spiritual revelations

شرف و اوج مشتری ۲۰۲۵

شرف مشتری دوہزار پچیس۔ چودہ اگست کو فجر کی نماز کے بعد نقش و طلسم تیار کر لیں۔ اس مضمون کو کم از کم دو مرتبہ غور سے پڑھیے گا اور سمجھیے گا۔ ورنہ اجازت نہ ہے۔

اسمائے الٰہی کا جہان ایک عظیم جہان ہے جسمیں ہر اسم الٰہی ایک تابندہ و روشن ستارے کی طرح ہے جو اللہ پاک کے نور سے (اپنی خصوصیات و صفات کے عین مطابق) مزین ہے۔ اس جہان کی سیر کوئی معمولی بات نہیں اور نہ ہی کوئی معمولی آدمی کر سکتا ہے۔ معمولی سے آپ کیا سمجھے؟ کیونکہ مومن ادنیٰ ترین بھی ہو تو معمولی نہیں ہو سکتا۔

اب قران پاک تو مومن کی تعریف سے بھرا پڑا ہے لیکن میں صرف اپنے موضوع کے مطابق چند آیات قرآنی کا ترجمہ پیش کرونگا جن سے ہمیں مومن کی کچھ صحیح تعریف کا اندازہ ہو سکے گا۔

مومن صرف اﷲ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال: 2)

ﷲ کے سوا کسی معبود کو نہیں پکارتے۔ (الفرقان: 68)

اپنے رب سے اپنے لیے دین ودنیا کی بھلائیاں مانگنا مومن کی صفت ہوتا ہے۔(الفرقان: 74)

(میری پسندیدہ ترین تین خصوصیات۔ )

مومن وہ ہیں کہ جن کی نمازوں میں خشوع اور انہماک کی ایک کیفیت ہوتی ہے، صرف اٹھک بیٹھک نہیں ہوتی۔ (المومنون: 2)

وہ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے، یعنی ہر حال میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں۔(آل عمران: 191)

وعدہ کریں تو ہر حال میں پورے اترتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)

وہ ﷲ کے ساتھ بہت شدید محبت کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 165)

وہ سائل اور تنگ دست کا اپنی جیب وکمائی پر حق سمجھتے ہیں۔ (المعارج: 24)

جاہلانہ مباحثوں کے لیے جب انہیں مخاطب کیا جائے تو کرنے کے اصل دینی کام معلوم ہونے کی وجہ سے وہ ان کو سلام کہہ کر معذرت کرلیتے ہیں۔ (الفرقان: 63)

ان کے چہروں پر سجدے کے نشان دیکھے جاسکتے ہیں۔ (الفتح: 29)

نمازوں کی فکر کرتے ہیں (المعارج: 34) اور ایک نماز کے بعد دوسری کے انتظار میں رہتے ہیں۔ (جامع الترمذی: رقم51)

دن اور رات کے مختلف اوقات میں کئی دفعہ ربِ کائنات کے ذکر وتسبیح میں مشغول ہوتے ہیں (الانبیاء: 21) اور مشغولِ سجود وقیام نظر آتے ہیں۔ (ہود: 114)

وہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ (فاطر: 29)

وہ ﷲ کی رحمت کے امید وار ہوتے ہیں (الاسراء: 57) اور رب کی رحمت سے ناامید ہونا تو کافروں کی صفت ہے۔ (یوسف: 87)

وہ ﷲ کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں (الاسراء: 57) کیونکہ کوئی بھی آدمی اپنے بارے میں یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ خدا کے معاملہ میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوا۔

اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے حیلے وسیلے کرتے ہیں اور نیک اعمال کا جتن کرتے ہیں۔ (الاسراء: 57)

وہ عبادت گذار ہوتے ہیں۔ (التوبۃ: 112)

رکوع وسجود ان کی زندگی کا ایک ورق ہوتے ہیں۔ (التوبۃ: 112)

وہ روزہ دار ہوتے ہیں۔(التوبۃ: 112)

خوش حالی میں تو وہ خرچ کرتے ہی ہیں، تنگ حالی میں بھی صدقہ کرنا ان کا شعار ہوتا ہے۔(البلد: 14)

ﷲ کا نام لیتے ہوئے بیدا ہوتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہوئے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ (اسوہ نبوی) یعنی ﷲ کا ذکر بہت کثرت سے کرتے ہیں (الاحزاب: 35)

ﷲ پر، آخرت پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (البقرۃ: 177)

فرشتوں سے ان کا تعلق ایمان اور احترام کا ہوتا ہے۔ (البقرۃ: 285)

چھوٹی چھوٹی چیزوں کا لالچ نہیں کرتے کہ ایسا لالچ کرنا تو بے حس اور بے ایمان لوگوں کی صفت ہے(الماعون: 7)

اور وہ لین دین میں نرم روی سے کام لیتے ہیں۔ (حدیثِ نبوی)

اب یہ خصوصیات ہم سب میں ہی ہیں، کچھ کمی یا زیادتی ہونا ایک الگ بات ہے، لیکن مجموعی طور یہ خصوصیات ایک مومن کی زندگی کا نکھار ہیں۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان تمام خصوصیات کو ہم اپنی ہمت و برداشت کے مطابق اپنی شخصیت و زندگی میں جاری و ساری کریں۔ اب معمولی آدمی کون ہوا؟ وہ جو ان خصوصیات سے عاری ہے۔ اور ہم وہ (معمولی) نہیں۔

دنیا میں  اللہ تعالیٰ نے جتنی نعمتیں  اُتاری ہیں ، اُن میں  سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ایمان کے بغیر بندہ مومن نہیں۔ قارون کو اللہ تعالیٰ نے ’’حافظِ تورات‘‘ بنایا تھا؛ مگر دنیا کی محبت اس میں  اتنی داخل ہوگئی کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے لگا اور دین سے پھر گیا، اللہ تعالیٰ نے اُسے پوری دولت کے ساتھ زمین میں  دھنسا دیا، اس کے دھنسنے سے پہلے بہت سے لوگ اس کی دولت پر رال ٹپکارہے تھے؛ مگر جب معلوم ہوا کہ وہ عذاب میں  گرفتار ہوگیا تو لوگوں  نے کہا: توبہ توبہ، دنیا کوئی چیز نہیں ، مال و دولت سب فانی ہیں ، باقی صرف اللہ کی ذات ہے اور آخرت کا ثواب سب سے بہتر ہے اور وہ ایمان اور عمل صالح پر جمنے کے بعد ہی نصیب ہوگا۔ (قصص:۷۹-۸۰)

سو ہم لوگ اگر مومن بننا چاہتے ہیں، کسی بھی درجے کا، تو ہمیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے جوکہ آجکل کے دور میں مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ extinct بھی ہوتی جا رہی ہے۔ محمد کریم کے فرمانات کے مطابق ایک وقت ایسا ائے گا جب ایمان ناپید ہو جائے گا۔ یہ پیشنگوئی شروع ہو چکی ہے۔

۱- حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

یأتي عَلی النَّاسِ زَمانٌ، اَلصَّابِرُ فِیْہِمْ علی دینہٖ کالقابِضِ عَلَی الجَمَرْ۔(ترمذی۲۲۶۰)

ترجمہ: مسلمانوں  پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں  اپنے دین پر جمے رہنے والا انگارے کو پکڑنے والے کی طرح (پریشان) ہوگا۔

۲- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 بَادِرُوْا بالأعمال فِتَنًا، کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمْ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِنًا وَیُمْسِيْ کَافِرًا أوْ یُمْسِيْ مُؤمنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیا۔

 ترجمہ: فتنوں  کی وجہ سے نیکیاں  جلدی جلدی کرو، (فتنے) تاریک رات کے ٹکڑوں  کی طرح ہیں ؛ آدمی صبح کو مسلمان رہے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا یا شام کو مسلمان رہے گا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچے گا۔

 ۳- ایک موقع پر حضرت جابرؓ روتے ہوے فرمانے لگے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ اللہ کے دین میں  جُٹ کے جٹ داخل ہوے ہیں ؛ لیکن آگے (ایسازمانہ آئے گا کہ لوگ) جٹ کے جٹ اسلام سے نکلیں گے۔ (مسنداحمد ۳/۳۴۳)

۴۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

سَیَأتي عَلٰی أُمَّتِيْ زمانٌ یُصَلِّيْ فِيْ الْمَسْجِدِ، مِنْہُمْ ألفُ رَجُلٍ وزیادۃٌ لا یکونُ فِیْہِمْ مؤمنٌ۔ (دیلمی ۳۲۶۵)

ترجمہ: ’’آگے میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجد میں  نماز پڑھیں گے، ان میں  سے ہزار آدمی اور اس سے زیادہ آدمی ہوں گے (مگر) ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔‘‘

۵۔ ایک روایت میں  حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں  کہ لوگوں  پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ حج کررہے ہوں گے، نماز روزہ کررہے ہوں گے؛ لیکن ان میں  کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔ (اتحاف الجماعۃ ۲/۶۸)

سو مندرجہ بالا وقت کے آنے میں ہمیں رکاوٹ پیدا کرتے ہوئے مومن کی قرآنی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی پوری سعی کرنی چاہیے۔

اچھا اگر کسی بندے میں ایمان ہو تو آخر اُسکو حاصل کیا ہو گا۔ قرآن کے مطابق،

1_ وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ (یونس ٢)

ترجمۂ: ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے۔

مفسرین کرام نے قَدَمَ صِدْقٍ کے معنی بیان فرمائے ہیں، بہترین مقام، جنت میں بلند مرتبہ، نیک اعمال، نیک اعمال کا اَجر اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شفاعت۔

2_ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ بِاِيْمَانِهِمْ١ۚ ( یونس ٩)

ترجمۂ: بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے گا (دنیا و آخرت میں)۔

3_ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶(مریم ٩٦)

ترجمۂ: بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے محبت پیدا کردے گا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا کہ بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب اللہ پاک انہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا۔ (تفسیر صراط الجنان، مریم، تحت الآیۃ : ۹۶)

4_ اِنَّ اللّٰهَ يُدٰفِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ؕ (الحج ٣٨)

ترجمۂ: بیشک اللہ مسلمانوں سے بلائیں دور کرتا ہے۔

علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ مسلمان اگرچہ بلاؤں اور مصیبتوں وغیرہ کا سامنا کریں گے لیکن بالآخر عزت،نصرت اور بڑی کامیابی مسلمانوں کے لئے ہے اور یہ مصیبتیں ان کے گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ ہیں۔

5_ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ (حم السجدة ٨)

ترجمۂ: بیشک ایمان لانے والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کیلئے بے انتہا ثواب ہے۔

6_ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِؕ۷ (البینة ٧)

ترجمۂ: بیشک جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے کام کئے وہی تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔

7_ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا۴۷ (الاحزاب ۴٧)

ترجمۂ: اور ایمان والوں کو خوشخبری دیدو کہ ان کے لیے اللہ کا بڑا فضل ہے۔

ایمان والے کو احدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بھی دنیا اور آخرت میں کامیابی اور خوش نصیبی حاصل ہوگی۔ اسے اللہ کی رضا اور جنت کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں کو دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل حاصل ہو گا۔ اس سے بڑھ کر کیا چاہیے؟

چونکہ میرا طریقہ کار و عمل ذکر و اذکار رب القھار ہے اس لیے میں اسکے ذریعے سے آپکے مومن بننے میں آپکی مدد کر سکتا ہوں۔ باقی خصوصیات آپ نے خود محنت سے اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ اسی سلسلے میں شرف مشتری کے سعد ایام میں میں نے آپکے لیے ایک ایسے اسم الٰہی کا انتخاب کیا ہے جسکے عملیات عام طور پر لوگ نہیں کرتے۔ لیکن جسکی افادیت کا اگر اندازہ ہو جائے تو آپ کبھی اس اسم الٰہی کو چھوڑیں نہ کیونکہ یہ اسم الٰہی دین و دنیا و آخرت سب کے لیے ہے۔ اور کیا چاہیے؟

میں نے ایک مضمون میں کہا تھا کہ میں کاش البرنی رحمتہ اللہ کو اپنے مضامین سے زندہ رکھونگا۔ سو میری رہنمائی اس اسم الٰہی کی طرف حضرت کاش البرنی نے فرمائی اور آج میں آپکی کر رہا ہوں۔ یہ اسم الٰہی ہے مُوࣿمِنُ۔

مُوࣿمِنُ کے معنی وہ ذات قھار جو ایمان کی تصدیق کرے، ایمان عطا کرے، ایمان کو بڑھائے۔ مُوࣿمِنُ کے معنی امن عطا کرنے والے کے بھی ہیں۔ مُوࣿمِنُ کے ورد سے عالم غیب و حاضر کا راستہ کھل جاتا ہے۔ بدنصیبی سے خوش نصیبی اور ذلت سے عزت کی طرف یہ اسم الٰہی لے جاتا ہے۔ اس اسم کے ذاکر کو رب القھار خیر اپنے ہاتھوں سے دیتا ہے۔ اگر کوئی بندہ مُوࣿمِنُ کا ذکر باقاعدگی سے کرے تو اُس بندے کی کل حاجتیں پوری اور دعائیں قبول ہونگی۔ اس اسم الٰہی میں سلامتی ایمان کی تاثیرات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ مُوࣿمِنُ کے ذاکر کو اپنے تمام دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ مُوࣿمِنُ کے ذاکر کے حاسدین و دشمن اپنے ارادوں میں منہ کی کھاتے ہیں۔ مُوࣿمِنُ کا ذاکر، اس اسم کے ذکر سے بیداری یا نیند میں ایک قسم کے نور کا مشاہدہ کرتا ہے جو کہ پہلے تو اُسکے ایمان کے مطابق ہوتا ہے اور پھر درجہ با درجہ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ نور اپنے ذاکر کا مکمل احاطہ کر لیتا ہے اور پھر ہر قسم کے جادو جنات و شیاطین اس ذاکر سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ نیک جنات و فرشتے دور دور سے ذاکر کے نور کی حلاوت محسوس کرنے آتے ہیں اور فخر کرتے ہیں۔ شیاطین اور اُنکے وسوسوں سے ذاکر محفوظ رہتا ہے۔ مُوࣿمِنُ کے ذکر سے ذاکر کو حرام سے نفرت ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ایک سٹیج پر تو شہوات نفسانیہ کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مُوࣿمِنُ کے ذاکر کو ایمان کے ساتھ ساتھ ہیبت بھی عطا کی جاتی ہے۔ مُوࣿمِنُ کے کامل اثرات اگر کسی کی زندگی میں آ جائیں تو اُسکی زندگی امن و آمان کا گہوارہ بن جاتی ہے۔

اولاد یا کسی شخص کو بھی اگر غلط کاموں سے روکنا ہو تو مُوْمِنُ کا نقش بنا کر اُسپر انیسو مرتبہ المومن دم کریں اور اُسکو پہنا دیں۔ وہ غلط کاموں سے باز آ جائے گا۔ آپکے گھر میں کوئی نفسیاتی مریض ہو تو اُسکو بھی نقش پہنایا جائے اور پانی میں گھول کر کچھ عرصہ پلایا بھی جائے، ٹھیک ہو جائے گا، نفسیاتی و بری عادات چھوٹ جائیں گی۔ جو چھوٹے بچے ڈرتے ہیں تو اُنکو بھی نقش بنا کر پہنا دیا جائے۔ جب نقش بنا کر اُسپر انیسو مرتبہ المومن دم کرنے لگیں تو ایک تیل کی شیشی بھی اپنے پاس رکھ لیں۔ نقش پر دم کر کے ساتھ ہی تیل پر بھی دم کر دیں کہ بیچ میں سانس نہ ٹوٹے۔ اب نقش تو بچے کو پہنا دیں اور روزانہ بچے پر ۱۳۶ مرتبہ المومن پڑھ کر دم کریں۔ تیل پر پہلے دن تو انیسو دم کیا تھا۔ اب چھ دن مزید تیل پر ہزار مرتبہ روز المومن دم کریں۔ یہ ایک کمال کا تیل تیار ہو جائے گا۔ بچے کے سر میں لگائیں، جسم پر لگائیں، ناف پر مالش کریں۔ جو کوئی بھی بیمار ہو، اُسکے سر کی، تکلیف والی جگہ کی، ناف کی اور پیروں کی مالش ہو اس تیل سے۔ مریض بہت بہتر محسوس کرے گا۔ اس تیل کو کبھی ختم نہ ہونے دیں۔ جب ختم ہونے لگے پھر شیشی بھر لیں اور اُسپر انیسو مرتبہ المومن دم کر دیں بس ایک ہی دن۔ اور اسی طرح تاحیات چلاتے رہیں۔ جادو جنات والے مریض بھی اس تیل سے بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ دم وہی بندہ کرے جو روزانہ المومن پڑھتا ہو۔ بے خوابی کا مریض اس تیل کے ایک دو قطرے رات سوتے وقت اپنی پیشانی پر مالش کرے، ۱۳۶ مرتبہ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے اور اُسکے بعد یہ تصور کرے لیٹ کر کے ایک اندھیری جگہ المومن لکھا ہوا ہے جسمیں سے نور نکل رہا ہے۔ جلد سو جائے گا۔ اس مشق کے اور بڑے فوائد ہیں لیکن مضمون کی طوالت مجھے اجازت نہیں دیتی۔

حضرت کاش البرنی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ مُوࣿمِنُ کے نقش مربع کو شرف مشتری میں لکھ کر اپنے پاس رکھا جائے تو خلقت میں مقبولیت اور بہت نعمتیں حاصل ہوں۔ (یاد رہے کہ یہاں خلقت سے مراد صرف انسان نہیں بلکہ رب القھار کی جمیع خلقت حیوان، چرند پرند، جنات، ملائکہ وغیرہ سب شامل ہیں)۔

مُوࣿمِنُ کا نقش پیش خدمت ہے۔ گو کہ اسکا آئیڈیا تو بزرگوں کی طرف سے ہی ملا ہے لیکن ہم اس میں مزید اضافہ کرینگے جو کہ صرف اور صرف ہماری ذات سے منسوب ہو گا اور اس طرح کر کے نہ صرف ہم گزشتہ عہد کے بزرگ عاملین کو خراج تحسین پیش کرینگے بلکہ اس کار خیر میں اپنا روحانی حصہ بھی ڈالیں گے تاکہ علم مزید بڑھے اور نکھرے۔

اس نقش کو آپ نے پیلے چارٹ پیپر پر لال فوڈ کلر یا زعفرانی سیاہی سے لکھنا ہے۔ وقت مقررہ سے پہلے آپ ایک باریک پینسل اور فُٹے سے بہت ہلکی لائنز بنا کر نقش کی چاروں سائیڈز بنا لیں گے اور سارے خانے مکمل کر لینگے جو کہ لینتھ میں بالکل برابر ہونے چاہییں۔

اس نقش کو لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ وقت مقررہ پر پہلے نقش کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھیں۔ پھر نقش کی ساری لائنز کے اوپر دوبارہ اپنا زعفرانی پین یا فوڈ کلر والا پین پھیر لیں۔ اُسکے بعد ایک سے شروع کر کے ہر خانے کے نمبر کے حساب سے اُسکو پُر کر لیں۔ مثلاً پہلے خانہ نمبر ایک میں الم لکھیں پھر خانہ دو میں باسط لکھیے پھر خانہ تین میں جلیل لکھیں اور اسی طرح نمبر وائز سارے خانے پر کر دیں۔ اب نقش کے اوپر اور بسم للہ سے نیچے دس مرتبہ م لکھ دیجیے۔ پھر دائیں طرف دس م لکھیے۔ پھر نیچے دس م لکھیے اور آخر میں بائیں طرف دس م لکھ دیجیے۔

اب آیت مبارکہ الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ کو اکہتر ۷۱ مرتبہ پڑھ کر اپنے نقش پر دم کر دیجیے۔ اب اس نقش کو پلٹیے اور اسکی بیک سائیڈ پر یہ طلسم لکھیے۔ (طلسم وڈیو میں ہے)

پھر طلسم کے اردگرد دوبارہ چالیس میم لکھیے سیدھی گھڑی کی سمت میں۔ صفر کے نیچے سے م لکھنا شروع کرنا ہے۔ چالیس میم لکھنے کے بعد پھر اعوذ باللہ سے شروع کر کے عزیمت بھی لکھ دیجیے سیدھی گھڑی کی سمت میں۔ زیر زبر ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ جب طلسم مکمل ہو جائے تو آیت مبارکہ

اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ

چھیاسٹھ مرتبہ پڑھ کر اپنے طلسم پر دم کر دیں۔ یہ جو طلسم ہے یہی شمع کے اعداد بھی ہیں۔ اس سارے نقش و طلسم لکھنے کے عمل میں اگر یہ شمع (طلسم کے اعداد والی) بھی جلا لی جائے تو بہت اچھا ہو جائے۔ اس نقش و طلسم کو بنانے میں آپکا آدھا گھنٹہ چالیس منٹ لگ جائیں گے اور آپ یقیناً تھک چُکے ہونگے۔ یہ نقش بھی آپکو کچھ بھاری لگے گا۔ اگر آپکو نقش لکھنا مشکل لگے تو ہمت نہ ہاریے گا، توجہ سے لکھتے رہیے گا۔ ایک دو مرتبہ سادے کاغذ پر پینسل سے پہلے پریکٹس کر لیجیے گا۔

اب اگلے دن سے کوئی ایک وقت مقرر کر کے نقش کو اپنے سامنے رکھیے اور ۱۳۶۰ مرتبہ اَلمُوࣿمِنُ پڑھ کر نقش پر دم کر دیں۔ پھر بڑی توجہ سے دعا کو تین مرتبہ پڑھیے۔ پھر چھیاسٹھ مرتبہ آیت مبارکہ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ پڑھ کر طلسم پر دم کر دیجیے گا۔ ایسا کم از کم دس دن یا انیس دن کریں۔ اب یقین کر لیجیے کہ آپ کے پاس ایک عظیم قوت ہے۔ آپ اس نقش کو کمرے میں لٹکا بھی سکتے ہیں اور فریم کروا کر اپنے سرہانے بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنے موبائل کے بیک کور میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ نقش کے اوپر پلاسٹک کوٹنگ کروا لیجیے گا۔ نقش کو موڑنے کی ضرورت نہیں۔

جب آپکا عمل و ورد مکمل ہو جائے تو مداومت کے طور پر اسم الٰہی المومن کو روزانہ یا تو ہر نماز کے بعد ۱۳۶ مرتبہ پڑھ لیں یا کم از کم صبح شام ۱۳۶ کر لیں۔ ورد کے بعد المومن کی دعا بھی پڑھی جائے۔ جب بھی کوئی حاجت ہو تو شمع جلا کر نقش اپنے سامنے رکھ کر سات دن عمل کر لیں ایسے کہ نقش کو سامنے رکھیے یا اپنی دائیں طرف۔  آلٓمٓ ذالک الکتاب لاریب فیہ کو اکہتر مرتبہ پڑھ کر نقش پر دم کریں۔  اب المومن کی ۱۳۶ کی ایک تسبیح کیجیے اور اُسکے بعد دعا پڑھیے۔ اس طرح المومن کی سات تسبیحات کیجیے، ہر تسبیح ۱۳۶ کی اور ہر تسبیح کے بعد ایک مرتبہ دعا۔  اسکے بعد چھیاسٹھ مرتبہ ان اللہ علی کل شئ قدیر پڑھ کر اپنے طلسم پر دم کر لیجیے۔ آپکو بہت فائدہ ہو گا اور ایک عظیم قوت آپکے پاس آ جائے گی جس سے دنیا و آخرت کی نعمتیں حاصل ہو جائیں گی۔ شمع بھی ساتھ جلا لی جائے ورنہ کم از کم طلسم اپنے بائیں بازو پر لازمی لکھ لیا جائے۔ یہ یاد رکھیے کہ اگر شمع جلائیں تو شمع پر الگ سے چھیاسٹھ مرتبہ ان اللہ علی کل شئ قدیر لازمی پڑھ کر دم کریں۔ جب بھی ضرورت پڑے سات دن عمل دھرا لیں۔

ویسے تو ہر بندہ کوشش کرے کہ نقش لازمی لکھے۔ لیکن اگر کوئی بہت ہی نالائق ہو ماشااللہ تو پھر خالی طلسم لکھ لے۔ دو طلسم بھی لکھ سکتا ہے کہ ایک اپنے گھر میں لٹکایا جائے اور ایک اپنے پاس رکھ لیا جائے۔ اور صرف ایک بھی لکھ سکتا ہے۔ باقی دم ریاضت سب کچھ ایک جیسا ہی رہے گا۔

اس شمع کے نو سو موکلات ہیں جو ذاکر کے لیے متحرک ہوتے ہیں۔ اس لیول و تعداد پر کسی روحانی مخلوق کا آپکے لیے متحرک ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ ایک ریاضت جو شمع کے سردار موکل نے بتائی، (اس شمع کے ہر ۹۹ موکلات پر ایک سردار مؤکل ہے)، کہ نقش و طلسم کو سامنے رکھ کر یا دائیں طرف رکھ کر شمع جلا کر اور اعداد بازو پر لکھ کر انیسو مرتبہ روزانہ المومن کا ورد انیس دن کیا جائے۔ طریقہ کار یہ ہو گا کہ پہلے ان اللہ علی کل شئی قدیر چھیاسٹھ مرتبہ پڑھ کر شمع پر دم کر کے شمع جلائی جائے۔ پھر اکہتر مرتبہ الم والی آیت پڑھ کر دم کی جائے نقش پر ، اب انیسو مرتبہ المومن پڑھا جائے اور ہر سو مرتبہ پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ دعا پڑھی جائے۔ جب عمل مکمل ہو جائے تو آیت ان اللہ علی کل شئی قدیر چھیاسٹھ مرتبہ پڑھ کر اپنے طلسم پر دم کر لیا جائے۔ اب اپنی حاجت جو بھی ہو مانگ لیں۔ آدھے گھنٹے چالیس منٹ کا عمل ہے، کوئی مشکل نہیں۔ بفضل قھار روحانیت پوری طاقت سے آپکے کام میں جڑ جائے گی۔

اوپر میں نے جتنے بھی عمل بتائے ہیں، چاہے نقش لکھنے والا ہو یا پڑھائی کا، سب کے بعد ایک کلو چینی پر چھیاسٹھ مرتبہ ان اللہ علی کل شئ قدیر پڑھ کر دم کریں اور اسکا ثواب نقش و شمع و مومنُ کے موکلات کو ہدیہ کیجیے اور یہ چینی چیونٹیوں کو ڈال دیجیے۔ یہ صدقہ کرنا لازم ہے۔ جب بھی المومنُ کا کوئی عمل میری اس شمع کے ساتھ کریں تو یہ صدقہ لازمی دیں۔

ایک اور عمل کو شمع کی روحانیت نے بتایا۔ یہ میرے سوال پوچھنے پر بتایا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ کلمہ مقطعات قرآنی آلٓمٓ اور مُوࣿمِنُ کا ایک خاص رشتہ ہے آپس میں۔ ان دونوں کا اکھٹے ورد کرنے سے روحانی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں۔ اگر کوئی بندہ رجعت میں مبتلا ہو کسی بھی عمل کی یا اُسکو وہم ہو کہ اُسکو رجعت ہے یا کوئی جادو جنات کے اثرات ہوں تو وہ یوں کرے کہ ایک مٹی کا پیالہ لے تھوڑا بڑا اور ایک لکڑی کی تسبیح۔ اب تین سو پچاس ۳۵۰ بار آلٓمٓ ایسے پڑھے کہ تسبیح کا ایک حصہ پانی میں ڈوبا رہے، یعنی جب آپ تسبیح کے دانے گھمائیں تو کچھ دانے پانی میں ڈوبے رہیں۔ تسبیح آپکے ہاتھ میں گھومتی جائے گی یہاں تک کہ ساری تسبیح پانی میں تر ہو جائے گی۔ الم کی تعداد مکمل ہونے پر اپنے آپ پر دم کر دیں۔ اب انیسو مرتبہ المومنُ اسی طرح تسبیح پر پڑھتے جائیں اور تسبیح آپکے ہاتھ اور پانی میں گھومتی رہے۔ ہر سو مرتبہ المومنُ کے بعد اپنے آپ پر دم کر لیں۔ جب عمل مکمل ہو جائے تو تسبیح کپڑے میں لپیٹ کر اپنے سرہانے رکھ لیں اور پانی باہر پودوں کو ڈال دیں۔ اس طرح انیس دن کر لیں۔ اس عمل میں اول و آخر دس دس مرتبہ کوئی سا درود پڑھ لیں لازمی۔ انیس دنوں کے بعد تسبیح بھی زمین میں دفن کر دیں۔ اب الحمدللہ آپ پر کوئی جادو یا رجعت نہ ہو گی۔ جب محسوس کریں کہ پھر کوئی مسلہ ہے تو اسی طرح عمل کر لیں۔ تسبیح نئی لے لیں اور پیالہ بیشک پرانا ہی استعمال کر لیں۔ اس عمل میں شمع جلانے کی ضرورت نہیں۔ اس عمل کے آخری دن بھی چینی پر صدقہ کریں اوپر بتائے گئے طریقہ کار کے مطابق۔ اس مرتبہ آیت جو چینی پر پڑھی جائے گی، اُسکا ثواب مومنُ اور آلٓمٓ کے موکلات کو ہدیہ کریں۔ کبھی کبھار بندہ پر مصیبت تو کوئی نہیں ہوتی لیکن وہ اپنی روحانی ریاضت میں کہیں اٹک جاتا ہے، تو یہ عمل وہ روحانی رکاوٹ بھی دور کر دے گا اور روحانی طور پر قوت و تقویت حاصل کرنے کے لیے بھی یہ عمل خاص ہے۔ ایک مرتبہ یہ عمل پورا کرنے کے بعد اگلی ضرورت پڑنے پر یہ عمل دس دن ہی کافی ہو گا میرے خیال میں، گو کہ دوبارہ انیس دن دھرانے میں بھی کوئی پابندی نہیں۔

چینی کے علاوہ بھی المُوࣿمِنُ کا ایک صدقہ ہے۔ اب میں الم اور مومنُ کی بات نہیں کر رہا بلکہ جنرلی صرف مومن ُ کے ذاکر کے لیے ایک صدقہ کا طریقہ لکھ رہا ہوں جو ذاکر ہر مشکل ہر حاجت میں کر سکتا ہے۔ سات مختلف دالیں، سب ایک ایک کلو یا پھر سب ایک ایک پاؤ، لے کر مکس کر لیں۔ اب انیسو مرتبہ المومنُ پڑھ کر ان سب پر دم کریں، پھر چھیاسٹھ مرتبہ ان اللہ علی کل شئ قدیر پڑھ کر دم کریں۔ پھر دعا کریں اول و آخر درود شریف کہ اے اللہ اے مومنُ اے قدیرُ تو ہر چیز پر قادر ہے، میں فلاں حاجت کے لیے یہ صدقہ کر رہا ہوں، میرے اس صدقے کو قبول فرما اور میری حاجت کی تکمیل کے اسباب پیدا فرما۔ اللھم آمین۔

اب یہ دالیں سب مچھلیوں کو ڈال دیں یا پھر کسی غریب کو دے دیں۔ لیکن اگر کسی غریب کو دینی ہوں تو پھر آپس میں مکس نہ کریں۔ الگ الگ ہر دال کا پیکٹ ایک شاپر میں ڈال لیں۔ اپنی جیب کے مطابق یہ صدقہ ہر ہفتے یا ہر مہینے کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ صدقہ المومنُ کا ذاکر ہی کرے۔

اس شمع و عمل سے اگر آپ جادو کی کاٹ کرینگے تو اُسمیں آپکی مدد سردار شمخیر رحمتہ اللہ کریں گے۔ جمیع موکلین کے ساتھ ساتھ اِنکا نام لے کر بھی ثواب ہدیہ کیا جا سکتا ہے۔

کچھ یونیورس کو ماننے والے لا آف اٹریکشن کے حامی چَوَّلِیࣿن نقوش تو قرآنی لکھتے ہیں اور چارجنگ سیارگان سے کرتے ہیں رات کو کھلے آسمان تلے رکھ کے۔ اچھا چلو یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ ہم نقش کو سعد وقت میں لکھنے کے لیے کسی سیارے کی سعد ساعت کا انتخاب کریں، حالنکہ اصولا اسکے لیے بھی ہمیں سیارے کی ضرورت نہیں، لیکن یہ بات مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اگر قرآنی نقش نے چارج بھی سیارے سے ہی ہونا ہے تو پھر قرآن و اسمائے الٰہی کی طاقت کہاں گئی؟ بیشک کچھ پرانے عاملین ایسا کرتے بھی رہے ہیں لیکن عقل کا بھی کوئی مقام تو ہے۔ یاد رکھیے کہ یونیورس میں موجود چیزوں کی انرجی سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر اس انرجی کو اس قابل مان لیا جائے کہ قران و اسما کو بھی یہی انرجی چارج کرے گی، تو پھر چول چھوٹا لفظ ہے۔ میرے عقیدے و معلومات کے مطابق اس کائنات میں قران و اسما سے بڑی کوئی انرجی نہیں اور اس انرجی کو اگر چارج کرنا ہی ہے تو پھر قرآنی ذکر ہی اپنانا پڑے گا۔ جیسا کہ اس نقش کی چارجنگ آیت مبارکہ الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ کے اندر پوشیدہ ہے اور طلسم و شمع کی چارجنگ ان اللہ علی کل شئ قدیر میں پوشیدہ ہے۔ ویسے تو یہ لفظ چارچنگ بھی ایک دو نمبر لفظ ہے۔ نقش یا قران یا اسما کے اثرات بڑھانے کے لیے صدیوں سے ایک طریقہ کار اور بھی رائج ہے اور وہ ہے کلام الہی کی اپنی ہی پڑھائی۔ جتنی پڑھائی زیادہ، اللہ کے فضل سے اثرات زیادہ۔ سو ان الو کے پٹھوں لا آف اٹریکشن والے عاملین کے کائنات والے گھٹیا فلسفے اور کھلے آسمان تلے سیارگان کی چارجنگ والے طریقوں سے اجتناب کیجیے کہ یہ بے سروپا جاہلانہ باتیں اور توہین کلام الٰہی ہے۔ اب زکیُ کا تعلق زحل سے جوڑا گیا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ زکیُ کو طاقت سیارہ زحل سے ملتی ہے بلکہ درحقیقت زکیُ سیارہ زحل کی تمام منسوبات پر حکمرانی کرتا ہے۔ زکیُ سے زحل کی تسخیر ممکن ہے ناکہ زحل سے زکیُ کی۔ سو اس بنیادی فرق کو جان کر جئیں۔ شکریہ۔ مصریوں، یونانیوں، ہندوؤں کے پاس کوئی ایسا علم نہ تھا جو سیارگان سے زیادہ قوت رکھتا۔ سو وہ سیارگان کی قوتوں کو افضل مانتے ہوئے اُن سے قوت حاصل کرتے تھے۔ مسلمانوں کے پاس سیارگان سے بہتر قوت قرآن و اسما کی شکل میں موجود ہے۔ ہم چاہیں تو خالی قرآن و اسما استعمال کریں، چاہیں تو کسی سیارے کی قوت کو secondary درجہ پر رکھتے ہوئے اس سے استفادہ تو کریں لیکن ہماری پرائمری قوت قرآن و اسما ہی رہے ہر حالت میں۔

صدق اللہ العلی العظیم

واللہ اعلی و اعلم۔

               

Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment