اعوذ بالله من الشیطن الرجیم،
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
رب القھار کی عظمت و شان اور صرف اُسی اکیلے سے مانگنے کی کیا اہمیت ہے اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی ہے کہ
حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا لہٰذا تم ایکدوسرے پر ظلم نہ کرو۔اے میرے بندو! جسے میں ہدایت دوں اس کے علاوہ تم سب گمراہ ہو،اس لئے تم مجھ سے ہدایت طلب کرومیں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں کھلاؤں اس کے سوا تم سب بھوکے ہو،تو تم مجھ سے کھانا طلب کرو میںتمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو!جسے میں لباس پہناؤں اس کے علاوہ تم سب بے لباس ہو لہٰذا تم مجھ سے لبا س مانگو میںتمہیں لباس پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب رات دن گناہ کرتے ہو اور میں گناہ بخشتا ہوں ،تم مجھ سے بخشش طلب کرو میںتمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالکنہیں ہو کہ مجھے نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہمتقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے اور اگر تمہارے پہلے اور آخری،تمہارے انساناور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے اور اےمیرے بندو! تمہارے پہلے اور آخری ،تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسانکا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا کم ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنےسے ) ا س میں کمی ہوتی ہے۔اے میرے بندو!یہ تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لئے جمع کر رہا ہوں ، پھر میں تمہیں انکی پوری پوری جزا ء دوں گا تو جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (جیسے آفتیا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔(مسلم )
آجکل جو ملک کے حالات ہیں انکو دیکھ کر کشمیر اور فلسطین یاد آ جاتے ہیں۔ اپنے بچپن سے میں کشمیر اور فلسطین پرقابض بھارتی اور اسرائیلی فورسز کے ظلم و ستم دیکھتا آ رہا ہوں لیکن کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ ایسا اپنے پیارے پاکستانمیں بھی دیکھنا پڑے گا۔ لیکن وہ جیسا کہتے ہیں کہ جیسے عوام ویسے حکمران۔ تو بہت سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ آخر جیسے ہم ہیں، دھوکے باز، جھوٹے، مکار، فریبی، قاتل، سازشی، زانی، ویسے یہ ہمارے حکمران اورمحافظین بھی ہیں۔ سوا سال قبل تک ہمارا ملک بالکل ٹھیک تھا، چھ پرسنٹ گروتھ ریٹ تھا، ہر محکمہ اور کاروبار ترقی کر رہاتھا، کسان خوش تھا، ہیلتھ کارڈ ملا ہوا تھا فری علاج کے لیے، ملک میں ایک طویل عرصے کے بعد ڈیم بن رہے تھے، ٹیکسٹائلکی صنعت واپس شروع ہو گئی تھی اور بنگلادیش سے لوگ واپس آ کر پاکستان میں ملیں لگا رہے تھے، ملک میں ہر طرفنوکریاں ہی نوکریاں تھیں کیونکہ پاکستان کی ہر صنعت چاہے وہ گاڑیوں کی ہو، کنسٹرکشن کی ہو، ٹیکسٹائل کی ہو، پراپرٹیکی ہو، فرنیچر کی ہو، سپہر پارٹس کی ہو، کوئی بھی ہو ترقی کر رہی تھی، ایک ہمارا بے وقوف سا لیڈر پوری دنیا میں ہرانٹرنیشنل فورم پر کشمیر و فلسطین کا مسلۂ کھلے الفاظوں میں بیان کر رہا تھا اور مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کا واویلہکر رہا تھا اور ہر موقع پر رسول الله محمد کریم کے ساتھ والہانہ عقیدت کا اظہار بھی کرتا تھا یہاں تک کہ اقوام متحدہ میںرسول الله محمد کریم کا ذکر پاک ایسے کیا کہ بڑے بڑے ناقدین تعریف کرنے پر مجبور ہو گئے، ریکو ڈیک میں ملک کے اربوںروپے بھی بچائے گئے، سکولوں کا سلیبس سستا اور بہتر اور اردو زبان میں کیا گیا، کرونا آیا اور گیا اور پوری دنیا میںپاکستان کے اقدامات کی تعریف کی گئی، غریب خاندانوں کو شائد چودہ چودہ ہزار بلا کر نہایت پیار سے دیے گئے اور اسپروسیس میں ایک بھی بندہ نہ مرا، کرونا کی مفت ویکسین پورے پاکستان میں لگائی گئی، پاکستان کی تاریخ کی سب سےکامیاب ایمنیسٹی سکیم متعارف کروائی گئی، بیرون ملک پاکستانیوں نے ریکارڈ عربوں ڈالر پاکستان بھیجے اور باہر سے بھیریکارڈ انویسٹمنٹ پاکستان آئی، دل کھول کر ہم سب سوشل میڈیا پر بکواس کرتے تھے، جدھر دل کرتا تھا احتجاج کرنا شروعکر دیتے تھے۔
پھر کیا ہوا، ہمیں غیرت آ گئی کہ یہ بھلا بھی جینے کا کوئی طریقہ ہے اور غیرت میں آ کر ہم سب نے اُس بندے پر دن دوپہرشام تنقید کرنا شروع کر دی جس نے ہمیں یہ سب سہولیات دے رکھی تھیں۔ پھر ایک سروے ہوا حساس ادارے کی طرف سےکہ اس حکمران کی مقبولیت کتنے پرسنٹ رہ گئی ہے اور حقیقت کے عین مطابق سروے یہ آیا کہ اس بے وقوف لیڈر کی بےوقوفیوں اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اُسکی شہرت و پسندیدگی دس پرسنٹ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ بس پھر ہمارےمحافظین نے ہمارا ہی بھلا سوچا کہ اب بیسٹ وقت ہے، کہ عوام کی امنگوں کے عین مطابق، اس بے وقوف سے لیڈر کو اتاراجائے اور اسکی جگہ، عوام کی امنگوں کے عین مطابق، ایک قومی اتحاد کی نیک دل اور عوام و خدا ترس حکومت قائم کیجائے۔
راتوں رات اُس بے وقوف لیڈر کی عوام دشمن حکومت ختم کی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ رات بارہبجے عدالتیں اس نیک کام کے لیے لگیں۔ لیکن پھر ایک عجیب کام ہوا کہ وہ بے وقوف لیڈر تو اپنی ڈائری اُٹھا کر گھر چلا گیالیکن یہ عقلمند عوام جو پہلے اُس لیڈر اور اسکی پالیسیز کا ٹھٹھہ اڑاتی تھی کہ گبھرانا نہیں ہے اور سکون تو صرف قبر میںہے، اچانک پھر اُسی بے وقوف لیڈر کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی۔ اب سمجھ سے باہر ہے کہ یہ عقلمند عوام پہلے تو کچھ اورکر رہی تھی اور اب کچھ اور۔ تو ہماری نئی حکومت اور ہمارے محافظین نے سوچا اور بالکل درست سوچا کہ یہ بیچاری قوم توزیادہ گرمی کی وجہ سے سٹھیا گئی ہے بلکہ چُتیا گئی ہے۔ انکی گانڈ پر مارو چھتر اور انکو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹو اورانکو ننگا کر کے بناؤ انکی وڈیوز تاکہ انکو آئے عقل۔ اور ماشاالله عقل تو خوب آئی ہے اور آپکو بھی آئی ہو گی کہ ایک بےوقوف لیڈر کی باتوں میں آ کر خامخواہ ایک دردمند اور عوام دوست حکومت اور اپنے پیارے دولارے محافظین کو ہم نے برا بھلاکہا اور احتجاج کیا کہ الیکشن کروائے جائیں عوام کی امنگوں کے مطابق کیونکہ آئین تو عوام ہی کو سٹیٹ مانتا ہے۔ لیکن ابیہ عوام اگر بارہ مہینے پہلے کچھ اور کہے اور بارہ مہینے کے بعد کچھ اور کہے تو بھلا یہ دماغ کی ابتری اور پیٹ کی گیسکے علاوہ اور کیا ہے اور اگر عوام بیمار ہو جائے تو پھر اُسکا علاج تو بنتا ہے۔ سو علاج ہو رہا ہے۔ علاج کرنے والوں سے میریاپیل ہے کہ علاج کا طریقہ کار تھوڑا مزید بہتر و سخت کریں تاکہ کسی انقلابی کا اگر کوئی سنڈی نما کیڑا رہ بھی گیا ہے تووہ بھی جلد مر جائے اور میری علاج کروانے والوں سے عرض ہے کہ گبھرانا نہیں اب، اور سکون تو صرف قبر میں ہی ہے۔
وہ پنجابی میں کہتے ہیں سب رج کھان دیاں مستیاں نے۔ جب رج کر کھانے پینے کو مل رہا تھا تو اچھل اُچھل کر باتیں کرتےتھے، اب جب نہیں رہا وہ زمانہ تو اب بھلا اچھلنے کا فائدہ۔ اب اگر ایسے اچھلنے والوں کو پنجرہ میں بند کیا جا رہا ہے توبالکل ٹھیک کیا جا رہا ہے کیونکہ بندر چڑیا گھر میں ہی اچھے لگتے ہیں۔
قرآن مجید میں الله رب القھار کہتے ہیں،
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کیشامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔ سورہ رعد
اب ماشاالله ہمارے اندر کتنے نیک اوصاف ہیں وہ سب جانتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہم فراڈیے مانے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کریڈٹکارڈ اور دیگر فراڈ کرنے والوں میں پاکستانیوں کا اعلی مقام ہے۔ حالنکہ لین دین میں سب سے محتاظ رسول الله محمد کریمتھے اور انھی کی سنت اصولا ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہیے۔ حدیث رسول کہ ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں، لیکن سبسے زیادہ ملاوٹ ہم لوگ ہی کرتے ہیں۔ حج و عمرہ کرنے والوں میں سے میرے خیال میں پاکستانیوں کا دنیا میں دوسرا یا تیسرانمبر ہے جبکہ ایک حالیہ سروے کے مطابق جھوٹ اور کرپشن میں پاکستان الحمدلله ایک سو چودہ ممالک کی فہرست میںپچاسی یا نوے نمبر پر ہے۔
الله تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا انکار کرنے سے آخر کار الله کی ناراضگی جنم لیتی ہے اور پھر نہ صرف وہ نعمتیں چھنجاتی ہیں بلکہ سزا بھی ملتی ہے۔ میرے خیال میں عین یہی چیز آج ہم سب کے ساتھ ہو رہی ہے۔
اب مسلۂ یہ ہے کہ بھاشن تو میں نے کافی دے دیا لیکن اسکا حل کیا ہے۔ حل ایک تو یہی ہے کہ ہم لوگ اپنے اوصاف کو تبدیلکریں اور جب نعمت قھار حاصل ہو رہی ہو تو شکر بجا لائیں۔ اور چونکہ یہ کام تو ہم نے کرنا نہیں تو پھر ایک ہی راستہ ہےاور وہ عبادت قھار ہے کہ کسی طریقے سے رب القھار کا غصہ ٹھنڈا کیا جائے۔ اسی سلسلے میں اجکا عمل بھی ہے۔ جیساکہ اپ لوگ جانتے ہیں کہ میں نے پہلے قھار کا نو لاکھ کے قریب ذکر کروایا تھا۔ اب بہت سوچ و بچار کے بعد میں نے فیصلہکیا ہے کہ رب القھار کے دو اسما یَا قَابِضُ یَا بَاسِطُ کا ذکر کروایا جائے۔ اسکے پیچھے چند وجوہات ہیں جو یہ ہیں۔
قابض کا ایک مطلب ہے تنگی دینے والا یا اٹھانے والا۔ جبکہ باسط اسکی عین ضد ہے جسکا مطلب کشادہ کرنا ہے یا وسعتدینا ہے۔ اسمائے الہی پر عام لوگ غور نہیں کرتے ورنہ ان اسمائے الہی کے مطالب کو اگر جان لیا جائے تو زندگی میں ان اسماسے بہت برکت و فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فیض کا منبہ بہت سارے لوگ سو کالڈ پیروں کو سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقتفیض کا منبہ قرآن و اسما ہیں۔ اگر ہماری زندگیوں میں موجود برائیوں کو اٹھا لیا جائے یا ان برائیوں کو ہم پر تنگ کر دیا جائےیعنی کہ گھٹا دیا جائے اور اسکے برعکس ہمارے زندگیوں میں کشادگی اور وسعت عطا ہو جائے تو کیا ہمارے جمیع مطالب وخواہشات خود بخود پوری نہیں ہو جائیں گی؟ اور کیا اس مقصد کے لیے دنیا جہان میں کوئی چیز ہمیں قَابِضُ باسطُ سے بہترامداد فراہم کر سکتی ہے؟ سو کچھ دن یہی سوچنے کے بعد اس عمل کو ترتیب دیا گیا ہے کہ نہ صرف ہماری ذاتی زندگیوںمیں برائیاں قبض ہوں اور ہمیں کشادگی ملے بلکہ ہمارے ملک پاکستان کی برائیاں بھی قبض ہوں اور وسعت کی نعمت سےہمارا ملک سرفراز ہو۔
عمل جب چاہیں شروع کر لیجیے اور عمل کے لیے لنک پر کلک کیجیے۔
عمل یہ ہے کہ موم بتی پر ایک طرف یہ اعداد لکھیے، ۱۵۱۷۲۳۵۵۹۱۰
اور دوسری طرف یہ اعداد لکھیے، ۹۵۱۳۳۷۹۰۲۰
اسکے بعد موم بتی جلا کر یا قَابِضُ یاَ بَاسِطُ ۶۶۶ چھ سو چھیاسٹھ مرتبہ پڑھیے۔ جو اتنا نہ پڑھ سکے وہ بس ۳۳۳ مرتبہ پڑھلے۔ جو زیادہ پڑھنا چاہیں وہ ۹۹۹ مرتبہ پڑھ لیں۔ اُسکے بعد مندرجہ ذیل دو آیات اکھٹی سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران کیپینتالیس مرتبہ پڑھیے۔
وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪–وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(245)سورہ بقرہ
اور اللہ تنگی دیتا ہے اور وسعت دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ–وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(189) سورہ ال عمران
اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
عمل کے بعد جو دعا مانگنی ہے وہ اس طرح ہے۔
اوّل و آخر درود شریف کے بیچ میں یہ دعا تین مرتبہ۔
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ اس لیے میں یہ دعا کرتا ہوں کہ تو میری زندگی سے ہر طرحکی برائی و تنگی کا خاتمہ کر دے اور مجھے ہر معاملے میں خیر و کشادگی عطا فرما اور میرے ملک پاکستان کے ساتھ بھییہی معاملہ فرما۔
پھر درود شریف کے بعد (یاقابضُ یا باسطُ آمین) تین مرتبہ۔
جو لوگ شمع نہ جلا سکیں وہ بس صرف اپنے دائیں یا بائیں بازو پر دونوں نمبرز اوپر نیچے لکھ لیں اور عمل کر لیں۔
یہ عمل، نو دن کا یا اٹھارہ دن کا یا ستائیس دن کا ہے۔ اُسکے بعد ہر مہینے ہر بندہ اس عمل کو نو دن یا اٹھارہ دن لازمیکرے۔ ہر بندہ جتنے دن یہ عمل کرے اور جتنی بھی اُسکی پڑھائی ہو وہ صاحب پیج اذکار القھار کو لکھوا دے۔ یہ عمل آپکیزندگیوں میں سے تنگی کو دفع کرے گا اور کشادگی پیدا کرے گا۔ تنگی کا معنی بھی بہت وسیع ہے۔ تنگی جس بھی وجہ سےہو، چاہے وہ بیماری کی وجہ سے ہو یا جادو جنات کی وجہ سے ہو یا کسی کے رویے کی وجہ سے ہو یا ویسے ہی حالات کیوجہ سے ہو، یہ عمل تمام تنگیوں کو رفع و دفع کرے گا اور وسعت و کشادگی کے اسباب پیدا کرے گا۔ ایک مرتبہ پورے عمل کاترجمہ ضرور غور سے پڑھیے گا تاکہ آپکو عمل کے دائرہ اختیار کا صحیح اندازہ ہو۔ لیکن اس عمل کو آپ نے کرنا ریگولر ہےکیونکہ چند دن کوئی بھی عمل کر کے پھر اسکو چھوڑ دینا جبکہ مشکلات سالوں پرانی ہو، یہ کوئی طریقہ نہیں۔ جب مشکلاتاور تنگیاں مسلسل ہوں تو الله کا ذکر اور عمل بھی مسلسل ہونا چاہیے تاکہ آپ لوگوں کی روحانی امداد بھی مسلسل ہو۔ اوراسی بہانے پاکستان کے لیے بھی دعا ہو جائے گی جسکی پاکستان کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ اور اس عمل میں کسیسیاسی پارٹی یا مخصوص لیڈر کے لیے دعا نہیں کرنی بس اپنے وطن پاکستان کے لیے ہی دعا ہو گی۔
عمل مکمل کرنے کے بعد اسکی مداومت ہو گی۔ ہر روز اعداد لکھ کر بازو پر بس اسمائے الہی ۱۳۵ مرتبہ پڑھے جائیں اور آیاتبس نو مرتبہ۔ بعد میں دعا۔ پھر اعداد بے شک دھو لیں۔
صدق الله العلی العظیم
والله اعلی و اعلم۔
السلام علیکم سر ایہ تبس سے مراد دونوں ایہ ھین؟
والله یقبض اور ولله والی دونوں آیات۔
السلام علیکم سر ایہ تبس سے مراد دونوں ایہ ھین؟
اور کیا چراغ جلا کر اسمین بھی بتی فتیلہ پر یہ عداد لکھ سکتے ھین؟
جی دونوں آیات اکھٹی پڑھی جائیں۔ چراغ استعمال نہیں ہو سکتا۔ اعداد کا مکمل جلنا ضروری ہوتا ہے۔ چراغ میں مکمل اعداد نہیں جلتے
اسلام علیکم۔ اج میرا ستائیس دن کا عمل 999کی تعداد میں ٹوٹل پڑھائی (26973) مکمل ہوا ۔
اپنا میسنجر ٹھیک کیجیے
جی
بہت دن سے کوشش کر رہی ہوں، مسلہ نہیں پتہ چل رہا ۔