اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان
میری معوذتین (فلق و ناس) کی ایک پوسٹ پر مندرجہ ذیل کمنٹس کیے گئے ہیں جنکے جواب میں یہ پوسٹ لکھی گئی ہے۔ یہ ایک اصلاحی و علمی پوسٹ ہے، اسلیے طنزیہ کمنٹس ، سوال کرنے والے کے حوالے سے، نہ کیجیے گا ورنہ اصلاح کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے
باقی اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیجیے گا
نبی کریم پر جادو کی حقیقت ، قسط اوّل
علامہ البانی رحمہ اللہ نزولِ معوذتین اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیے جانے کے متعلق سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث اس طرح نقل فرماتے ہیں:
’’ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے مطمئن تھے۔ اس نے (آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کرنے کے لیے) رسی میں گرہیں ڈالیں اور اس عمل کو ایک انصاری آدمی کے کنویں میں رکھ دیا۔ چناں چہ اس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ دنوں تک بیمار رہے، [سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق چھ مہینے تک بیمار رہے] آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عیادت کے لیے دو فرشتے آئے، ان میں سے ایک آپ کے سر کے پاس اور دوسرا پیروں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ انھیں کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: فلاں (یہودی) آپ کے پاس آتا تھا، اس نے آپ کے لیے رسی میں گرہیں لگائی ہیں اور اس عمل کو فلاں انصاری کے کنوئیں میں رکھ دیا ہے، لہٰذا اگر آپ اس کنویں کے پاس کسی آدمی کو بھیجیں اور وہ گرہ کو نکال لے تو کنویں کے پانی کو زرد پائے گا۔ پھر جبرئیل (علیہ السلام) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس معوذتین لے کر تشریف لائے اور کہا: یہودیوں کے ایک آدمی نے آپ پر جادو کیا ہے اور جادو کا عمل فلاں کنویں میں ہے۔ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےایک آدمی [ایک روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ] کو بھیجا تو انھوں نے دیکھا کہ پانی زرد ہو چکا تھا۔ پھر انھوں نے سحر زدہ رسی نکال لی اور واپس آگئے۔ پھر (جبرئیل علیہ السلام) نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ ایک آیت پڑھ کر ایک گرہ کھولتے جائیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک گرہ کھولی ، پھر ایک ایک آیت پڑھ کر گرہیں کھولنے لگے، جوں جوں گرہیں کھلتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی وجہ سے تخفیف محسوس فرماتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحت یاب ہوگئے، اور ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسے کھڑے ہوئے گویا کہ آپ کو بندھن سے آزاد کردیا گیا ہو۔ اور وہ یہودی اس حادثے کے بعد بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتا تھا مگر آپ نے اس کے سامنے کسی چیز کا ذکر نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی سرزنش کی یہاں تک کہ وہ مرگیا‘‘۔ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ج:۶ ص: ۶۱۶ و بعدہ رقم الحدیث:۲۷۶۱]
نزولِ معوذتین سے متعلق سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں یہ بات آچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اس کا اثر بھی ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ان کے علاوہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایتیں آئی ہیں، چناں چہ ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں:
ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمجھتے تھے کہ ازواجِ مطہرات کے پاس ہو آئے ہیں لیکن ان کے پاس جاتے بھی نہ تھے۔ [سفیان رحمہ اللہ کہتے ہیں: جب یہ حالت ہو تو جادو کا سخت اثر ہے۔] ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمانے لگے: اے عائشہ! کیا تمھیں معلوم ہے کہ میں اپنے رب سے جو معلوم کرنا چاہتا تھا اللہ نے مجھے اس کی خبر دے دی ہے۔ میرے پاس دو شخص آئے، ان میں سے ایک میرے سرہانے بیٹھا اور ایک میرے پیر کی طرف بیٹھا، سرہانے والے نے دوسرے سے پوچھا: ان کو کیا ہو گیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ کہا: لبید بن عاصم نے [جو یہود کے حلیف قبیلۂ بنو زُریق کا ایک منافق شخص تھا۔] پوچھا: کس چیز میں؟ کہا: سر کے بالوں اور کنگھی میں۔ پوچھا: کہاں رکھا ہے؟ کہا: نر کھجور کے درخت کی چھال کے اندر پتھر کے چٹان تلے ذروان کے کنویں میں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس میں سے اسے نکلوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہی کنواں ہے۔ اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی، اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ چیزیں نکلوائیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: آپ نے اس کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دے دی ہے، اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا۔‘‘ [بخاری کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر؟ رقم الحدیث: ۵۷۶۶، مسلم کتاب السلام باب السحر رقم الحدیث: ۲۱۸۹]
یہ متفق علیہ حدیث دلیل قاطع اور برہانِ عظیم ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو ہواتھا، واضح رہے کہ جادو ایک مرض ہے ، دیگر امراض کی طرح یہ بھی انبیاء کو لاحق ہوسکتا تھا، قرآن و حدیث میں کہیں یہ ذکر نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر جادو نہیں ہوسکتا۔ یہ حدیث بالاجماع “صحیح” ہے ،
اب مختلف بزرگان دین کے خیالات اس بارے پڑھ لیجیے
علامہ ابن القيم رحمہ اللہ قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جادو ایک بیماری ہے اور اس کا تعلق ان بیماریوں سے ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مبتلا ہونا قابلِ تعجب نہیں۔ جس طرح دوسری بیماریاں آپ کو لاحق ہوتی تھیں ویسے جادو بھی آپ پر اثر کرتا تھا، اس سے مرتبہ نبوت میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوتا۔ اور آپ کا یہ خیال گزرنا کہ آپ نے یہ کام کیا حالاں کہ آپ سے وہ عمل سرزد نہ ہوتا تھا، اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ کی خبرِ نبوت کی صداقت میں بھی کسی طرح کی آمیزش ممکن ہے۔ کیوں کہ اس کی صداقت پر واضح دلائل شاہد ہیں اور آپ کی عصمت پر اجماع امت موجود ہے۔ یہ صورتِ سحر تو آپ کے دنیاوی معاملات میں پیش آئی جس کے لیے آپ کی بعثت نہ تھی اور نہ آپ کی برتری ان دنیاوی معاملات پر مبنی تھی۔ دنیاوی معاملات میں تو دوسرے انسانوں کی طرح آپ پر بھی اُفتاد آجاتی تھی۔ پھر اگر دنیاوی معاملات آپ کو ایسی صورت میں پیش کرنے کی جو حقیقت ہے اس کے برعکس آپ کا سوچنا اور خیال کرنا کچھ بعید نہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی آپ پر حقیقت آئینہ ہو جاتی تھی۔‘‘ [طب نبوی ص: 196]
حافظ ابنِ حجر ؒ مہلب سے ذکر کرتے ہیں:
ترجمہ۔‘‘نبی کریم ﷺ کا شیطانوں سے محفوظ ہونا ان کے آپ ﷺ کے بارے میں بری تدبیر کے ارادے کی نفی نہیں کرتا، صحیح بخاری ہی میں یہ بات بھی گزری ہے کہ ایک شیطان نے آپ ﷺ کی نماز خراب کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس پر قدرت دے دی، اسی طرح جادو کا معاملہ ہے، آپ ﷺ نے اس سے کوئی ایسا نقصان نہیں اٹھایا جو تبلیغ دین کے متعلق ہو، بلکہ آپ نے اس سے ویسی ہی تکلیف اٹھائی ہے، جیسی باقی امراض سے آپ کو ہو جاتی تھی، مثلاً بول چال سے عاجز آنا، بعض کاموں سے رک جانا یا عارضی طور پر کوئی خیال آ جانا، اللہ تعالیٰ آپ ﷺ سے شیاطین کی تدبیر باطل وزائل کر دیتا تھا۔ ”(فتح الباری: ۱۰؍۲۲۷)
امام فخر الدین محمد بن رازی متوفی 606ھ، تفسیر الکبیر میں سورۃ الفلق کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
جمہور مفسرین نے یہ کہا ہے کہ لبید بن اعصم یہودی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گیارہ گرہوں میں جادو کیا تھا اور اس دھاگے کو ذروان نامی کنویں کی تہہ میں ایک پتھر کے نیچے دبا دیا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار ہو گئے اور تین دن آپ پر سخت گزرے پھر اس وجہ سے معوذتین نازل ہوئیں اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادو کی جگہ کی خبر دی، تب آپ نے حضرت علی اور حضرت طلحہ کو بھیجا اور وہ اس دھاگے کو لے کر آئے اور حضرت جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا : آپ آیت پڑھتے جائیں اور گرہ کھولتے جائیں اور جب آپ آیت پڑھنے لگے تو گرہ کھلنے لگی اور آپ کی طبیعت ٹھیک ہوتی گئی۔
لہذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہودی نے جادو کیا جس کے تھوڑے تھوڑے اثرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت مبارکہ پر ہوئے تو اللہ تعالی نے معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) نازل کیں۔ جن کے ذریعے اس اثر کو زائل کر دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کی جانے والی حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر موجود ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام احمد بن حنبل، امام حمیدی، امام ابن ابی شیبہ اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ محدثین رحمہم اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان کیا ہے، علاوہ ازیں امام مسلم، امام ابن ماجہ، امام نسائی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ، علامہ طحاوی، امام طبرانی، امام بیہقی، علامہ ابن سعد، امام طبری اور علامہ بغوی رحمہم اللہ وغیرہم نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں سحرِ نبوی والی حدیث کو بیان کر رکھا ہے۔
اکثر و بیشتر منکرینِ حدیث کی یہ عادت ہے کہ وہ من مانی طور پر جس حدیث کو انکار کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں یہ راگ الاپنے لگتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے اس لیے اس سے استدلال درست نہیں ہے خواہ وہ روایت معیارِ صحت کے اعلیٰ درجے ہی پر کیوں نہ ہو۔ حالاں کہ یہ نظریہ غلط اور سراسر گمراہی کا باعث ہے، اور یہ اسلام میں دخیل غیر اسلامی نظریہ ہے، سلفِ صالحین محدثین اور علمائے اہلِ سنت میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین کے بیشتر مسائل و احکام اور بہت سے عقائد کی بنیاد صحیح اخبار آحاد ہی پر ہے۔ محدثین رحمہم اللہ اسی بات کے قائل ہیں کہ صحیح اخبارِ آحاد حجت ہیں اور عقائد میں بھی ان سے استدلال کرنا واجب ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کی جانے والی احادیث کا یہ کہہ کر انکار کرنا کہ یہ متواتر نہیں ہیں بلکہ اخبار آحاد میں سے ہیں، درست نہیں ہے۔ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جادو کا اثر ہونا یا نہ ہونا کوئی اعتقادی مسئلہ بھی نہیں ہے یہ محض ایک بیماری ہے جو دیگر عوارض کی طرح آپ کو لاحق ہوئی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے شفایاب ہو گئے۔
دارالعلوم دیو بند کا فتوہ
سحر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو خواہ معنوی کوئی سبب ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو جیسے جنات وشیاطین وغیرہ کا اثر۔ پس ان چیزوں کے اثر سے حضراتِ انبیائے کرام بھی متأثر ہوسکتے ہیں جیسے ظاہر اسباب کا اثر ان پر ظاہر ہوتا۔ اس میں ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے کو دخل نہیں؛ بلکہ اسباب کی تاثیر کا دخل ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے اثر کا ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، بخاری شریف ۲/۸۵۸، حدیث ۵۷۶۶میں روایت موجود ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لبید یہودی اور اس کی بیوی نے جادو کردیا تھا اس کے بعد آپ کو ایسا لگنے لگا تھا کہ آپ کسی کام کو کرچکے ہیں جب کہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک روز آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی اس پر سورة الناس اور سورة الفلق نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سحر کا موقعہ بھی معلوم کرادیا گیا تھا، چنانچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں ایک تانت کا ٹکڑا بھی نکلا جن میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں حضرت جبرئیل علیہ السلام سورتیں پڑھنے لگے ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھلنے لگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر شفایاب ہوگئے ۔
دیو بندیوں کے ‘‘ مفتی اعظم ” محمد شفیع دیوبندی کراچوی صاحب لکھتے ہیں: ‘‘ کسی نبی یا پیغمبر پرجادو کا اثر ہو جانا ایسا ہی ممکن ہے ، جیسا کہ بیماری کا اثر ہو جاتا، اس لئے کہ انبیاء ؑ بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے، جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہو سکتا ہے، ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ بھی خاص اسباب ، طبعیہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے، اور حدیث ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پرجادو کا اثر ہو گیا تھا، آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو ‘ مسحور’ کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی ، اس کا حاصل وہ ہے جس کی طرف خلاصۃ تفسیر میں اشارہ کر دیا گیا ہے، ان کی مراد در حقیقت ‘مسحور’ کہنے سے مجنون کہنا تھا، اس کی تردید قرآن نے فرمائی ہے، اس لئے حدیث ِ سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔ ”(معارف القرآن: ۵؍۴۹۰۔۴۹۱)
عینی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ‘‘ بلا شک و شبہ اس جادو نے نبی اکرم ﷺ کو ضرر پہنچایا، لیکن وحی میں سے کوئی چیز متغیر نہیں ہوئی، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی، پس تخیل و وہم میں سے ایک چیز رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوئی ، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا، بلکہ اس کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی ، اس کو نکالنے کا بھی پتا دیا اور آپ سے اس کو ختم کیا، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا، تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کو اس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے ،
لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ پر بھی آفات آ سکتی ہیں۔ ”(عمدۃ القاری ازعینی:۱۶؍۹۸)
نیز لکھتے ہیں:
ترجمہ‘بعض ملحدین (بے دین لوگوں نے سیدہ عائشہ ؓ کی حدیث پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیسے ہو سکتا ہے، حالانکہ یہ تو کفر ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ایک عمل ہے؟ اللہ کے نبی کو اس کا نقصان کیسے پہنچ سکتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی ، فرشتوں کے ذریعے آپ کی رہنمائی کی تھی اور وحی کو شیطان سے محفوظ کیا تھا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ اعتراض فاسد اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو سورہ فلق سکھائی تھی، اس میں النفاثات کا معنی گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں ہے، جس طرح کہ جادو کرنے والا شخص کرتا ہے اس جادو کو نبی پر ممکن کہنے میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے معلوم ہو کہ وہ آپ کے ساتھ ہمیشہ لازم رہا تھا یا آپ کی ذات یا شریعت میں کوئی خلل آیا تھا، آپ کو جادو کے اثر سے اسی طرح کی تکلیف پہنچی تھی، جس طرح کی تکلیف بیمار کو بخار کی وجہ سے پہنچتی ہے، یعنی کلام کا کمزور ہونا ، خیالات کا فاسد ہونا وغیرہ پھر یہ چیز آپ سے ذائل ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادو کی تکلیف کو ختم کر دیا، اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ آپ ﷺ کی رسالت اس جادو کے اثر سے محفوظ رہی ہے ۔”(عمدۃ القاری: ۱۶؍۹۸)
مولانا مودودیؒ علی فرماتے ہیں:
رسول اللہﷺ پر جادو چل گیا تھا۔ تو جہاں تک رسول اللہﷺ پر جادو کے ذکر پر احادیث صحیحہ کی کثرت، ثبوت اور اس واقعہ کی تاریخی حیثیت کا تعلق ہے تو یہ واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور بقول مولانا مودودیؒ علی تنقید سے اس کو اگر غلط ثابت کیا جا سکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
تفہیم القرآن پیر کرم شاہ صاحب معترضین کے جواب میں فرماتے ہیں۔ان کے اعتراضات اور شکوک کے بارے میں اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کی دو حیثیتیں تھیں۔ ایک حیثیت نبوت اور دوسری حیثیت بشریت۔ عوارض بشری کا ورود ذات اقدس پر ہوتا رہتا تھا۔ بخار، درد، چوٹ کا لگنا، دندانِ مبارک کا شہید ہونا، طائف میں پنڈلیوں کا لہولہان ہوتا اور احدمیں جبین سعادت کازخمی ہونا۔ یہ سب واقعال تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں۔ یہ لوگ (معترضین) بھی ان سے انکار کی جرأت نہیں کر سکتے اور ان عوارض سے حضور کی شانِ رسالت کا کوئی پہلو اس سے متاثر نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا کہ اس جادو سے حضور کوئی آیت بھول جاتے یا الفاظ میں تقدیم وتاخیر کر دیتے یا قرآن میں اپنی طرف سے کوئی جملہ بڑھا دیتے یا ارکان نماز میں ردوبدل ہوجاتا تو اسلام کے بد خواہ اتنا شوروغل مچاتے کے الامان والحفیظ۔بطلان رسالت کے لیے یہی مہلک ہتھیار کافی تھا۔ انہیں دعوت اسلامی کو ناکام کرنے کے لیے مزید کسی ہتھیار کی ضرورت نہ رہتی۔ لیکن اس قسم کا کوئی واقعہ کسی حدیث اور تاریخ کی کتاب میں موجود نہیں۔ دشمنانِ اسلام نے آج تک جتنی کتابیں پیغمبر اسلامﷺ کے بارہ میں لکھی ہیں ان میں بھی اس قسم کا کوئی واقعہ درج نہیں۔ (ضیاء القرآن،۵ ص۷۲۵)
مولانا اشرف علی تھانویؒ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر اور علاج کو معوذتین کا شان نزول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:”حضرت جبرائیل ؑ امین سورتیں پڑھنے لگے ،ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل شفا ہوگئی۔
محدث دہلوی فرماتے ہیں:اہل سنت کا یہ مذہب ہے کہ جادو کا اثر حقیقی طور پر دنیا میں ہوتا ہے۔ فرقہ معتزلہ اس کا مخالف کیونکہ اس اثر کو خیالی بتاتے ہیں، مگر اہل سنت نے اپنے مذہب کو بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ (تفسیر احسن التفاسیر، ج۷، ص۳۳۳)۶۔۔۔
اگر آپکو اس مضمون سے کچھ پلے نہ پڑا ہو تو بس ایک دلیل ذہن میں رکھ لیجیے۔ جادو والی احادیث کو امام بخاری رحمتہ الله اور امام مسلم رحمته الله دونوں نے بخاری شریف اور مسلم شریف میں لکھا ہے اور اسکی وجہ سے اس جادو والی حدیث کو متفق علیہ کہا جاتا ہے اور حدیث کی دنیا میں متفق علیہ حدیث کا بڑا ہی مرتبہ و مقام ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں امام حدیث کا اپنی کتب میں حدیث کا لکھنے کا معیار فرق تھا اور مختلف طریقوں سے حدیث کو جانچا جاتا تھا۔ اور ان طرائق پر بھی کوئی آج تک انگلی نہیں اٹھا سکا کہ جناب امام بخاری جس طریقے سے حدیث کا معیار جانچتے تھے، اُس میں فلاں نقص تھا اور نہ ہی کوئی نقص اجتک امام مسلم کے معیار جانچ پڑتال پر اٹھایا جا سکا۔ بلکہ امام بخاری تو سب معیاروں کے بعد آخر میں حدیث لکھنے سے پہلے استخارہ بھی کیا کرتے تھے۔ ان بڑے بڑے حدیث کے اماموں نے کتنی محنت کر کے احادیث کی صحت کو جانچا اور پھر کتابوں میں لکھا اور امت مسلمہ کو ایک عظیم راہ ہدایت سے مستفیض کیا، آج افسوس کا مقام ہے کہ جسکا دل کرتا ہے اٹھ کر حدیث کا انکار کر دیتا ہے اور ضعیف اور متفق علیہ کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔
میرے اس مضمون کو شئیر کیجیے گا اپنی اپنی وال پر تاکہ زیادہ سے زیادہ سچائی اور عظمت حدیث کا بول بالا ہو۔ جو علما میری فرینڈ لسٹ میں شامل ہیں، ان سے درخواست ہے کہ مساجد کے منبر کو استعمال کیجیے اور حقیقت عوام تک پہنچائی جائے۔ ایک بھی بندہ ہماری وجہ سے راہ ہدایت پر آ گیا یا اُسکا عقیدہ درست ہو گیا تو ہماری بخشش کا سامان ہو جائے گا۔ فلق و ناس کے پڑھنے سے نہ صرف یہ کہ کلام الہی کی تلاوت ہو گی، سنت محمد کریم زندہ ہو گی، بلکہ جادو جنات حاسدین کمزور ہونگے جسکا فائدہ بہرحال خلقت خدا کو ہی ہو گا اور نقصان اس چول شیطان کو۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم۔