spiritual revelations

عمل برائے حصول فتوحات و دیدار مصطفٰی

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم

انه من سلیمن و انه بسم الله الرحمن الرحیم۔

اپنے ایک حالیہ عمل کرنے اور کرانے کے دوران میں کچھ ایسے انکشافات ہوئے جسکی بنا پر یہ مضمون لکھنا پڑا۔ اس عمل کا حُکم کائنات کی سب سے معزز شخصیت کی طرف سے آیا ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ رب القھار نے رسول الله محمد کریم کو روز محشر شفاعت کا اختیار دے رکھا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ شفاعت کیا چیز ہے اور محمد کریم کے اس اختیار کی نوعیت کیا ہے۔

شفاعت کا لغوی معنی وسیلہ ہے، جبکہ عرف عام میں اس کا معنی ہے: کسی دوسرے کے لیے خیر کا سوال کرنا۔ رسول الله محمد کریم کس درجہ کی شفاعت کریں گے، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

پہلی شفاعت:

یہ سب سے عظیم شفاعت ہے ، اور یہ میدانِ محشر میں جمع تمام انسانوں کے لیے ہوگی کہ ان میں فیصلہ کیاجائے۔ لوگ اس شفاعت کے لیے پہلے دیگر انبیاء کرام آدم، نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن وہ انکار کردیں گے۔ آخرکار یہ شفاعت آپ ﷺ تک آپہنچے گی۔ اور آپﷺ اللہ تعالی کے اذن (اجازت) سے شفاعت فرمائیں گے۔

دوسری شفاعت:

اہل جنت کے متعلق ہوگی کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے۔

تیسری شفاعت:

رسول الله محمد کریم اپنے چچا ابوطالب کے لیے تخفیف (کمی) عذاب کی شفاعت فرمائیں گے، شفاعت کی یہ قسم آپﷺ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اللہ تعالی یہ خبردے چکا ہے کہ کافروں کو کسی کی شفاعت فائدہ نہیں دے گی، اور محمد کریمﷺ بھی بتاچکے ہیں کہ ان کی شفاعت صرف اہل توحید کے لیے ہوگی۔ اس لیے ابو طالب کے حق میں شفاعت آپﷺکے ساتھ خاص ہے اور وہ بھی صرف ابوطالب کے لیے۔

شفاعت کی یہ تینوں قسمیں رسول الله ﷺکے ساتھ خاص ہیں۔ اب آتے ہیں شفاعت کی دیگر اقسام کی طرف۔

چوتھی شفاعت:

اہل ایمان میں سے مستحقین جہنم کے لیے ہوگی، آپ ﷺ ان کے حق میں شفاعت کریں گے کہ انہیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے اورجو داخل کیے جاچکے ہوں گے ان کے متعلق جہنم سے نکالے جانے کی شفاعت کریں گے۔ اس شفاعت میں انبیاء اور صدیقین وغیرہ بھی آپ ﷺکے ساتھ شریک ہوں گے۔

پانچویں شفاعت:

بعض اہل جنت کے درجات کی بلندی کے لیے آپﷺکی شفاعت۔

چھٹی شفاعت:

جن لوگوں کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی ان کے حق میں آپﷺکی شفاعت کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے۔ ایک قول کے مطابق یہ لوگ اہل اعراف ہیں، جن کا ذکر سورۂ اعراف میں ہےکہ وہ جنت وجہنم کے درمیان میں ہوں گے۔

ساتویں شفاعت:

بعض مومنین کے متعلق آپﷺکی شفاعت کے انہیں بلاحساب و عذاب جنت میں داخل کیا جائے جیسا کہ سیدنا عکاشہ بن محصن کے لیے آپﷺنے دعاء فرمائی کہ یہ ان ستر ہزار افراد میں سے ہوجائے جو بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ خاص لوگ ہونگے، حدیث کے مطابق، جو صرف رب القرار ہی پر ہر معاملے میں توکل کرتے ہیں۔

بفضل قھار یہ وہ سات شفاعت ہیں جنکا اختیار الله عزوجل کی اجازت سے رسول الله محمد کریم کو حاصل ہو گا۔ ان شفاعت کے بعد جب اہل ایمان کو جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی تو جنت کا دروازہ سب سے پہلے رسول اللہﷺ کھلوائیں گے، اور جنت میں سب سے پہلے امت محمدیہ داخل ہوگی،

صحیح مسلم میں سیدنا انس رضی الله سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَسْتَفْتِحُ، فَيَقُولُ الْخَازِنُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَقُولُ: مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ: بِكَ أُمِرْتُ، لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ‘‘

’’ میں جنت کے دروازے کے پاس آؤں گا اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ کروں گا خازنِ جنت کہے گا: آپ کون ہیں؟ میں کہوں گا: میں محمد ہوں، خازن جنت کہے گا :مجھے آپ ہی کے متعلق حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولوں ‘‘

جنت میں سب سے پہلے امتِ محمدیہ داخل ہوگی جسکی دلیل یہ ہے کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ’’ وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ ‘‘، ’’ ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ‘‘۔

چونکہ عالم اسلام کی تاریخ میں میراثیوں کی کمی نہیں رہی، خاص طور پر وہ میراثی جنکا اسلام سے تو کوئی خاص تعلق نہ تھا بلکہ کوئی یہودی تھا، کوئی عیسائی تھا، کوئی مرزا جہلمی تھا، کوئی قاری ڈار تھا جس نے مسجد کے منبر سے تو کبھی کوئی بات نہ کی لیکن اپنی بکواس کے لیے فیس بُک کو منتخب کر لیا، کوئی ایک معمولی ذات کا کمپیوٹر آپریٹر، کوئی جو پہلے تو شیعہ تھا اور زندگی کے پچاس سال وہ شیعہ ازم کا پرچار کرتا رہا اور پھر ایک دن اُسکو کشف ہوا کہ اصل مذہب تو ہندو ازم ہے اور اب وہ بیچارہ فیس بُک پر منتر سکھا رہا ہے (میرے پر بھی منتر, سدرشن اور پتہ نہیں کیا کیا چلاتا رہا، گھنٹا اثر نہ ہوا)، تو اس شفاعت کے موضوع پر بھی بہت سے میراثیوں نے رقص و سرور کا قیام کیا لیکن افسوس فائدہ کوئی نہ ہوا۔ یہ وہ سو کالڈ مسلمان ہیں جنھوں نے

Enemy from within

کا کردار ادا کیا اور دین اسلام کی صفوں میں گھس کر وہ نقصان پہنچایا جو بیان سے باہر ہے۔

ایسی جماعت جو کہلائے تو مسلمان ہی لیکن احادیث کا انکار کرے اور وہ دین کے مسائل جن پر امت مسلمہ متفق ہو، اُن میں نقص نکالے، قران کو بغیر تفسیر و حدیث کے پڑھنے پر زور دے، تو ایسی جماعت کو معتزلہ کہتے ہیں۔ میں ویسے ان لوگوں کو میراثی کی کیٹیگری میں رکھتا ہوں۔ سو شفاعت پر ایک خاص قسم کا اعتراض جو ان میراثیوں نے کیا اور ساتھ قران کی آیت بھی پیش کر دی، وہ کچھ یوں ہے۔

“جو مومن گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونگے اور جو مستحق جہنم ہوچکے ہونگے، انکے لیے محمد کریم شفاعت نہ کرینگے یا الله عزوجل محمد کریم کی شفاعت قبول نہ کرینگے۔ یعنی شفاعت کی چوتھی قسم کو نہیں مانتے۔

اور دلیل کے طور پر قران کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔

فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (المدثر: 48) ’’ انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی ‘‘

ان کی اس حجت کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت کفار کے متعلق وارد ہوئی ہے، چناچہ کفار کو کسی کی شفاعت نفع نہیں دے گی، البتہ مومنوں کو شفاعت مذکورہ بالا شروط کے مطابق نفع دے گی۔ اسی لیے میں اکثر کہتا ہوں کہ میراثیو! تفسیر کے ساتھ پڑھا کرو قران تاکہ اندازہ ہو کہ کس آیت کا کیا مطلب ہے اور وہ کہاں نازل ہوئی۔

اب آتے ہیں واپس موضوع کر طرف۔ حدیث اور قرآن دونوں وحی الٰہی ہیں۔ اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ کسی ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو منتخب کرنے والا عمل تا تا تھیاہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسلام نہیں۔ آئیے شفاعت کے موضوع پر کچھ احادیث پڑھیے اور سمجھیے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں :
کسی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کسے حاصل ہوگی؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ! تمھاری حرصِ حدیث دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مجھ سے یہ حدیث تم سے پہلے کوئی نہیں پوچھے گا۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا“۔

صحیح – اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں اللہ کے نبی بتا رہے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہوگا، جو خالص دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی برحق معبود نہیں ہے اور شرک و ریاکاری جیسی چیزوں سے محفوظ رہے۔

حضرت علی رضی الله کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا۔ آخر میرا رب ندا (آواز) دے گا : محمد ﷺ کیا تو اب خوش ہوگیا ؟ میں عرض کروں گا : جی ہاں ! میرے رب میں راضی ہوں۔ (بزار ‘ طبرانی ‘ ابو نعیم)

حضرت زید بن ارقم اور کچھ تقریبا دس صحابیوں رضی الله سے حضور ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت حق ہے ‘ جس کا شفاعت پر ایمان نہ ہوگا وہ شفاعت کا مستحق بھی نہیں ہوگا ‘ ابن منیع۔

حضرت عبدالرحمن ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری شفاعت (ہر مؤمن کے لیے) مباح ہے ‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے میرے صحابہ کو گالیاں دیں۔ (ابو نعیم فی الحلیۃ)

(اسلیے میں اکثر اہل سنت کے بھیس میں رافضیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو مرضی کر لو لیکن صحابہ رضی الله کو برا بھلا نہ کہو۔ اہل بیت رضی الله سے محبت کا تقاضہ کبھی بھی صحابہ رضی الله کو گالیاں دینا نہ تھا۔ لیکن جس نے دینی ہیں اُس نے دینی ہی ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے نبی کا فرمان کافی ہے کہ تم لوگ نبی کی شفاعت سے محروم رہو گے ان شاالله)۔

میں ایک نہایت حقیر آدمی ہوں قرآن و حدیث کے علم میں۔ عملیات میں بھی میرا کوئی خاص مقام نہ ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اگر مجھے پتہ چلتی ہیں تو میں آپکے ساتھ شئیر کر لیتا ہوں۔ آج سے تین چار سال پہلے میں نے ایک عمل کروایا تھا جو مجھے میرے اُستاد نے دیا تھا۔ یہ ایک ایسا احسان عظیم تھا میرے استاد کا میرے اوپر کہ اسکی قیمت چکائی نہیں جا سکتی۔ اس عمل کے حیرت انگیز فیڈ بیک آئے تھے۔ لوگ ایک مرتبہ حیران و پریشان ہو گئے تھے کہ یہ کیسا عمل ہے۔ کیونکہ یہ جتنے بھی آجکل کے سو کالڈ شمع کے ایکسپرٹ بنے پھرتے ہیں، یہ اُس وقت کہیں نظر نہ آتے تھے اور میں پہلا بندہ تھا جس نے یہ سب کچھ پاکستان میں شروع کیا۔ چند دن پہلے وہ عمل جب دوبارہ دھرایا گیا تو اُسمیں محمد کریم کی تاکید کے ساتھ ساتھ ایک بشارت بھی دی گئی۔ عمل و بشارت پیش خدمت ہیں۔

۱۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ شَمْسِ الْمَعَارِفِ وَ بَحْرِ الْعَوَارِفِ وَ مَنْبَعِ الَْطَاءِفِ وَ اٰلِهِ وَسَلَّمْ۔ 7 مرتبہ

۲۔ یا اَللّٰہُ۔ 132 مرتبہ

۳   بسم الله الرحمن الرحیم كَتَبَ اللّـٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ قَوِىٌّ عَزِيْزٌ (21) المجادله

اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے، بے شک اللہ زور آور زبردست ہے۔

ہر مرتبہ بسم الله کے ساتھ 66 مرتبہ پوری آیت پڑھی جائے۔

۴۔ سَلٰمٌ قَولا من رب رحیم۔ سورہ یٰسٓ۔ 92 مرتبہ۔

۵۔ نَحّنُ فِیْ جَاہِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّ اللّٰه ُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ۔ 100 مرتبہ

۶۔ اسکے بعد سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر محمد کریم اور آل محمد اور جمیع اصحاب محمد کو ہدیہ کر دیجیے۔

7. پھر ایسے دعا کیجیے ، اوّل و آخر درود، کہ اے الله میری اس تلاوت کے وسیلے سے پوری دنیا میں تمام مسلمانوں کو فتح و نصرت عطا فرما اور کافروں کی سازشوں کو رد فرما اور اے الله میری اس تلاوت کے وسیلے سے میرا فلاں مقصد پورا فرما اور مجھے فتوحات نصیب فرما۔ اللھم آمین آمین آمین

عمل شروع کرنے سے پہلے یہ طلسم بائیں سے دائیں لکھنا ہے اپنے بازو پر۔ جس طرف تیر کا نشان ہے وہاں سے لکھنا شروع کرنا ہے۔ اور بازو پر تیر نہ بنا دیجیے گا۔ وہ صرف آپکو سمجھانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسی طرح شمع پر بھی یہ طلسم کسی نوک دار چیز سے لکھنا ہے۔ شمع جلا کر، جب طلسم تک آگ پہنچ جائے تو  اسکے بعد مندرجہ بالا تلاوت پوانٹ نمبر ۱ سے لے کر پوانٹ نمبر چھ تک دی گئی تعداد میں کر لیجیے۔ اور دعا پوانٹ نمبر 7 کے مطابق۔ عمل بہت آسان ہے۔ جو شمع نہ جلا سکیں وہ بازو پر طلسم لازمی لکھیں۔

یہ عمل اپنے گھر والوں اور دوستوں یاروں کو بھی دے سکتے ہیں۔ گھر میں جتنے افراد کریں گے اتنا ہی طاقت ور عمل ہو گا لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ایک بندے کا عمل کمزور ہو گا۔ یہ اجازت صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو مجھ سے اور میرے عملیات سے محبت رکھتے ہیں۔ جنکی اجازتیں میں کینسل کر چکا ہوں اور جو مجھ سے بغض رکھتے ہیں وہ اگر کسی جعلی آئی ڈی سے مجھ سے اجازت دوبارہ بھی لے لیں تو احمقوں کی جنت میں بھی رہنے پر پابندی تو نہ ہے۔ اُنکو بہرحال اجازت نہ ہے اور نہ کبھی ہو گی۔

اوپر جو زیر زبر میں نے لگائی ہے اسمیں شد کے نیچے نشان کو زیر سمجھیں اور شد کے اوپر نشان کو زبر سمجھیں۔ عورتیں مخصوص دنوں میں بھی کریں۔

یہ عمل چودہ، پندرہ، سولہ ستمبر کو تین دن ہو گا۔  اُسکے بعد ہر جمعہ کی روٹین اسکو بنا لیجیے گا۔ اگر کبھی مس ہو جائے تو کوئی بات نہیں لیکن اکثر و بیشتر اس عمل کو کرتے رہیے گا۔ اس عمل کو کرنے کے دوران ہمیں کیا محسوسات ہوئیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ اس عمل کے ملائکہ کا لباس سبز ہے اور ہر طرف سبز نور پھیل جاتا ہے۔

۲۔ اس عمل کے کرنے والے کو زیارت محمد کریم ہوتی ہے اور محمد کریم نے فرمایا کہ اس عمل کو بار بار کیا جائے۔ الحمد لله رب العلمین۔

۳۔ جمعرات کی مغرب سے لے کر جمعہ کی مغرب تک اس عمل کو کیا جائے۔ اور ہر ہفتہ اسکو دھرایا جائے۔

۴۔ اس عمل سے روحانی فیض کے ساتھ ساتھ ظاہری مسائل بھی حل ہونگے۔

۵۔ اس عمل کی پابندی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لائے گی۔

۶۔ گناہوں سے دل اُچاٹ ہو گا۔

۷۔ اس عمل کی روحانیت کا گھیرا وسیع ہونے سے اپنے دشمنوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دشمن زیر ہونگے۔

۸۔ اس عمل میں تکوینی امور کی روحانیت و اثرات شامل ہیں۔

۹۔ یہ تکوینی روحانیت بندے کے ذاتی مسائل و زندگی میں عجیب و غریب معاملات دکھائے گی اور غیبی امداد ہو گی۔

۱۰۔ رسول الله محمد کریم بے حد خوش تھے اس عمل سے۔

تلک عشرة الکاملہ

کوشش کیجیے گا کہ یہ عمل نہ چھوٹے۔ میں بھی اب اس عمل کو تاحیات کرنے کی کوشش کرونگا۔ لیکن ایک بات مجھے پہلے سمجھ نہ آئی کہ عمل تو دنیا بھر میں مسلمانوں کی فتح و نصرت کے لیے ہے تو ایک عام آدمی کو اُسکے کرنے سے کیا فائدہ ہو گا کیونکہ عمل تو دوسرے لوگوں کے لیے ہے۔ پھر میرے ذہن میں مندرجہ ذیل بات آئی۔

ام الدرادء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں مجھ سے میرے شوہر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب کوئی اپنے بھائی کے لیے غائبانے (غائبانہ) میں دعا کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں: تیرے لیے بھی اسی جیسا ہو“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1534]

اس حدیث میں ترغیب ہے کہ انسان اپنے قریبی اور بعیدی تمام عزیزوں کو بلکہ عام مسلمانوں کو بھی اپنی دعائوں میں شامل رکھا کرے تاکہ فرشتے اس کے لئے دُعا کریں۔ اور فرشتوں کی دُعا قبولیت کے لئے زیادہ مدد گار ہوگی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1534   

اور یہاں بھائی کا لفظ سے سگا بھائی نہ سمجھ لیجیے گا۔ قرآن کریم نے ایمان والوں کو بھائی سے تعبیر فرمایا ہے، ارشادِ قرآنی ہے:
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ۔‘‘                 (الحجرات:۱۰ )
ترجمہ:’’مسلمان آپس میں ایک دُوسرے کے بھائی ہیں۔‘‘

ایک اور حدیث ہے کہ،

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے داماد، حضرت صفوان بن عبد اللہ  بن صفوان فرماتے ہیں: میرا شام جاناہواتومیں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ (سے ملاقا ت کے لیےان )کے گھر گیا، وہ  تو گھر میں موجود نہیں تھے، البتہ (ان کی اہلیہ ) حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہا موجود تھیں،انہوں نے (مجھ سے) پوچھا:کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، فرمانے لگیں: پھر تو اللہ تعالی سے ہمارے لیے خیر کی دعا کردینا؛اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:مسلمان کی دعا اپنے (مسلمان ) بھائی کے لیے اس کے پیٹھ پیچھے ضرور قبول ہوتی ہے،  دعا مانگنے والے کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے، جب بھی وہ اپنے(مسلمان) بھائی کے لیےکسی خیرکی  دعا کرتا ہے تو وہ مقرر فرشتہ  اسےکہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اس جیسا ملے‘‘۔

(صحيح مسلم، كتاب الذكر)

الله آپکو کامیاب کرے۔

صدق الله العلی العظیم

والله اعلی و اعلم۔

Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment