اعوذ بالله من الشیطن الرجیم۔
بسم الله الرحمن الرحیم
بسم الله القوي
بسم الله القيوم
بسم الله القدوس
بسم الله القاهر
بسم الله القادر
بسم الله القهار
بسم الله القاضي
بسم الله القريب
بسم الله قديم الاحسان
بسم الله الرحمن الرحيم
ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ (1) بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ (2) أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۖ ذَٰلِكَ رَجْعٌ بَعِيدٌ (3) قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنْقُصُ الْأَرْضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِنْدَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ (4) بَلْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ فَهُمْ فِي أَمْرٍ مَرِيجٍ (5) أَفَلَمْ يَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ (6) وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (7) تَبْصِرَةً وَذِكْرَىٰ لِكُلِّ عَبْدٍ مُنِيبٍ وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبَارَكًا فَأَنْبَتْنَا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ (9) وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ (10) رِزْقًا لِلْعِبَادِ ۖ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا ۚ كَذَٰلِكَ الْخُرُوجُ (11) كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ (12) وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ (13) وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ (14) أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ (15) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (16) إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ (17) مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ (18) وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِيدُ (19) وَنُفِخَ فِي الصُّورِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْوَعِيدِ (20) وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ (21) لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (22) وَقَالَ قَرِينُهُ هَٰذَا مَا لَدَيَّ عَتِيدٌ (23) أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ كُلَّ كَفَّارٍ عَنِيدٍ (24) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُرِيبٍ (25) الَّذِي جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَأَلْقِيَاهُ فِي الْعَذَابِ الشَّدِيدِ (26) قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِنْ كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ (27) قَالَ لَا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ (28) مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (29) يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (30) وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ (31) هَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ (32) مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ (33) ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ (34) لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ (35) وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْنٍ هُمْ أَشَدُّ مِنْهُمْ بَطْشًا فَنَقَّبُوا فِي الْبِلَادِ هَلْ مِنْ مَحِيصٍ (36) إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ (37) وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (38) فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (39) وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ (40) وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَكَانٍ قَرِيبٍ (41) يَوْمَ يَسْمَعُونَ الصَّيْحَةَ بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُرُوجِ (42) إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَإِلَيْنَا الْمَصِيرُ (43) يَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْهُمْ سِرَاعًا ۚ ذَٰلِكَ حَشْرٌ عَلَيْنَا يَسِيرٌ (44) نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِجَبَّارٍ ۖ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيدِ (45)
صدق الله العلي العظيم
معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اکثر عیدین کی نمازوں میں اس سورت کی تلاوت فرمایا کر تے تھے۔ ایک خاتون ام ہشام بن حارثہ، جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پڑوسن تھیں، بیان کرتی ہیں کہ مجھے سورہ ق یاد ہی اس طرح ہوئی کہ جمعہ کے خطبوں میں آپ کی زبان مبارک سے اس کو سنتی تھی۔ بعض اور روایات میں آیا ہے کہ فجر کی نماز میں بھی آپ بکثرت اس کو پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نگاہ میں ایک بڑی اہم سورت تھی۔ اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بار بار اس کے مضامین پہنچانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اس اہمیت کی وجہ سے سورت بغور پڑھنے سے با آسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ پوری سورت کا موضوع آخرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب مکہ معظمہ میں اپنی دعوت کا آغاز کیا تو لوگوں کو سب سے زیادہ اچنبھا آپ کی جس بات پر ہوا وہ یہ تھی کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے اور ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔
اس کے جواب میں اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ تقریر نازل ہوئی۔ اس میں بڑے مختصر طریقے سے چھوٹے چھوٹے فقروں میں ایک طرف آخرت کے امکان اور اس کے وقوع کے دلائل دیے گئے ہیں اور دوسرے طرف لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ تم خواہ تعجب کرو، بعید از عقل سمجھو یا جھٹلاؤ، بہرحال اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ حقیقت اور قطعی اٹل حقیقت یہ ہے کہ تمہارے جسم کا ایک ایک ذرہ جو زمین میں منتشر ہوتا ہے، اس کے متعلق اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں گیا ہے اور کس حال میں کس جگہ موجود ہے۔ اللہ تعالٰی کا ایک اشارہ اس کے لیے کافی ہے اور یہ تمام منتشر ذرات پھر جمع ہوجائیں اور تم کو اسی طرح دوبارہ بنا کھڑا کیا جائے جیسے پہلے بنایا گیا تھا۔ اسی طرح تمہارا یہ خیال کہ تم یہاں شتر بے مہار بنا کر چھوڑ دیے گئے ہو اور کسی کے سامنے تمہیں جواب دہی نہیں کرنی ہے،ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی براہ راست خود بھی تمہارے ہر قول و فعل سے، بلکہ تمہارے دل میں گذرنے والے خیالات تک سے واقف ہے اس کے بعد فرشتے بھی تم میں سے ہر شخص کے ساتھ لگے ہوئے تمام حرکات سکنات کا ریکارڈ محفوظ کر رہے ہیں۔ جب وقت آئے گا تو ایک پکار پر تم بالکل اسی طرح نکل کھڑے ہوگے جس طرح بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی زمین سے نباتات کی کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اس وقت یہ غفلت کا پردہ جو آج تمہاری عقل پر پڑا ہوا ہے، تمہارے سامنے سے ہٹ جائے گا اور تم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لو گے جس کا آج انکار کر رہے ہو۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تم دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں تھے بلکہ ذمہ دار اور جواب دہ تھے۔ جزا و سزا، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ، جنہیں آج فسانۂ عجائب سمجھ رہے ہو، اس وقت یہ ساری چیزیں تمہاری مشہود حقیقتیں ہوں گی۔ حق سے عناد کی پاداش میں اسی جہنم کے اندر پھینکے جاؤ گے جسے آج عقل سے بعید سمجھتے ہو اور خدائے رحمان سے ڈر کر راہ راست کی پلٹ آنے والے تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی جنت میں جائیں گے جس کا ذکر سن کر آج تمہیں تعجب ہو رہا ہے۔
حرف ق کے مضامین ایک بار پھر شروع کر رہا ہوں اور اس سلسلے کی ابتدا سورہ ق سے کر رہا ہوں۔ اصل تو موضوع میرا اس سورہ کے عملیات ہیں لیکن میں نے سوچا کہ ابتدا میں تھوڑی سی تشریح اس سورہ مبارکہ کی کر دی جائے تاکہ اسلامی لحاظ سے بھی اہمیت اجاگر ہو۔ یہ اہمیت دل و دماغ میں ہو گی تو عملیات زیادہ اثر انگیز ہوں گے اور تاثیر بڑھے گی۔ اہلیان تجلیات سے التماس ہے کہ صرف عملیات ہی پر غور نہ فرمائیں بلکہ ایک مرتبہ سورہ کی تفصیر پر بھی غور کریں، اور ورد سے پہلے ترجمے کا بھی مطالعہ کریں۔
حرف ق جنات اور جادو کے لیے ایک ننگی تلوار کی حیثیت رکھتا ہے اور حرف ق کے عملیات میں سورہ ق کا بھی ایک بنیادی مقام و مرتبہ ہے۔ حرف ق کے عملیات کے ساتھ سورہ شریف کا ورد نہ صرف عملیات ق کو مزید قوی کرتا ہے بلکہ عامل کی روحانیت کو بھی جلا بخشتا ہے۔ عامل ہر روز تلاوت قرآن کا ثواب بھی حاصل کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے عملیات میں نہایت درجے کی اثر انگیزی مشاہدہ کرتا ہے۔
حرف ق کے عامل نے اگر یہ سورہ اپنے ورد میں شامل کرنی ہو تو اسکا طریقہ یہ ہے کہ ہر روز سورہ شریف ایک مرتبہ یا تین مرتبہ، آسانی اور سہولت کے مطابق، تلاوت کر لیا کرے۔ اور جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اس سورہ شریف کو سات مرتبہ پڑھ لیا کرے۔ اس ورد کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ عامل کو اسکے حاسدین اور دشمن خواب میں دکھلا دیے جاتے ہیں اور صرف یہی عمل ان حاسدین اور دشمنوں کی تمام سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے لیے ایک ڈھال کا کام کرے گا اور عامل ہر طرح سے محفوظ رہے گا۔ جادو، جنات کا کوئی بھی وار کبھی عامل کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ جتنا مرضی کوئی بڑا جادوگر ہو یا جناتی طاقت ہو، عامل پر غالب کبھی نہیں آئے گی اور عامل ہر حالت میں سرخ رو رہے گا۔
حرف ق کا عامل یا کوئی بھی بندہ جسکے ورد میں یہ سورہ شریف ہو وہ جادو اور آسیب کا علاج بہ آسانی کر سکتا ہے جسکے دو طریقے میں بیان کروں گا۔ اگر کوئی بندہ جادو جنات کی کارستانیوں میں پھنسا ہوا ہو تو عامل یا پھر وہ بندہ خود سمندری نمک کو ایک بالٹی پانی میں گھولے اور سات مرتبہ سورہ شریف مندرجہ بالا طریقے پر پڑھ کر پانی پر دم کرے۔ سورہ شریف ہر مرتبہ پڑھنے کے بعد دم کرے۔ ٹوٹل سات دم ہونگے۔ پھر اس پانی سے کسی کچی زمین پر یا چھت پر نہا لیا جائے جہاں پانی کی بے ادبی قطعا نہ ہو۔ سات دن روزانہ اسی طریقے سے سمندری نمک پانی میں حل کر کے اور دم کر کے غسل کیا جائے۔ سات دن میں جادو جنات کا مریض اتنا بہتر محسوس کرے گا کہ سالوں میں نہ کیا ہو گا۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو اگلے ہفتے سے ایک دن چھوڑ کر ایک دن اسی طرح پانی تیار کر کے غسل کر لے۔
سورہ ق کے بخور کا ایک طریقہ بھی بہت مرتبہ کا مجرب ہے۔ نہانے کے ساتھ ساتھ اگر یہ عمل بھی کر لیا جائے تو نور اعلی نور ہو جائے۔ سورہ شریف کے ورد کے وقت اپنے پاس پانی کے ساتھ حرمل بھی رکھے۔ ایک مرتبہ کے ورد کے بعد پانی کے ساتھ ساتھ حرمل پر بھی دم کرے۔ پانی اور حرمل پر دم کرتے وقت سانس نہ ٹوٹے یعنی ایک ہی سانس میں دم کرے۔ اس حرمل کی دھونی روزانہ مغرب کے وقت گھر میں دے۔ یہ دھونی نہ صرف اثرات کا خاتمہ کرے گی بلکہ ہر طرح کی بندش کی موت بھی ثابت ہو گی۔ کسی بھی آسیب زدہ یا بندش والی جگہ پر لگاتار یہ دھونی سات دن دی جائے۔ ان شاالله بہت فرق محسوس ہوگا۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو عمل زیادہ دن جاری رکھا جائے۔ کچھ جگہیں سات دن میں ہی کلئیر ہو جاتی ہیں اور کچھ مقامات زیادہ عرصہ لیتے ہیں سو اس سلسلے میں اپنے عقل و فہم سے کام لیں اور اگر سات دن میں کام مکمل نہ بھی ہو تو الله کے کلام پر کامل یقین رکھتے ہوئے دھونی جاری رکھی جائے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جگہ کی بندش اور آسیبی اثرات دور نہ ہوں۔ جادو جنات کے مریض کو تو ویسے بھی اپنے اردگرد کے ماحول میں یہ دھونی لازمی رکھنی چاہیے کہ اس سے شیطانی طاقتوں کے لیے ماحول شدید ناسازگار ہو جاتا ہے اور انہیں دفع ہونا ہی پڑتا ہے۔ اگر کوئی ہمت کر سکے تو پانی فجر یا صبح کے وقت تیار کر کے غسل کرے اور بخور کے لیے حرمل عصر کے بعد تیار کرے۔ اس طرح تلاوت چودہ مرتبہ ہو جائے گی۔ ثواب بھی دُگنا اور اثر بھی۔ لیکن بہرحال یہ کام وہ کرے جو سورہ شریف کا باقاعدہ قاری ہو۔ عام بندہ ایک ہی مرتبہ میں پانی اور بخور تیار کرے۔
آخری چیز جو ہر جادو جنات کے مریض کو لازمی کرنی چاہیے وہ قرآنی آیات کا لکھ کر پینا ہے اور اسکی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ اگر خود لکھیں تو ٹھیک ورنہ کسی قاری سے سورہ شریف ایک سادے کاغذ پر روحانی سیاہی سے لکھوا لیں۔ دو تین نشستوں میں بھی لکھا جا سکتا ہے۔ یہ پینتالیس آیات انیس لیڑر کی پانی کی بوتل میں گھول لیں اور وہ پانی باکثرت پئییں۔ اس پانی کا چھڑکاو اگر متاثرہ جگہ پر کیا جائے تو صرف یہی عمل بھی ہر طرح کی بندش سے خلاصہ کا سبب بن جاتا ہے۔ گھروں کے ساتھ ساتھ کاروباری جگہ پر بھی اسکا چھڑکاو بہت بہترین نتائج کا حامل ہے۔ چھڑکاو کے وقت ایک بات ذہن میں رہے کہ صرف چھینٹے مارنے ہیں اور پانی زمین پر نہ گرے تاکہ بے حرمتی کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔
اب آپ سب لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ اتنے کام کون کرے۔ تو عرض یہ ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ جادو جنات کا مریض تو ویسے ہی بے چار گی کی عمدہ مثال ہوتا ہے۔ خاص طور پر اگر کاروباری بندشیں بھی ہوں تو ایسے لوگ ایک نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں جسمیں روپے پیسے کی شدید قلت، صحت کی تباہی اور برے حال بانکے دیہاڑے ہوتے ہیں۔ ایسا بندہ نارمل زندگی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ مندرجہ بالا محنت سے نہ صرف آخرت کے لیے ایک وسیع زخیرہ قرآن مجید کی تلاوت کی صورت میں جمع ہو گا بلکہ دنیا کی بھلائیاں بھی حاصل ہونگی اور بے تحاشہ ہونگی۔
جو بندہ سات مرتبہ تلاوت نہ کر سکے وہ شروع میں تین مرتبہ کر لے اور آہستہ آہستہ تعداد سات تک لے جائے۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم