اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
قرآن مجید کو دنیاوی حاجت کی نیت سے پڑھنے کے طرز عمل کو آجکل کے موڈرن ثواب کے ٹھیکدار ریا کاری کی تعریف میں داخل کر دیتے ہیں اور اس کمال جاہلانہ طرز عمل کی مثال آج سے پہلے کہیں نہیں ملتی۔ کاش یہ عقل و سماعت کے اندھے ڈکشنری میں سے ریا کاری کا مفہوم پڑھ لیتے اور اسکے بارے چند احادیث کا بھی مطالعہ کر لیتے۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا، کیا جان بوجھ کر یا کہ اتنی اہلیت ہی نہ تھی، اسکا فیصلہ آپ کر لیجیے نہیں تو میں تو کسی وقت عرض کر ہی دونگا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ریاکاری یا ریا کس کو کہتے ہیں۔
’ریاء‘‘ کے لغوی معنی ’’دکھاوے‘‘ کے ہیں۔ گویا عبادت سے یہ غَرَض ہو کہ لوگ اس کی عبادت پر آگاہ ہوں تاکہ وہ ان لوگوں سے مال بٹورے یا لوگ اس کی تعریف کریں یااسے نیک آدَمی سمجھیں یا اسے عزّت وغیرہ دیں۔
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان پر(اپنی شان کے مطابق) تجلی فرما ئے گا، اس وقت ہر اُمت گھٹنوں کے بل کھڑی ہو گی۔ سب سے پہلے جن لوگوں کو بلایا جائے گا ان میں ایک قرآن کریم کا حافظ، دوسرا راہِ خدا میں مارا جانے والا شہیداور تیسرا مالدار ہو گا۔
٭…اللہ عَزَّ وَجَلَّ حافظ سے ارشاد فرمائے گا:’’کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر اُتاراہوا کلام نہیں سکھایا تھا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،اے ربّ عَزَّ وَجَلَّ ۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’پھر تُو نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’یاربّ عَزَّ وَجَلَّ ! میں دن رات اسے پڑھتا رہا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ لوگ تیرے بارے میں یہ کہیں کہ فلاں شخص قاری قرآن ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘
٭…پھرمالدار کو لایا جائے گا تواللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’کیا میں نے تجھ پر اپنی نعمتوں کو اتنا وسیع نہ کیا کہ تجھے کسی کا محتا ج نہ ہونے دیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’کیوں نہیں ،اے ربّ عَزَّ وَجَلَّ ۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو نے میرے عطا کردہ مال کا کیا کیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’میں اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا اور تیری راہ میں صدقہ کیا کرتا تھا۔‘‘ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا : ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرا مقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہاجائے کہ فلاں بہت سخی ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیا گیا۔‘‘
٭… پھر راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں مارے جانے والے کو لایا جائے گا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا : ’’تجھے کیوں قتل کیا گیا؟‘‘ وہ عرض کرے گا: ’’مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا تو میں تیری راہ میں لڑتا رہا اور بالآخر اپنی جان دے دی۔‘‘اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرمائے گا: ’’تو جھوٹا ہے ۔‘‘ اسی طرح فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ ’’تو جھوٹا ہے۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس سے ارشاد فرمائے گا: ’’تیرامقصد تو یہ تھا کہ تیرے بارے میں کہا جائےکہ فلاں بہت بہادر ہے اور وہ تجھے دنیا میں کہہ لیاگیا۔‘‘ پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب دانائے غیوب صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے ابو ہریرہ! یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق کے وہ پہلے تین افراد ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کو بھڑکایا جائے گا ۔
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے مسیح دجال کا تذکرہ کررہے تھے ،اس دوران رسول اﷲﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کیا تمہیں وہ چیز نہ بتادوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے دجال سے ( یعنی دجال کے فتنہ سے ) بھی زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲﷺ ضرور بتلائیں ، آپﷺنے ارشاد فرمایا : ’’شرک ِخفی ( یعنی پوشیدہ شرک اس کی ایک صورت ) یہ کہ آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہو ، پھر اس بناپر اپنی نمازکو مزین کردے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے ۔‘‘(ابن ماجہ)
ریا دو قسم کی ہے:
ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے-
دوسری ریا کی صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام کرتے ہوئے دکھلاوے کی نیت کرے کہ لوگ اسے یہ عمل کرتے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں- یہ پوشیدہ شرک ہے اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-
محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ چھوٹا شرک ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھوکیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ ( اور ہاں، یہاں اعمال سے مراد عملیات نہیں بلکہ اپنی کرتوتیں ہیں کیونکہ عملیات ایک عام آدمی اپنی دنیاوی حاجات کے لیے کرتا ہے ناکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے)
اب اپنے ایمان سے بتائیے کہ مندرجہ بالا احادیث یا ریاکاری کی تعریف کے بعد یہ سمجھنا کہ دنیاوی حاجت کے لیے قرآن پڑھنے کا ثواب ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا، کس قدر جاہلانہ فعل و سوچ ہے۔ آپکے اوپر ایک مشکل آئی اور آپ نے سوچا کہ اب میں قرآن و اسما پڑھ کر الله سے دعا کروں گا، تو اسمیں ریا کاری کہاں سے آ گئی؟ کیا آپ یہ عمل کسی دکھاوے یا لوگوں کے لیے کر رہے ہیں؟ کیا اپنی دنیاوی حاجت کے لیے قرآن کا انتخاب اور پڑھنا دکھاوا ہے؟ جو عمل دین دوسروں کو دکھانے کے لیے کیا جائے وہ ریا کاری ہوتی ہے۔ یہاں عقل و سوچ کی پستی اور اپنے دنیاوی فائدے کے لیے قرآن کے دنیاوی حاجت کے لیے پڑھنے کو ریا کاری سے تشبیح دے دینا درحقیقت ایک قبیح فعل ہے۔ ہم سب کو فیس چاہیے ہوتی ہے، کبھی عمل کی کبھی نقش کی اور کبھی کسی فضول لاء کی لیکن کیا اُسکے لیے ہم لوگوں کے عقائد خراب کرنا شروع ہو جائیں؟ بھول گئے ہیں ہم سب کہ ہم مسلمان پہلے اور عامل بعد میں ہیں۔ خیر مجھے تو یاد ہے۔
اپنی دنیاوی حاجت کے لیے پہلے یہ سوچنا کہ میں کوئی قرآنی عمل کرونگا گا، ابھی کیا نہیں، تو اُسکا ثواب آپکو مل جائے گا اور اگر کر لیا تو دوگنا ثواب ملے گا۔ اب یہ بات کیسے ثابت ہوئی، آئیے محمد کریم کی حدیث دیکھتے ہیں۔
’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب ل سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور بدیاں لکھ دیں اور اُنہیں واضح فرما دیا ہے۔ پس جس نے نیک کام کا ارادہ کیا اور اُسے کر نہ سکا تب بھی اللہ تعالیٰ اُس کے لئے پوری نیکی کا ثواب لکھ دیتا ہے اور اگر اُس نے ارادہ کیا اور پھر اُسے کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے دس نیکیوں سے سات سو تک اور اُس سے بھی کئی گنا زیادہ کر کے لکھ دیتا ہے اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور پھر اُسے نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اُس گناہ کے کرنے کا ارادہ کیا اور اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ اُس کے نامہ اعمال میں صرف ایک برائی لکھتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ یعنی بخاری اور مسلم دونوں میں ہے۔ خیر جو لوگ جادو کی متفق علیہ حدیث کو نہیں مانتے وہ مندرجہ بالا حدیث کو کیا مانیں گے۔ لیکن آپ لوگوں کے لیے عرض ہے کہ حدیث کی دنیا میں متفق علیہ حدیث کا کیا درجہ ہے، اگر میری تحریر سے آپکو اندازہ نہیں ہوا تو کسی بھی مسلک کے مفتی سے پوچھ لیجیے۔
دنیا میں بہت سارے ٹھیکیدار ہوتے ہیں جنمیں سے ثواب کے ٹھیکدار بھی ایک قسم ہے۔ اس قسم کے ٹھکیداروں کے ارشادات سن کر مجھے وہ جاہل لوگ یاد آ جاتے ہیں جو سارا سال کوئی صدقہ خیرات نہیں کرتے بلکہ جمع کرتے ہیں اور رمضان میں سب صدقہ خیرات کر دیتے ہیں، اس حدیث پر اپنی طرف سے عمل کرتے ہوئے کہ رمضان میں ہر صدقہ کا ثواب ستر گنا زیادہ ہوتا ہے، سو زیادہ ثواب کے لالچ میں سارا سال صدقہ روک کر رمضان میں زیادہ ثواب کے لالچ میں کرتے ہیں۔ اب بندہ ان ثواب کے حسابیوں سے پوچھے کہ صدقہ و خیرات پر پلنے والے لوگ رمضان کے علاوہ باقی سارا سال ہوا اور پانی پر گزارا کریں؟ حیرت ہوتی ہے ان ثواب و حساب کے ٹھکیداروں کے کہ الله سے حساب کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ایسے ثواب ہوتا ہے اور ایسے نہیں، الله کے کاموں میں اپنے آپ کو حصہ دار بناتے ہیں، قرآن مجید کی رجعت کرواتے ہیں، قرآن مجید فلاں موقع پر پڑھیں تو ثواب نہ ہو گا بلکہ ریاکاری ہو گی، صحیح تواتر تک پہنچی متفق علیہ جادو کی احدیث کا ایسے انکار کرتے ہیں جیسے یہ امام بخاری و مسلم رحمتہ الله سے بڑے محدث ہوں، بندہ پوچھے ذات دی کوڑھ کلی تے شہتیروں نو جپھے۔ کمال ہی ہو گئی ہے۔
ایک بات ذہن میں رکھیے گا کہ ایسے فتنہ پرست لوگ ہمیشہ بند کمروں اور گروپس سے اپنے فتنے کا آغاز کرتے ہیں۔ کچھ فالورز اکھٹے کرتے ہیں، اپنے آپکو لوگوں کا مسیحا اور اہل علم گنواتے ہیں، دین اسلام کا داعی بتاتے ہیں اور فالورز کے سادہ و کمزور دماغوں اور انکی عقیدت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بکواس تعلیمات ان پر مسلط کر دیتے ہیں اور یوں یہ فتنہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ایسے تمام فالورز سے میری گزارش کے حق و باطل کو سمجھیں اور انکے درمیان تمیز سیکھیں۔ جو شخص قرآن مجید پر ایسی تہمتیں لگاتا ہو کہ قرآن سے رجعت ہوتی ہے، قرآن دنیاوی حاجت میں پڑھنے سے اسکے موکلات غصہ میں آ جاتے ہیں، ثواب نہیں ہوتا، صحیح متفق علیہ احادیث کا انکار کرتا ہو، ایسے بندے کو رہبر و پیشوا بنا کر آپ کتنے نفلوں کا ثواب کما رہے ہیں بلکہ آپ تو ثواب کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں، مکمل ہی خسارے کا سودا ہے۔ خیر آپکی مرضی۔
اب یہ نکتہ، جو ایک دوست کی وساطت سے حاصل ہوا، بہت غور سے پڑھیے گا۔ آج ہی ایک معتبر عالمِ دین کی تفسیر سورۃ الزخرف”آیہ36نظر سے گزری
ارشادِ ربانی ہے:🌹وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ🌹اور جو شخص اعراض کرتا ہے(مُنہ موڑ لیتاہے) رحمان کے ذکر سے ہم مقرر کردیتے ہیں اس کے لئے شیطان ، پس بیشک وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے
🌹🌹قرآن مجیدسے اعراض(مُنہ موڑنے کا نتیجہ🌹
فرمایا اگر یہ لوگ نبی آخر الزمان کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے ، اور آپ کے لائے ہوئے قرآن سے بھی اعراض کرتے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہئے 🌹وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ🌹 جو شخص خدائے رحمان کے ذکر سے اعراض کرتا ہے🌹نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا🌹 تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں 🌹فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ 🌹پس وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔
لفظ ذکر کے دو معانی آتے ہیں۔ ذکر سے عام فہم مراد یاد الٰہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یاد الٰہی خصوصاََ حضراتِ انبیاء علیھم السلام کی منظورومقبول شدہ قرآنی دعائیں /اذکارِ قرآنی اور ادعیہ ماثورہ اور اسی قبیل کے دوسرے اعمال سے زیادہ مستند وجامع نہ کوئی تعویذگنڈ یاجنترمنتر ممکن ہے اور نہ نتائج کے لحاظ سے اتنا پاورفل کوئی عمل ہوسکتاہے تو اس سے اعراض کرنا (مُنہ موڑنا)ہرگز پسندیدہ امر نہیں بلکہ کھلی گمراہی ہے۔ تاہم یہاں پر سیاق وسباق کے پیش نظر ذکر سے مراد خود قرآن حکیم ہے۔ ویسے بھی ذکر قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ جو شخص قرآنی تعلیمات /اذکار سے اعراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایک شیطان مقرر کردیتا ہے جو اسے ہمیشہ بہکا کر گمراہ کرتا رہتا ہے
حضور (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر کسی بستی میں تین مسلمان رہتے ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے اسی طرح جو ذکر الٰہی خصوصاََ و عموماً اذکارِ قرآنی سے اعراض کرتا ہے۔ اس پر بھی شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور اس کو ہر وقت گمراہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ نے انسان کی آزمئاش کے لئے اس کے ساتھ فرشتوں کو بھی مقرر کر رکھا ہے اور شیاطین کو بھی۔ فرشتے اور شیطان ہر وقت آدمی سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہتے ہیں۔ اگر طبیعت میں نیکی کا جذبہ بیدار ہو تو سمجھ لو کہ یہ فرشتے کی کارروائی کا نتیجہ ہے اور اگر دل میں برائی کا وسوسہ پیدا ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ، لہٰذا اس وقت شیطان کے شر سے خدا کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔ ان شیاطین کا کام یہ ہوتا ہے🌹وَإِنَّهُمْ لَيَصُدُّونَهُمْ عَنِ السَّبِيلِ 🌹کہ وہ لوگوں کو سیدھے راستے سے روکتے ہیں۔ ہر نیکی کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور انہیں برائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔
معرضین کی غلط فہمی 🌹فرمایا اگرچہ معرضین قرآن پر شیطان مسلط ہوتا ہے وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ مگر وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ یہ ان کی فہم و فکر کی خرابی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ برائی کو نیکی تصور کرنے لگتے ہیں۔ چناچہ مشرک کافر اور بدعات میں مبتلامنافقین کا یہی حال ہے کہ وہ کام تو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کرتے ہیں مگر سمجھتے ہیں یہ ہیں کہ وہ بہت بڑے نیکی کے کام انجام دے رہے ہیں۔
اس مندرجہ بالا ذکر اور معرضین کی تشریح کے بعد آپ یہ فیصلہ کر لیجیے کہ جسکو آپ فالو کر رہے ہیں، وہ آپکو دنیاوی حاجات میں قرآنی و اسما کا ذکر کرنے کی ترغیب دے رہا ہے یا روک رہا ہے اور کیا کوئی بھی ایسا آدمی جو ذکر سے روکے، ذکر کے ثواب کو رد کرے، ریاکاری کی تعریف سے ہی ناواقف ہو، احادیث صحیح کا انکار کرے، کیا وہ ذرا بھی اسقابل ہے کہ اسکو پیشوا و اہل علم سمجھا جائے؟
یاد رکھیے گا کہ اس دنیا میں اگر آپ دین اسلام کے فالور ہیں تو آپکو ہر عمل کا ثواب یا گناہ ملے گا، یہاں تو اچھی سوچ پر بھی ثواب ملتا ہے، مطلب کہ کچھ بھی نیوٹرل نہیں۔ ہمارے ثواب کے سائنسدان ایٹم کی طرح بہت سی چیزوں کو نیوٹرل کہتے ہیں جبکہ اسکے برعکس اسلام میں کچھ بھی نیوٹرل نہیں، یا جزا ہے یا سزا ہے۔ دین پر چلیں گے تو سیکس کا بھی ثواب ہے اور نہیں چلیں گے تو دکھاوے کی ستر سال کی نماز بھی قیامت کے دن منہ پر ماری جائے گی۔ یہ ثواب والے سائنسدان اگر سائنس کے ساتھ ساتھ تھوڑا دین بھی پڑھ لیتے تو آج ثواب نہ ملنے والی بونگیاں نہ مار رہے ہوتے۔
کل کسی نے مجھے کہا فقیر کی بددعا سے ڈرو۔ اچھا ہم تو بچپن سے دین میں مسلمان و مومن پڑھتے آئے ہیں سو پتہ نہیں یہ فقیر کیا بلا ہے اور پتا نہیں اسکی بددعا کتنی طاقتور ہو۔ ایک مرتبہ تو ہم ڈر گئے۔ بہت ہی زیادہ ڈر گئے۔ پھر سوچا پتہ کرتے ہیں کہ فقیر کہتے کس کو ہیں۔ کسی سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ تصوف ایک اصطلاح کچھ لوگوں نے بنائی جسمیں لفظ فقیر کا استعمال ہوا لیکن درحقیقت تصوف کے اندر سب کچھ اسلامی ہی ہوتا ہے اور فقیر اُس بندے کو کہتے ہیں جو الله کی راہ میں اپنی تمام خواہشات کو ختم کر دے یعنی نفس کو مار دے۔
اب آتے ہیں ہمارے معاشرے کے ایک کریکٹر خواجہ سرا کی طرف۔ ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا مظلوم ہیں کیونکہ ہر کوئی ان پر طنز کرتا ہے اور کوئی خاص عزت نہیں دیتا۔ لیکن بدنصیبی سے یہ خواجہ سرا کچھ اپنی حرکتوں کی وجہ سے بھی بدنام ہیں۔ لکھنے والی بات نہیں لیکن لکھے بغیر چارا نہیں۔ سو دوسو روپے میں جو غیر شرعی حرکات (سیکس وغیرہ) ان سے کروانا چاہو یہ کر دیتے ہیں۔ جادو میں بھی یہ کافی آگے ہیں۔ اس معاملے میں میرا واسطہ ایک خواجہ سرا سے پڑا جو کہ کافی بڑا جادوگر تھا۔ ایک دوست کی وساطت سے اُس سے ملاقات ہوئی اُسکے گھر۔ دوست کی والدہ نے اُس خواجہ سرا کو بلا رکھا تھا۔ بیٹھک میں سب بیٹھے تھے، میں باہر سے اندر آیا تو سب سے ہاتھ ملایا لیکن اُس بھاری بھرکم خواجہ سرا اور اُسکے ساتھ دو اسکے چمچوں سے نہ ملایا۔ اُس نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور مجھے کہا،”جوگن سے بھی ہاتھ ملا لو خوبصورت لونڈے۔ “
مجھے اچھا تو نہ لگا لیکن میں نے اُس سے ہاتھ ملا لیا۔ اب جونہی میں نے ہاتھ ملایا اُس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور اُسکی گرپ ایسی تھی جیسے لوہے کی اور آگ کی طرح گرم۔اچھا مجھے شدید نفرت ہے اس بندے سے جو ہاتھ ملاتے ہوئے اگلے کی انگلیاں دبا دے۔ کیونکہ میں ہاتھ ڈھیلا ملاتا ہوں اور مجھے مردانگی ثابت کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ اُس نے میرا ہاتھ اتنی زور سے دبایا کہ میری انگلیاں شل ہو گئیں، درد کی ایک لہر اٹھی اور ایک سکینڈ کے اندر اندر مجھے چکر آ گیا۔ الحمدلله ایک چائنیز استاد سے کنگفو سیکھنے کی وجہ سے میں اپنا ہاتھ کسی سے بھی چھڑا سکتا ہوں۔ اگلے سیکنڈ میں نے ایک داو سے فورا ہاتھ چھڑایا اور تیسرے یا چوتھے سکینڈ اُس کے منہ پر ایسا زناٹے دار تھپڑ مارا کہ کھسرا جی کرسی کے اوپر سے شیشے کے ٹیبل پر گرے اور ٹیبل چکنا چور۔ مجھے ایسا لگا کہ اسکو تھپڑ کسی نے مجھ سے لگوایا ہے، ورنہ میرے اندر جان تو تھی لیکن اتنی نہ تھی۔ اب مجھے بددعائیں اور لعنتیں شروع ہو گئیں باقی دو کھسروں سے۔ خیر انھوں نے اپنی جوگن کو اٹھایا اور کرسی پر بٹھایا جسکے ہونٹ پھٹ چکے تھے اور گال ایسا بلیو ہوا کہ فرق حیرت سے میرے منہ سے نکلا کہ اسکو کیا ہوا۔ اب میں کبھی اپنا ہاتھ دیکھوں اور کبھی اُسکا منہ۔ قصہ مختصر جوگن نے اپنے ساتھیوں کو منع کیا اور کہا کہ اسکو کوئی علم آتا ہے، مجھے یہاں سے لے چلو۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ خواجہ سرا علاقے میں بہت مقبول و بچنا تھی۔ ہاتھ ملا کر اگلے کا علم باندھ دیتی تھی۔ کئی سالوں سے دوست کی والدہ کو بلیک میل کر رہی تھی۔ تھپڑ کے بعد پھر کبھی واپس اُس گھر نہ آئی۔
اسکے برعکس ایک خواجہ سرا سے میری ملاقات ہوئی جو موئنث تھی اور پانچ وقت کی نمازی تھی۔ میں نے خود اُس سے ہاتھ ملانا چاہا تو اُس نے مجھ سے ہاتھ نہ ملایا۔ پھر معافی مانگنے لگی اور کہنے لگی میں بہت دور سے آپ سے ملنے آئی ہوں، خواجہ سرا ہوں، اور ہاتھ کسی مرد سے نہیں ملاتی اور آپ سے بھی اسلیے نہیں ملایا کہ کہیں کوئی نفسانی خواہش نہ بیدار ہو جائے۔ مجھے کہنے لگی کہ مجھے کوئی الله کا عمل دیجیے۔ میں نے اُسے الله الرحمن الرحیم کا ایک خاص طریقہ زکوۃ بتایا اور میری آخری معلومات کے مطابق وہ تقریباً نو لاکھ کا ورد مکمل کر چکی ہے۔ اسکو اپنے آگے پیچھے پروں والے لوگ نظر آتے ہیں جو بس سر جھکائے رہتے ہیں ہر وقت اور اُسکے ذکر کے ساتھ آواز ملا کر ذکر کرتے ہیں۔
اب یہ دو انتہائیں میں نے آپکے سامنے پیش کر دیں۔ مورل آف دا سٹوری یہ ہے کہ ایک فیس بکی سو کالڈ فقیر ساری ساری رات عورتوں کے ان باکس میں گزارتا ہو اور صبح اٹھ کر اپنی بددعا سے ڈراتا ہو تو مجھے وہ خواجہ سرا یاد آ جاتے ہیں جو سارا دن اور پوری رات تو غیر شرعی کاموں میں گزارتے ہیں لیکن بددعائیں ایسے دیتے ہیں جیسے کہ دعا بددعا انکے در کی میراث ہو۔
آئیے ان سو کالڈ لاز اور اعداد کے فضول ورد کی بکواس سے باہر نکلیں اور مسلمان و مومن کا یونیورسل کلیہ یاد کر لیں۔ اور یہ کلیہ ہے ذکر۔ بندہ مومن اپنی دنیاوی حاجات ہوں یا آخروی، کسی معاملے میں بھی ذکر کو نہیں چھوڑتا۔ کیونکہ بندہ کے ذکر کو ایک حدیث کے مطابق جہاد سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے۔ اب ذکر کے نتیجے میں آپکو ثواب ملا کہ نہیں، اسکا فیصلہ رب القھار کی ذات کرے گی ناکہ عورتوں کے ان باکس میں دن و رات گزارنے والے فیس بکی فقیر۔ ہر وہ چیز جو آپکو قرآن و اسما سے دور کر دے، سوائے ایک نحوست کے اور کچھ نہیں۔ اپنی دنیاوی حاجت میں الله کا ذکر کرنا درحقیقت الله اور اُسکے کلام پر ہی توکل ہے، اور اس بات کا اظہار ہے کہ آپ اپنی حاجات الله سے ہی مانگتے ہیں اور کلام الہی ہی کو اسقابل سمجھتے ہیں کہ وہ آپلکی حاجت پوری کر سکے اور اس توکل و ایمان کا صلہ آپکو لازمی ملے گا۔ یہ آپ لوگوں سے اظہر حسین صادق کی زبان ہے۔ جسکا جواب دہ میں دنیا میں تو کسی نام نہاد فقیر کو نہیں لیکن روز محشر اپنے رب القھار کو ضرور ہونگا۔
وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرُ ط وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَo
(العنکبوت، 29 : 45)
’’اور واقعی اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اللہ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہوo‘‘
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًاo وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًاo
(الأحزاب، 33 : 41)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کروo اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کروo‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ اللہ کہنے والے کسی شخص پر قیامت نہ آئے گی (یعنی جب قیامت آئے گی تو دنیا میں کوئی بھی اللہ اللہ کرنے والا نہ ہو گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت برپا ہو گی، جب دنیا میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ رہے گا۔‘‘ ان دونوں روایات کو امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔
’حضرت ابو جوزا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ منافق تمہیں ریاکار کہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
اس مندرجہ بالا حدیث کے عین مطابق آج میرے ساتھ ذکر کرنے والوں کو ریاکاری کے سبب ثواب سے محرومیت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ الله ہمیں ایسے منافقین فقیروں کے شر سے محفوظ رکھے۔ اللھم آمین بحق ق وبحق قھار۔
آجسال ۲۰۲۲، جمعہ ۲۳ دسمبر کو عصر کی نماز ادا کر کے اس آیتکو مغرب کی آذان تک پڑھیے۔جب اذان شروع ہو جائے تو چپ کر کے آذان سنیے اور پھر مغرب کی نماز ادا کر لیجیے۔اب جس حاجت کے بارے چاہیں دعا کر لیں۔ان شاالله دعا قبول و مقبول ہو گی اور حاجت اگر دین و دنیا کے لیے بہتر ہوئی تو پوری ہو گی۔آیتیہ ہے وَلَذِکْرُ اللهِ اَکْبَرࣿ۔
(العنکبوت)
اور الله کا ذکر سب سے بڑا ہے
اس عمل کی شرط یہ ہے کہ اس مضمون کو پورے غور سے دو یا تین مرتبہ پڑھا جائے اور سمجھا جائے، چاہے عمل سے پہلے چاہے عمل کے بعد۔
لِّمَنِ ٱلْمُلْكُ ٱلْيَوْمَ ۖ
لِلَّهِ ٱلْوَٰحِدِ ٱلْقَهَّارِ
Sent from my iPad
Please follow and like us:
ماشاء اللہ، ماشاء اللہ، ماشاء اللہ
بہت ہی پیاری پوسٹ ہے۔
اتنی خوبصورتی سے اللہ کے کلام سے متعارف کروا رہے ہیں اپ، اللہ آپ کے وسیلے سے سب کو ہدایت دے۔ آمین ثم آمین
بہت شکریہ۔ اپ جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی مجھے مزید انرجی دیتی ہے
استاد محترم جناب سید اظہر حسین صادق صاحب
اسلام علیکم
مرشد کامل آپ کی آج کی پوسٹ قرآن مجید کے بارے میں بہت ہی خوبصورت اور دلکش اور معیاری پوسٹ ہے
آپ نے بہت ہی پرفیکٹ انداز میں ذکر قرآن مجید کو واضح کیا ہے اب کسی عقل کے اندھے کو اندھیرے میں بھی سورج نہ آئے تو کسی کا قصور
استاد محترم جب کسی بندے پر کوئی مصیبت آتی ہے تو دو باتیں ہوتی ہیں
نمبر ایک وہ اللّہ تعالیٰ جو کہ خالق کائنات ہے اس کے ساتھ تعلق کو
درست کرتا ہے اس کے ساتھ تعلق
جوڑنے کی کوشش کرتا ہے
قرآن مجید کی تلاوت کرتاہے اسماء اللّہ تعالیٰ کی گردان کرتا ہے آسکو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے
نمبر دو وہ اللّٰہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے اس کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہے
استاد محترم آپ نے تفصیل سے لکھا ہے کہ اللّہ رب العالمین سے جوڑے رہو ہر حال میں جوڑے رہو ثواب ملے نہ ملے اس سے تعلق استوار رکھو یہی کامیابی کا راستہ ہے
آخر میں ایک بات کہ وہ خالق کائنات ہے اس کا ذکر ہم پر فرض ہے خواہ کسی بھی صورت میں ہو
استاد محترم اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کریں اور اللّہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے
جزاکم اللہ خیرا کثیرا وینصرک اللّہ نصرا عزیزا
محمد وقار آفتاب احمد پاکپتن
جی بالکل مکمل متفق
سائیں سیدبادشاہ جناب اور جناب کے متعلقین ، محبین ومخلصین پر اللہ سائیں جناب کے نانے سائیں حضور حضرت محمد کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم اور ان کے آل واصحاب رضوان اللہ علیھم اجمعین کے صدقے تمام جہانوں میں ترقیان/فیوض وبرکات کی تابڑ توڑ بارش برساتارہے۔ شرط کے مطابق تین بار آرٹیکل انتہائی انہماک سے پڑھا اور ہرہرسطر بلکہ ہرہر لفظ سے فیوض وبرکات کے فوارے پھوٹتے محسوس ہوئے۔ جناب کی کاوشیں اللہ جل شانہ مقبول ومنظور فرمائے اور ہم جیسے ناچیزوں کو ان شاہپاروں کی قدرومنزلت ان کے شایان شان کرنے توفیق عطافرمائے، آمین بجاہ خاتم النبین۔۔۔۔ ذکراللہ کے بارے چند تفسیروں سے ماخوذ درج ذیل نکات سوہنڑے سائیں کی نظر۔۔۔۔۔اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُؕوہ “ترجمہ: جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے اطمینان پاتے ہیں۔ سن لو ! اللہ کی یاد ہی سے دل اطمینان پاتے ہیں۔”
یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ذکر الٰہی سے ان کے قلوب کو اطمینان میسر ہوا آگاہ رہو اور خوب یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دل مطمئن ہوا کرتے ہیں اور قلوب کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ یعنی ان کا دل قرآن کریم سے مطمئن ہے اور قرآنی معجزات کے بعد بلاوجہ کسی اور معجزے کی فرمائش نہیں کرتے پھرتے بلکہ ایمان لانے کے لئے قرآن کریم کو کافی نشان سمجھتے ہیں تمام اذکارخداوندی برحق ہیں۔ جبکہ سب سے اہم اور سب سے بڑا ذکر قرآن کریم بذاتِ خود ہے۔
اللہ کے ذکر کی فضیلت اور اس کی بڑائی تشریح : تمام دنیا کی نعمتیں ایک طرف اور اللہ کی یاد اس کا کلام ایک طرف۔ قرآن پاک کی جہاں اور بہت سی فضیلتیں اور برکتیں ہیں وہاں ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ جہاں دنیا کی کوئی چیز دل کو سکون نہ دے سکے وہاں ذکر الٰہی سکون دیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع سے اس کو پکارا جائے اللہ کا ذکر کیا جائے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔ ” دل اللہ کی یاد ہی سے چین پاتے ہیں۔ “ ( سورة رعد آیت 28(
اللہ کا ذکر دو طرح سے ہے۔ ایک ہر وقت اللہ کو اپنے دل میں یاد رکھنا۔ دوسرے زبان سے اس کے نام کا ورد کرتے رہنا اور حدیث میں ہے کہ سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے یا پھر یہ قرآن ہے۔ جس کے متعلق فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) 15 ۔ الحجر :9) ذکر کے بیشمار فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے اللہ پر توکل پیدا ہوتا ہے اور جس شخص کو صحیح معنوں میں صرف اللہ پر توکل کی نعمت نصیب ہوگئی۔ وہ مصائب و آلام میں کبھی نہیں گھبراتا، نہ اس کا دل ہی لذائذ دنیا پر ریجھتا ہے وہ ہر حال میں اللہ پر نظر رکھتا ہے اور اسے ایسا قلبی سکون اور راحت نصیب ہوتی ہے جس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اللہ نے اس نعمت سے نوازا ہو اور ربط مضمون کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے دل معجزہ دیکھنے کے بغیر بھی مطمئن ہوجاتے ہیں اور بات ہے بھی یہی کہ دلوں کو اطمینان اللہ کے ذکر سے نصیب ہوتا ہے معجزات سے نہیں۔
اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان وتقویٰ بےقرار رہتے ہیں۔
آیت 28 اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ دل اور روح کے لیے تسکین کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کا ذکر ہے اس لیے کہ انسان کی روح اس کے دل کی مکین ہے اور روح کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی آیت 85 میں فرمایا گیا : وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ”اور اے نبی ! یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرمائیں کہ روح میرے پروردگار کے امر میں سے ہے“۔ لہٰذا جس طرح انسانی جسم کی حیات کا منبع source یہ زمین ہے اور جسم کی نشوونما اور تقویت کا سارا سامان زمین ہی سے مہیا ہوتا ہے اسی طرح انسانی روح کا منبع ذات باری تعالیٰ ہے اور اس کی نشوونما اور تقویت کے لیے غذا کا سامان بھی وہیں سے آتا ہے۔ چناچہ روح امر اللہ ہے اور اس کی غذا ذکر اللہ اور کلام اللہ ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ دنیوی مال ومتاع اور سامان عیش و آسائش کی بہتات سے نفس اور جسم کی تسکین کا سامان تو ہوسکتا ہے یہ چیزیں دل کے سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتیں۔ دل کو یہ دولت نصیب ہوگی تو اللہ کے ذکر سے ہوگی۔
سو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے خوش نصیبوں کی صفت کے ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور ان کے دلوں کو اطمینان ملتا ہے اللہ کے ذکر سے، اور پھر ذکر اللہ کی عظمت شان کے ذکر وبیان کے سلسلہ میں الا کے حرف تنبیہ کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ آگاہ رہو کہ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے، پس اللہ کے ذکر کے بغیر دلوں کو حقیقی سکون واطمینان نہیں مل سکتا، اور ذکر یعنی اللہ کی یاد دلشاد سے سرفرازی کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس حکمتوں بھری کائنات اور اس میں موجود دلائل قدرت وحکمت اور آفاق وانفس کی نشانیوں میں غور و فکر سے کام لیا جائے، اس لیے اس وحدہ لاشریک کی عظمت شان کا نقش دلوں پر گہرا ہوتا جائے گا اور دل کے اندر موجود اس واہب مطلق جل جلالہ کی عظمت کا اظہار بندہ اپنی سے بھی کرتا چناچہ وہ دل کے قوی احساس وشعور کے ساتھ زبان سے کہتا ہے ” سبحان اللہ ” یعنی اللہ پاک ہے ہر نقص وعیب اور ہر شائبہ و شرک واشتراک سے، اور کہتا ہے ” الحمد للہ ” یعنی ہر تعریف اور حمد وثنا کا مستحق وہی وحدہ لاشریک ہے، اور اسی عظمت شان کے احساس وشعور کی بنا پر بندہ کہتا ہے ” اللہ اکبر ” یعنی اللہ ہی سب سے بڑا ہے، کیونکہ جب ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا خالق ومالک اللہ ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے اور یہ شان اس کے سوا نہ کسی کی ہے اور نہ کسی کی ہوسکتی ہے اس لیے سب سے بڑا وہی ہے اور جب یہ ساری صفات اسی وحدہ لاشریک کی ہیں تو پھر معبود برحق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے، اس لیے سب سے بڑا وہی ہے اور جب یہ ساری صفات اسی وحدہ لاشریک کی ہیں تو پھر معبود برحق بھی وہی وحدہ لاشریک ہے اس لیے بندہ مومن اپنے رکوع وسجود اور عبادات واطاعت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا ظاہری اور بدنی ذکر بھی کرتا ہے، اسی لیے حصن حصین کی روایت میں وارد ہے کل مطیع ذاکر اللہ عزوجل یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کرنے والا ہر شخص اللہ تعالیٰ کا ذاکر ہوتا ہے اور ایسے ذاکربن کے انعام واحسان کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کے لیے بہت بڑی خوشخبری بھی ہے اور بڑا عمدہ انجام بھی۔ سو ذکر خداوندی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ ”ذکر اللہ“ کا اصل معنی یاد الٰہی ہے۔ مفتی محمد عبدہ ؓ لکھتے ہیں : ”یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں الجھا ہوا ہو لیکن جوں ہی اللہ کو یاد کرے تو تمام فکر بھول جائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہوجائے۔“ یہاں اگرچہ کافی معنوں کی گنجائش ہے مگر حقیقی معنی یہی ہے، کیونکہ کافر معجزہ مانگ رہے ہیں جبکہ سب سے بڑا معجزہ قرآن موجود ہے۔ اہل ایمان کو اسی سے اطمینان ہوجاتا ہے، جبکہ بدنصیب کافر شک ہی میں مارا جاتا ہے اور مزید معجزے مانگتا رہتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہدایت کی نعمت صرف اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے،غیرمشروط ایمان لائے اور وحی الٰہی سے اسے پوری تسلی حاصل ہوجائے۔ کوئی شخص اگر ایمان کا دعویٰ کرے مگر اسے قرآن و حدیث کے بجائے تسلی کسی اور کی بات خصوصاَ اپنے تئیں نیفتہ خفتہ علوم کے بدشکلے ٹیڑھے میڑھے اشکال و حرفی نمبری تعویذ،گنڈے اورجنترمنتر یامُندرے وغیرہ سے ہوتی ہو تو وہ بدنصیب بھی ہدایت الٰہی سے محروم ہے۔
وعلیکم السلام۔ کمال کر دیا اپ نے۔ اپ کے یہ سب معروضات آئندہ پوسٹوں میں شامل کیے جائیں گے۔ بہت شکریہ
اب اس جہاد میں آپکا حصہ بھی آ گیا
اسلام و علیکم سر بہت خوب صورت تحریر ہے
اللّہ پاک ہم سب کو ہدایت دے
اور اللّہ پاک کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
وعلیکم السلام۔ اور آمین
وعلیکم السلام
بہت شکریہ جی