ قبول فرما) ۔ اب علامہ قرطبی کا یہ فرمان میرے لیے اور میرے جیسے دیگر عاملین کے لیے اور باقی لوگوںکے لیے قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہے۔

آجکل کے لوگ چند انگریزی کتابیں پڑھ کر، انگریزوں کی بکواس مائنڈ سائنسز سے متاثر ہو کر اپنے آپکو ان جلیل القدرشخصیات، جنھوں نے اپنی عمریں دین اور دین کی تشریح کے لیے وقف کر دیں، سے اوپر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اوراسما اور قرآن پر فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ دنیاوی حاجات میں اوّل تو اسما و قرآن کو پڑھنا ہی نہیں چاہیے اور اگرپڑھ لیا تو ثواب نہ ملے گا اور حاجت بھی اگر پوری ہو گئی تو موکلات غصے میں آ کر کہیں اور نقصان پہنچا دیں گے۔ یادرکھیے کہ لا آف اٹریکشن اور اس طرح کے دوسرے لاز سب بکواس اور بل شٹ پر مبنی ہیں اور ہر طرح کے اثرات سے یکسرخالی ہیں۔ یہ ایک متروک سو کالڈ سائنس ہے جو کب کی آزما کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی گئی تھی لیکن پھر ہر دور میںکسی نہ کسی سو کالڈ سائنس دان کو ہوش آ جاتی ہے اور وہ دوبارہ عوام کو گمراہ کرنے پر لگ جاتا ہے۔ جس کسی کو یقیننہ آئے، زکر اذکار چھوڑ کر تین چار پانچ مہینے مائنڈ سائنسز کر کے شوق پورا کر لے۔

علامہ جزری (رح) نے الحصن الحصین میں اس طرح کی احادیث نقل کی ہیں جن سے اسماء الٰہیہ کا ذکر کرنے کے بعد دعاءکی جائے تو دعا قبول ہونے کا وعدہ ہے بحوالہ سنن ترمذی علامہ جزری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو یَاذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا کہ تیری دعاء قبول ہوگی تو سوال کرلے، پھر بحوالہ مستدرک حاکم نقل کیاہے کہ رسول اللہ کا ایک شخص پر گزر ہوا جو یا ارحم الراحمین پڑھ رہا تھا آپ نے فرمایا کہ سوال کر اللہ تعالیٰ شانہٗ نےتیری طرف (رحمت کی) نظر فرمائی۔ اب یہاں اظہر حسین صادق کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول الله محمد کریم نے کہیں یہ نہیں کہاکہ سوال دنیاوی حاجت کا کر یا آخروی حاجت کا۔ اور پھر اگر الله رب القھار نے کسی کی طرف رحمت کی نظر فرمائی تو آگےکیا پھر عقیدہ یہ رکھا جائے کہ الله نے نظر تو فرما لی لیکن ثواب نہ دیا؟ اہل ہوش و نظر یہاں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہدنیاوی حاجات کے لیے اسمائے الہی پڑھنا اور اُس پر ثواب نہ ملنا، کتنا باطل اور بکواس عقیدہ ہے۔

اب دیکھیے جلیل القدر محدثین اور تفسیر قرآن کے عامل محمد کریم سے منسوب اسماء کی تعریف و توضیح کیسے بیان کر رہےہیں اور آجکل کے نام نہاد عاملین و پیر اسماء  کا پڑھنا ہی منع کر دیتے ہیں۔ اسما کے وظائف پر قدغن لگا دی جاتی ہے کہ یہجلالی ہیں، یہ جمالی ہیں، انکے پڑھنے سے رجعت ہوتی ہے، انکو دنیاوی حاجات میں نہیں پڑھنا چاہیے شائد اسلیے بھی کہدین تو آیا ہی آخرت کے لیے تھا، دنیا سے تو اسکا تعلق ہی کوئی نہیں۔ جب تک ایسے پیر فقیر و عاملین موجود ہیں جو جاہلیتکے مقام اعلی پر فائز ہیں اور جب تک  آپ نے انکو فالو کر کے جاہل رہنا ہے تب تک تو آپکی مرض ورنہ میں اور کتنے نامورمحدثین اور انکی تعلیمات کا اظہار کروں؟

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا: {اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُکَ بِاَنَّکَ اَنْتَ اللهُ، الْاَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَکُنْ لَهُ کُفُوًا اَحَدٌ} ’اے اللہ! میں تجھ سے اس واسطےسوال کرتا ہوں کہ تو اللہ ہے۔ تو یکتا اور سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہہی وہ پیدا کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شخص نے اللہکے اسم اعظم کے واسطے سے سوال کیا ہے کہ جب اس کے وسیلے سے (کسی چیز کا) سوال کیا جائے تو وہ عطا فرماتا ہے اورجب اس کے واسطے سے دعا کی جائے تو قبول فرماتا ہے۔

اسے امام احمد، نسائی، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

اب اس حدیث مبارکہ میں محمد کریم اسمائے الہی کے ورد کی ترغیب دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جب انکے وسیلے سے الله سےدعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے۔ اب یہاں پر کیا یہ تخصیص کی گئی ہے کہ اسما پڑھ کر صرف آخرت ہی مانگنی ہے اوردنیاوی حاجات کے لیے اسما پڑھنے منع ہیں؟ کیا صحابہ کرام رضی الله اپنی دنیاوی حاجات نہ رکھتے تھے اور الله سے طلبنہ کرتے تھے؟

اب جو بندہ بھی یہاں آپکو یہ کہتا ہوا ملے کہ اسما تو صرف الله کے ذکر کے طور پر ہی پڑھنے چاہییں اور دنیاوی حاجات کےطور پر انکا ورد منع ہے یا ناپسندیدہ ہے، تو ایسے بندے کی عقل پر فاتحہ پڑھ دیجیے کیونکہ یا تو اُسکو حدیث کا علم نہیں یاوہ حدیث کو مانتا نہیں یا اسماء کے فیض سے مکمل محروم ہے۔

ایک دعا ہے، حدیث کی ہے، اسکا ترجمہ غور سے پڑھیے گا۔

اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ، وَابْنُ عَبْدِكَ ، وَابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِنَفْسَكَ ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ ، أَوْ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي ، وَنُورَصَدْرِي ، وَجِلَاءَ حُزْنِي ، وَذَهَابَ هَمِّي(السلسلة الصحيحة: 199)

ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں ، اور تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ میں ہے، میری ذات پر تیراہی کا حکم چلتا ہے، میری ذات کے متعلق تیرا فیصلہ سراپا عدل و انصاف ہے، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کرکہتا ہوں کہ جو توں نے اپنے لیے خود تجویز کیا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو وہ نام سکھایا، یا اپنی کتاب میں نازلفرمایا، یا اپنے پاس علم غیب میں ہی اسے محفوظ رکھا، کہ تو قرآن کریم کو میرے دل کی بہار، سینے کا نور،غموں کیلئے باعثکشادگی اور پریشانیوں کیلئے دوری کا ذریعہ بنا دے۔

اب کوئی مائی کا لعل ثابت کرے کہ اس دعا میں غموں، کشادگی، اور پریشانیاں صرف آخرت کی مراد ہیں اور دنیا سے انکاکوئی تعلق نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کی کسی دنیاوی حاجت کے لیے تلاوت کے بعد اگر یہ دعا پڑھی جائے تو حاجتمقبول ہوتی ہے اور سنت کا بھی ثواب ملتا ہے۔ میرے سو آیات والے عمل قرآنی کے بعد بھی اس دعا کا ورد کرنا چاہیے۔

اب آئیے اپنا ایک ذاتی واقعہ سناؤں۔ بہت سارے لوگوں کے کشف اور باطنی نگاہ میرے عملیات سے کھلیں ہیں۔ اگر وہ سب لوگیہاں کمنٹ کر دیں تو نام نہاد پیروں اور عاملین کے منہ کھلے کے کھلے رہ جائیں۔ بہرحال انھی میں سے ایک، میرا بتایا ہوالطیف کا، عمل کر رہا تھا جب لطیف کا موکل اُس کے سامنے حاضر ہو گئے۔ اسم الہی لطیف کے بارے یہ بات رکھیے گا کہدنیائے عملیات میں اسم لطیف کا عامل تسخیرات کے میدان میں بہت کامیابی پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر دنیا جہان کےجنات و موکلات و ہمزاد لطیف کے عامل کے سامنے سرنگوں رہتے ہیں، تو اس سے لطیف کے روحانی خدام کی طاقت کا اندازہلگا لیجیے۔ لیکن ایک حیرانی کی بات یہ تھی کہ لطیف کے موکل ایک ہیبت ناک جثہ کے ساتھ حاضر ہوئے لیکن مسکرا رہےتھے۔ کچھ دن ایسا ہی چلتا رہا۔ جب بندے نے مجھے بتایا تو میں نے اُسے کہا کہ عمل کے بعد انکو سلام کرنا اور ان سے انکانام پوچھنا۔ اب حیرت انگیز طور پر ہوا یوں کہ موکل نے نہ صرف اپنا نام بتایا بلکہ میرے لیے ایک پیغام بھی دیا۔ جب یہ پیغاممجھے ملا تو میں حیرت زدہ رہ گیا دو وجوہات کی بنا پر۔

اوّل تو بندے نے مجھے موکل علیه السلام کا جو نام بتایا وہ میرے علاوہ شائد ہی کسی کو معلوم ہو اور کتابوں میں تو بالکل ہینہیں لکھا۔ دوسرا موکل نے پیغام دیا کہ اظہر حسین کو کہنا وہ تو ہمیں بھول گیا ہے لیکن ہم اُسکو نہیں بھولے۔ یہ پیغام سُنکر میں اپنے پچپن میں چلا گیا جب کہ مجھے ہمزاد قابو کرنے کا جنون کی حد تک شوق پڑ گیا تھا اور روحانی دنیا (کاشالبرنی) کے رسالہ سے دیکھ کر میں نے بغیر اجازت لطیف کی نوے ہزار مرتبہ کی ریاضت کی تھی۔ پھر کچھ عرصہ میں نےمداومت رکھی لیکن پھر چھوڑ دی۔ اب دیکھ لیجیے، اُس وقت سے لے کر اجتک موکلات نے مجھے یاد رکھا ہوا تھا اور محبتسے یاد رکھا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات جان اور سمجھ وہی سکتا ہے جسکو موکلات کی کچھ سمجھ ہو اور جس نے کبھی کوئیریاضت کی ہی نہ ہو اور دوسروں کو بھی نہ کرنے کا مشورہ دیتا ہو، وہ بندہ اس روحانی دنیا کے اسرار و رموز سے آگاہ نہیںہو سکتا، پھڑیں جتنی مرضی مار لے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ احادیث تبدیل ہو چکی ہیں۔ ان عقل کے اندھوں سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ اور جو لوگ ایساسمجھتے ہیں، انہیں اس عمل کی اجازت بھی نہیں۔ میرے نزدیک قرآن مجید کی مثال ایک تاج کی طرح سے ہے جسمیں ہیرےجڑے ہوئے ہیں اور یہ ھیرے احادیث ہیں۔

وقت مقررہ پر ایک سبز پوانٹر سے یا پھر سبز فوڈ کلر کو انک پین میں بھر کر ایک سفید کاغذ کے ٹکڑے پر آپ یہ طلسم لکھیںگے۔ اور اسکے بعد طلسم کے نیچے یہ آیت لکھ دیجیے گا۔

۴۳۰۷۸۷۹۱۱۶۸۰۰۰۰۰

سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا

بس یہ طلسم مکمل ہوا۔ اتنا ہی لکھنا ہے۔ پہلے اعداد ۴۳ سے شروع کر کے اور پھر اعداد کے نیچے آیت قرآنی۔ اسکو موڑ کربعد میں اسپر سبز ٹیپ لپیٹ دیجیے گا اور اپنے گلے میں پہن لیں چاہے بٹوے میں رکھ لیں۔

اب یہ اعداد کسی بھی رنگ کے پین یا مارکر سے اپنے بائیں بازو پر لکھیے

۶۶۳۴۹۴۰۹۸۰

اور یہی اعداد شمع پر بھی کندہ کیجیے اور شمع جلا دیجیے۔

ایسے پڑھیے۔

تین مرتبہ اسمائے الہی اور اسکے ایک مرتبہ اللھم والی عزیمت پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیں۔

دس مرتبہ اسمائے الہی اور اُسکے بعد ایک مرتبہ اللھم والی عزیمت پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیں۔

تین سو مرتبہ اسمائے الہی کا ورد اور ہر سو مرتبہ کے بعد ایک مرتبہ اللھم والی عزیمت اور اپنے اوپر دم۔

اس طرح عزیمت کل پانچ مرتبہ پڑھی جائے گی۔

اب آیت نمبر ایک اور دو اکھٹی ۱۰۶ مرتبہ پڑھیے گا اس طرح کہ چھ مرتبہ دونوں آیات پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ اللھم والیعزیمت۔ پھر سو مرتبہ دونوں آیات پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ اللھم والی عزیمت۔

عمل مکمل ہونے کے بعد اپنی جمیع حاجات کی دعا الله سے کر لیجیے۔ اگر اوپر والی باتیں سمجھ نہ آئی ہوں تو پھر خالیاسمائے الہی کا ورد کیجیے ۳۱۳ مرتبہ اور مکمل ورد کے بعد اللھم والی دعا پانچ بار پڑھ لیجیے۔ پھر دونوں آیات ۱۰۶ بار پڑھکر آخر میں عزیمت دو مرتبہ پڑھ لیجیے۔

شمع اگر جل رہی ہو عمل مکمل ہونے کے بعد تو اُسے جلنے دیجیے اور آپ اپنے کام کیجیے۔ اگر شمع پہلے بجھ جائے تو بھی آپعمل مکمل کر کے اٹھیں۔

عزیمت۔ اَللّٰھُمَّ یَا کَافِیُ اِکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَ یَا غَنِیُّ اَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ

ترجمہ : اے اللہ مجھے کفایت دے اپنا حلال رزق دے کر  اور حرام رزق سے بچا اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ اپنے سوادوسروں سے بے نیاز کردے۔

آیت ۱۔ سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا

جلد ہی اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔

آیت ۲۔ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الࣿحَمِیࣿد۔

بیشک الله ہی بے نیاز، تعریف کے لائق ہے۔

یہ عمل کسی بھی شرف قمر میں دھرایا جا سکتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ اس عمل کے دوران مختلف اور اقسام کے نقوش وطلسمات نہ لکھے جائیں۔ عمل کے دن مکمل ہونے کے بعد بس آیت نمبر ایک روزانہ ۱۰۶ مرتبہ پڑھ کر اپنے طلسم پر دم کر لیجائے۔ یہی مداومت ہے۔

یہ عمل جمیع حاجات کا ہے اور یہ طلسم مشکل یا رکے ہوے کاموں کو جاری کرنے کے لیے ہے۔ اس عمل کے بعد آپ قلبی سکونمحسوس کریں گے اور آپکی حاجت لازمی پوری ہو گی یا پورے ہونے کے اسباب پیدا ہونگے۔ آپ کسی بھی مسلے میں پریشان ودُکھی ہوں تو اس عمل کو ضرور کیجیے گا۔ آپکو فائدہ ہو گا۔ کوشش کیجیے کہ الله کے ذکر کو لازمی پکڑیں اور کسی صورتالله کے ذکر سے دور نہ رہیں۔ جو غلط فہمیاں آج کل پھیلائیں جا رہیں ہیں کہ ذکر الہی سے روحانیت آوٹ آف کنٹرول ہو جاتیہے، اسما و قرآن کے موکلات بندے کو طرح طرح کی پریشانیوں و مشکلات کا شکار کر دیتے ہیں، شیاطین بندے کے مزید دشمنہو جاتے ہیں، اور اس طرح کی مزید بے سروپا باتیں رجعت وغیرہ، انکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

آج میرے یہ الفاظ پڑھ لیجیے اور سن لیجیے اور میں اظہر حسین صادق پوری ذمہ داری سے یہ بات آپکو کہہ رہا ہوں کہ ذکرالہی کبھی نقصان یا رجعت نہیں دیتا اور ایسا عقیدہ رکھنا درحقیقت ایک بہت بڑی گستاخی ہے۔ یاد رکھیے کہ دینی و دنیاویو آخروی حاجات میں کلام قرآنی اور اسما الہی پر یہ اعتبار رکھنا کہ انکے ذکر اور وسیلے سے اپکی حاجات پوری ہونگی،دراصل الله رب القھار کی ذات پر اعتبار کرنا ہے اور ذات الہی پر مکمل اعتبار ہی درحقیقت ایمان و تقوی کی اعلی ترین قسمہے۔ باقی سب مائنڈ سائنسز اور کوڈز سوائے بکواس کے اور کچھ نہیں۔

صدق الله العلی العظیم

وَاللّٰه اعلی و اعلم

Please follow and like us:
fb-share-icon

2 thoughts on “شرف قمر یا کافی یا غنی”

  1. ماشاءاللہ بہت اچھا لکھا ہے
    سر یا لطیف سے طحی ارض بھی ھوتا ھے،، ایک عورت

    جسکا ان چیزوں سے دور کا واسطہ نہی نے یا لطیف پڑھا اور…
    دوسرے مین عرصہ 24 سال سے ی لطیف 129 بار پڑھ رھا ھون مگر کبھی کام نہی لیا کچھ رہنمائی فرمائیں

Leave a Comment