اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان
ذوالحجہ قمری سال کاآخری مہینہ ہے ،اسے ذوالحجہ اس لئے کہاجاتا ہے کہ اس میں اسلام کاایک عظیم رکن حج اداکیاجاتاہے۔یہ حرمت والے ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں الله عزوجل نے تخلیق آسمانوںو زمین کے وقت ہی سے محترم قرار دیاچنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِيْ كِتٰبِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ التوبۃ:)
ترجمہ:مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔
ان چار مہینوں کاتعین ایک متفق علیہ حدیث سےہوتا ہے، نبی کریم کا فرمان ہے:
” إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ، السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاَثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وَذُو الحِجَّةِ، وَالمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ، مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى، وَشَعْبَانَ ”
( البخاری ومسلم )
ترجمہ: بے شک زمانہ تخلیق ارض وسماوات کے دن ہی سے ایک طرح چلاآرہا ہے بارہ مہینوں کے ساتھ جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین متواتر ہیں(۱) ذوالقعدہ(۲) ذوالحجہ(۳) محرم اور ایک رجب ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ وَ لَیَالٍ عَشْرٍ یعنی مجھے فجر اور دس راتوں کی قسم ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بحوالہ بخاری فرماتے ہیں: ’’اس سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں‘‘۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ان دس دنوں سے بڑھ کر اور سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کو کوئی اور دن نہیں ہیں لہٰذا تم ان دنوں میں کثرت سے تسبیح، تحمید اور تہلیل کیا کرو‘‘۔ ( طبرانی)۔
عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ایک حدیث میں نبی کریم نے فرمایا:عمل صالح کے لئے ذوالحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک محبوب و پسندیدہ نہیں ہیں ۔صحابہ ؓنے دریافت کیا جہاد بھی نہیں ؟آپ صل الله علیہ وسلم نے فرمایا :جہاد بھی نہیں! سوائے اس شخص کے جو اپنے جان ومال کے ساتھ واپس نہ آئے ۔(بخاری )۔
ابن تیمیہ ؒنے فرمایا:ذوالحجہ کے دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے بہتر ہیں اور رمضان کی آخری دس راتیں ذوالحجہ کی دس راتوں سے افضل ہیں ۔(مجموع الفتاوی)
رمضان کے فرض روزوں کے بعدجن دنوں میں نفلی روزے رکھنے کی تاکید آئی ہے ان میں سے یہ دس دن بھی ہیں ۔ام المومنین حفصہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم چار چیزوں کو نہیں چھوڑتے تھے؛ عاشورہ کا روزہ ،ذی الحجہ کے دس دنوں کا روزہ ،ہرمہینے میں تین دن کا روزہ اور فجرسے پہلے دو رکعت (نسائی)۔
یومِ عرفہ یعنی نویں ذوالحجہ کے بارے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں اُمید کرتا ہوں کہ یومِ عرفہ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے‘‘ (صحیح مسلم) لیکن یہ روزہ حاجیوں کے لئے نہیں ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے روزے سے مراد نودن کا روزہ ہے کیونکہ عید کے دن روزہ ممنوع ہے۔
امی عائشۃ رضی اللہ عنھا محمد کریم کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں،
“عرفہ کے مقابلےمیں کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کوجہنم سے آزاد کرتاہے۔” (مسلم،حاکم)
پھر جب دسویں دن قربانی ہوتی ہے تو اسکی فضیلت کے بارے چند احادیث۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔ (سنن دار قطنی باب الذبائح، سنن کبری للبیہقی )
الله عزوجل قرآن کریم (سورة الکوثر) میں ارشاد فرماتے ہیں : فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ اس آیت میں قربانی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اور امر عموماً وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے، جیساکہ مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اپنی کتاب(احکام القرآن) میں تحریر کرتے ہیں : حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اس آیت (فَصَلِّ لِرَبِّکَ) میں جو نماز کا ذکر ہے، اس سے عید کی نماز مراد ہے اور (وَانْحَرْ) سے قربانی مراد ہے۔ مفسر قرآن شیخ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: (۱) عید کی نماز واجب ہے۔ (۲) قربانی واجب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ۔ مسند احمد، السنن الکبری ) جوسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور اس نوعیت کی سخت وعید واجب کے چھوڑنے پر ہی ہوتی ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ قربانی کرنا واجب ہے۔
لفظ ” کوثر “ کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال
(1) حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” الکوثر “ جنت میں نہر ہے، اس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں، اس میں موتی اور یاقوت جاری ہیں، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سفید ہے۔ (سنن ترمذی،امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے)
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کوثر سے مراد خیر کثیر ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر خیر کثیر آپ کو عطا کردی اور اسلام، قرآن، نبوت اور دنیا اور آخرت میں تعریف اور تحسین اور ثناء جمیل خیرات کثیرہ ہیں اور جنت کی سب نعمتیں خیر کثیر ہیں۔ (صحیح البخاری)
سورہ کوثر کا قربانی سے ایک خاص تعلق ہے۔ مجھے کسی نے فرمائش کی کہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کا کوئی وظیفہ عنایت کیجیے اور میں دو تین دن سوچتا رہا کہ کیا دوں۔ اسی اثنا میں میری ایک بہت پیاری شاگردہ اور ساتھی (کہ سارے شاگرد احسان فراموش اور حرامی نہیں ہوتے) کا مجھے میسج آیا کہ اُنکو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہوئی ہے اور انہوں علیہ السلام نے کہا ہے کہ اظہر صاحب کو بتائیے کہ جو ذوالحجہ کے پہلے دس دن سورہ کوثر پڑھے گا، اسکے باطنی جسم کو حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ یہ سن کر میں حیران بھی ہوا اور خوش بھی بہت ہوا اور پھر یہ مضمون ترتیب دیا اور سورہ کوثر کا ورد ایک بہت پرانے عملیاتی اصول کے مطابق ترتیب دیا جسکے مندرجہ ذیل فوائد ہونگے۔
ذاکر کے باطنی جسم کو حوض کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔
مندرجہ بالا دوسری حدیث کے مطابق ذاکر کو خیر کثیر عطا ہو گی جسمیں دنیا اور آخرت کی تمام نعمتیں شامل ہیں۔ کچھ لوگ ہمیشہ یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم اتنا پڑھتے ہیں لیکن ہمارا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوتا حالنکہ ذکر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ رول لازمی پلے کر رہا ہوتا ہے۔ میں جتنے بھی لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے ذکر چھوڑا، وہ ذلیل ہی ہوئے پہلے کی نسبت اور زیادہ۔ اور جنہوں نے بھی ذکر جاری رکھا وہ آخر کار مشکلات پر جلد یا بدیر فاتح ہو ہی گئے۔
کوثر کی آخری آیت کے مطابق دشمن بے نام و نشان رہتا ہے۔ سورہ کوثر کے ذاکر کے دشمن ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔
تیس جون جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات پہلی ذوالحجہ کی رات ہو گی اور عمل کی رات ہو گی۔ پاکستان میں چاند نظر آئے نہ آئے ( کیونکہ یہاں تو چاند تب بھی نظر آ جاتے ہیں جب امکان ہی نہ ہو )، آپ نے عمل شروع کر دینا ہے کیونکہ حساب کی رو سے پہلی ذوالحجہ تیس جون جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات ہی ہے۔ جو شمع جلا سکیں وہ جلا لیں اور اعداد بائیں بازو پر لکھ کر تین راتیں ۹۹۹ مرتبہ سورہ کوثر پڑھیں۔ پڑھنے کے بعد جو چاہیں دعا کریں۔ اگلی تین راتیں 666 مرتبہ سورہ کوثر پڑھیں۔ آخری تین راتیں ۳۳۳ مرتبہ سورہ کوثر پڑھ لیجیے۔ جو شمع نہ جلا سکیں وہ بغیر شمع کر لیں۔ کوشش کریں جگہ اور وقت ایک ہی ہو۔ مجبوری میں اگر رات کو ورد مس ہو جائے تو دن کو کر لیں۔ لیکن جگہ وہی ہو۔ نو دن کا عمل ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ نو دنوں تک 369 مرتبہ روزانہ پڑھ لیں۔
کچھ لوگ ابھی میرے اور عملیات میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہونگے جو کہ زیادہ پڑھائی نہیں کر سکتے۔ ان سب لوگوں سے گزارش ہے کہ چونکہ سورہ کوثر قرآن مجید کی ۱۰۸ نمبر سورہ ہے، اسلیے ایسے تمام لوگ پورے نو دن ہر روز سورہ کو صرف ۱۰۸ مرتبہ ہی پڑھ لیں۔ قرآن مجید کی سورہ کو انکے نمبر کے مطابق پڑھنا بھی عجیب و غریب خاصیت رکھتا ہے اور یہ بات بھی آپ نے پہلی مرتبہ ہی سنی ہو گی۔ اس عمل کو مس نہیں کرنا۔ خواتین حیض کی حالت میں بھی موبائل سے دیکھ کر یا زبانی یہ عمل ضرور کریں، چاہے اصل تعداد کے مطابق چاہے ١٠٨ کے مطابق۔
عمل کا طلسم لکھ کر ایک گلے میں ڈال لیجیے نو دن کے لیے یا پھر بوقت ورد اپنے سر پر رکھ لیں جیسے کہ مرد حضرات اپنی ٹوپی میں اور خواتین اپنے ڈوپٹے کے ساتھ سی سکتی ہیں اور بوقت عمل وہ ڈوپٹہ سر پر لیں۔ ایک طلسم لکھ کر پانی میں گھول لیجیے گا اور تین دن تک پیجیے گا۔ ہر تین دن بعد نیا لکھ لیں۔ نو دن کے عمل کے بعد چاہیں تو وہ سر والا نقش اپنے پاس ہی رکھیں، ورنہ اسکو بھی کھول کر پانی میں گھول کر پی لیں۔ طلسم لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اعداد بائیں سے دائیں لکھیں اور اُسکے بعد نیچے والی عزیمت۔
ایک بات ذہن میں رکھیے گا۔ الله عزوجل ہم سے ناراض ہیں۔ جب الله عزوجل کسی قوم سے ناراض ہوتے ہیں تو اسکی بارشیں روک دیتے ہیں، جیسا کہ ہماری رکی ہوئی ہیں۔ جب الله عزوجل ناراض ہوتے ہیں تو برے حکمران اُس قوم کے اوپر مسلط کر دیے جاتے ہیں جیسا کہ یہ امپورٹڈ حکومت اور نیوٹرلز ہمارے اوپر مسلط ہو گئے۔ سو ہر روز کے عمل کے بعد ان ظالم حکمرانوں سے نجات کی دعا ضرور کیجیے گا اور نفع بخش بارشوں کے لیے بھی۔ جو اس بات پر مجھ سے اتفاق نہ کرتا ہو، اُسکو اس عمل کی اجازت نہیں۔ اس عمل کو سب گھر والے بھی کر سکتے ہیں۔ باقی بھی دوست احباب کو آپ لوگ یہ عمل دے سکتے ہیں۔ کوشش کیجیے گا کہ آپ کے حلقہ احباب کے اندر زیادہ سے زیادہ لوگ اس عمل کو کریں۔ شمع کے ساتھ یا اُسکے بغیر بھی۔
یہ عمل نو دن کے اندر اندر آپکی سب بندشیں توڑ دے گا۔ امید واثق ہے کہ پاکستان پر الله عزوجل اس عمل و سورہ کی برکت و وسیلے سے رحم کریں گے اور ہمیں ہمارے ملک سمیت بچا لیں گے۔
شمع کے اعداد یہ ہیں ، ۲۳٦٨٦٩٦٢٢٤٨٨٩٤٤۔ ان اعداد کو بوقت عمل بائیں بازو پر بھی کسی بھی رنگ کے پین یا مارکر سے لکھا جائے گا۔
پینے والے طلسم اور سر پر یا گلے میں پہننے والے طلسم کے بھی اعداد یہی ہیں البتہ نیچے لکھنے والی دعا شام تک پوسٹ کرونگا۔ عمل کے دوران دعا کا ورد بھی تین مرتبہ کسی نماز کے بعد یا ہر نماز کے بعد بہتر رہے گا۔ یہ شمع اسی دعا سے بنائی گئی ہے۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم۔

Please follow and like us: