spiritual revelations

۱۰۰ آیات

اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
اس دنیا میں حاجت براری کے سینکڑوں طریقے ہیں۔ سحر و جادو، جنتر، منتر، تنتر، مندرے، ڈنکے، علم الحاضرات اور اس طرح کے اور بھی کئی سفلی علوم نہ صرف لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہے ہیں بلکہ رائج الوقت بھی ہیں۔ مندرجہ ذیل بتائے گئے علوم میں سے کچھ جائز اور کچھ ناجائز ہیں لیکن قطع نظر اس بحث کے، لوگوں خصوصا مسلمانوں میں یہ شعور بیدار نہ ہو سکا کہ ایک مسلمان کے لیے سب سے عمدہ طریقہ حاجت براری کا رجوع الی الله ہے۔ سورہ الذاریات کی آیت پچاس میں ہے،
“پس دوڑو الله کی طرف۔”
یہ الله کی طرف دوڑنا ہی درحقیقت رجوع ہے۔ ہر جانب سے خطرات میں گھرا ہوا انسان ایک پناہ گاہ کا محتاج ہے۔ خواہشات، مفادات اور گمراہی کی طرف لے جانے والے بے شمار عوامل سے جان چھڑا کر الله عزوجل کی امن و سکون والی پناہ گاہ کی طرف آنے کی کوشش کرنا، الله عزوجل کی وسیع ترین رحمت کے دامن میں جگہ تلاش کرنا، نفس پرستی، گناہوں اور شرک و کفر سے دوری اختیار کر کے اللہ کی پناہ میں جانے کا نام رجوع ہے۔ یعنی جو چیز ظاہری و باطنی لحاظ سے الله عزوجل کو ناپسند ہے اُسکو ترک کر کے اُس چیز کو اختیار کرنا جو الله عزوجل کو پسند ہے، الله عزوجل کی نافرمانی چھوڑ کر اُسکی اطاعت میں آنا، اور غفلت کو چھوڑ کر ذکر الہی کی طرف آنا۔
بخاری شریف کی ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ،
’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی خفیہ طور پر اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسان نے رجوع الی الله، قرآن و سنت کی بجائے رجوع البشر اور بشر کے بنائے ہوئے سفلی علوم کی طرف رجوع کیا اور بری طرح گمراہ ہو گیا۔ ہمارے نام نہاد پیروں، فقیروں، عاملین نے اسمیں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سو آج حال یہ ہے کہ الله کو سجدہ کرنا نہ کرنا برابر ہو گیا لیکن پیر کو کنڈ کرنا شدید گستاخی۔ پیر خانے میں چندے دینے ہیں یہاں تک کہ پیر پراڈو، Fortuner پر پھرنے لگے لیکن مسجد میں چندہ نہیں دینا کہ غریب مولوی سارے زمانے میں الله کے گھر کے لیے چندہ مانگتا پھرتا ہے۔ پیر خانوں کو آباد کیا اور مساجد کو ویران۔ اسما الہی الله عزوجل اور اسکے نازل کردہ قران مجید کی سورہ و آیات پڑھنے کے لیے اجازت کا ضروری قرار دیا جانا اور عوام کو پیسوں کے عوض اجازتیں دینا۔ بغیر اجازت کلام الہی پڑھنے کو رجعت کا مؤجب قرار دینا۔ عوام کو بار بار یہ باور کرانا کہ اپنی مشکلات میں اگر کلام الہی سے مدد لی تو مشکل تو شائد حل ہو جائے لیکن موکلات کی وجہ سے اور بہت ساری پریشانیاں اور مشکلات گلے پڑ جائیں گی۔
نفسیات اور سانس پر کئی کتابوں کے مصنف شمس الدین نے ایک کمال فٹے منہ جاہلانہ عقیدہ پیش کیا۔ ہر بندے کا ایک آورا ہوتا ہے یعنی اسکے جسم کے اردگرد کچھ مخصوص ریز کا حالہ/جال۔ اس جال کو کچھ مشینوں کی مدد سے اور روحانی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر یہ جال مضبوط و مستحکم ہو گا تو انسان ایک کامیاب زندگی گزارے گا، سحر و جنات اور بیماریوں سے بچا رہے گا اور اگر یہ شعاوں کا جال کمزور ہو گا تو وہ بندہ مختلف قسم کی آفات میں گرفتار رہے گا۔ گو کہ یہ عقیدہ یہاں تک تو درست ہے لیکن آگے کا باطل اضافہ جو مصنف نے کیا اور آج تک بعض عاملین بھی کرتے چلے آ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مختلف اور اپنی مرضی سے کیے گئے وظائف قرآنی یعنی ورد اسما و آیات و سورہ درحقیقت اس آورا aura کو کمزور کرتے ہیں اور انسان مختلف قسم کے مصائب و بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے جسمیں کینسر تک کی مہلک بیماری شامل ہے۔ یعنی کہ ایک مسلمان اگر کسی دشمن کے ہاتھوں تنگ ہے اور کسی سے پوچھے بغیر سورہ فیل کا ذکر شروع کر دیتا ہے، پھر کچھ عرصے بعد ساتھ اسم الہی قھار پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور پھر ساتھ کوئی اور اسم یا سورہ بھی شروع کر دیتا ہے تو اس سے، حق پر ہونے کے باوجود، دشمن کو کچھ ہو نہ ہو، اُسے خود ضرور کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ کمال ہوشیاری اور چالاکی سے اس عقیدہ کی ترویج و اشاعت کی گئی اور اتنے عرصے تک کی گئی کہ آج سادہ لوح مسلمان سورہ فیل، لھب اور اس قبیل کی دوسری سورہ بغیر اجازت پڑھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سورہ مزمل جیسی ٹھنڈی اور مقدس سورہ کو ایسے جلالی بنا کر پیش کیا گیا کہ آج کسی کو اس سورہ کو خود سے ورد میں لانے کی جرات نہیں۔ پچھلے دنوں یو ٹیوب پر ایک وڈیو دیکھی جسمیں ایک جاہل خبیث شیطان نے یہاں تک دعوی کر دیا کہ آج کے زمانے میں سورہ مزمل پڑھنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں کیونکہ اس کے تمام موکلات انڈر گراونڈ جا چکے ہیں۔
میں سورہ مزمل قریبا پچیس سالوں سے پڑھ رہا ہوں۔ مجھے تو اسکی گرمی سے بواسیر نہ ہوئ اور میرے بتائے ہوئے طریقوں پر سورہ مزمل کے ورد سے جو انسانی حاجات پایہ تکمیل تک پہنچیں، اُنکے فیڈ بیک سب کے سامنے ہیں۔
کلام الہی کے بارے محمد کریم کا یہ فرمان دیکھیے۔
جب کسی گھر میں بکثرت قرآن کی تلاوت کی جائے تو اس گھر میں خیر بڑھ جاتا ہے اور اس میں رہنے والوں کے امور میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور وہ آسمان والوں کے لئے ایسے چمکتا ہے جیسے اہل دنیا کے لئے آسمان کے ستارے چمکتے ہیں۔
اب قرآن کی تلاوت سے یہاں مراد پورا قرآن بھی ہو سکتا ہے، کوئی ایک سورہ یا کوئی ایک آیت بھی ہو سکتی ہے، کوئی تخصیص تو نہ ہے، تو اب اس فرمان کی موجودگی میں یہ عقیدہ رکھنا کہ کلام الہی کو بغیر اجازت پڑھنے سے یا کثرت سے پڑھنے سے کینسر ہوتا ہے یا پھر پریشانیاں بڑھتی ہیں، بلاشبہ ایک فٹے منہ باطل عقیدہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اجازت تلاوت قرآن تو ہمیں اپنے رب سے حاصل ہے، تمھاری اوقات ہی کیا ہے جو تم اجازت کی شرط لگاؤ۔ گو کہ عملیات میں اجازتیں ہوتی ہیں لیکن اس اجازت کا مقصد انسان کو عامل یا پیر کی روحانیت سے جوڑنا ہوتا ہے، جو درحقیقت ایک الگ موضوع ہے، لیکن اسکا قطعا یہ مقصد نہیں کہ بندہ خود سے کچھ پڑھ ہی نہیں سکتا یا اگر پڑھے گا تو نقصان ہو گا۔
’حضرت ابو سعید (خُدری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ ربّ العزت فرماتاہے : جس شخص کو قرآن اور میرا ذکر اتنا مشغول کردے کہ وہ مجھ سے کچھ مانگ بھی نہ سکے۔ تو میں اسے مانگنے والوں سے بھی زیادہ عطا فرما دیتا ہوں اور تمام کلاموں پر اﷲ تعاليٰ کے کلام (قرآن حکیم) کی فضیلت اسی طرح ہے جس طرح اﷲ تعاليٰ کی ( فضیلت) اپنی مخلوق پر ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی، عبد اﷲ بن احمد نے روایت کیا ہے۔
اب یہاں میرا آپ لوگوں سے سوال ہے کہ کلام الہی کی اوپر بتائی گئی فضیلت کو پس پشت رکھ کر جب آپ مختلف سفلی کلام پڑھتے ہیں تو درحقیقت جاہل کون ہوا؟ اور پھر جب یہ سوچتے و سمجھتے ہیں کہ اتنا فضیلت والا کلام پڑھنے سے پریشانیاں و مشکلات و بیماریاں بڑھتی ہیں تو جاہل مطلق کون ہوا؟
’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے، اُنہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے دس آیات (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کیا وہ غافل بندوں میں نہیں لکھا جائے گا. اور جس شخص نے سو آیات (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کیا وہ اطاعت گزار بندوں میں لکھا جائے گا، اور جس شخص نے ہزار آیات (کی تلاوت) کے ساتھ قیام کیا وہ (بے حد و حساب) ثواب پانے والوں میں لکھا جائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ سورہ مزمل پانچ بار پڑھنے سے سو آیات قرآنی پڑھی جاتی ہیں اور سورہ مزمل پچاس مرتبہ پڑھنے سے ایک ہزار آیات قرآنی پڑھی جاتی ہیں، تو کیا سورہ مزمل ایسے پڑھنے سے سورہ کے اثرات اوپر والی حدیث کے مطابق لیے جائیں گے یا پھر آجکل کے چول عاملین اور پیروں کی توجیحات کے مطابق؟ آپ ذرا کسی کو بتا کر تو دیکھیے کہ آپ سورہ مزمل پچاس مرتبہ کسی سے پوچھے بغیر ہی پڑھ رہے ہیں۔ وہ آپکے سارے مسائل اس ورد کے ساتھ منسلک نہ کر دے تو میرا نام بدل دیجیے گا۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غزوہ تبوک میں آپﷺ کے ساتھ تھے ایک دن سورج ایسے نور اور روشن کرنوں کے ساتھ طلوع ہوا کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تھوڑی دیر بعد حضرت جبرائیل ؑ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ
جیسے آج سورج طلوع ہوا اس سے پہلےایسا کبھی ہم نے نہیں دیکھا، تو انہوں نے عرض کیا کہ آپﷺ کے صحابی معاویہ بن معاویہ لیسی مدینہ طیبہ میں انتقال فرما گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نماز جنازہ میں ستر ہزارفرشتے بھیجے ہیں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، انہیں یہ مقام کیسے حاصل ہوا؟ سیدنا جبرائیل ؑ نے فرمایا کہ وہ دن رات چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھے ہر حالت میں سورہ اخلاص کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
ایک شخص نے کسی کو اس سورت کو پڑھتے ہوئے رات کے وقت سنا کہ وہ بار بار اسی کو دوہرا رہا ہے۔ صبح کے وقت آ کر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گویا کہ وہ اسے ہلکے ثواب کا کام جانتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ سورت مثل تہائی قرآن کے ہے۔‏‏‏‏“ [صحيح بخاري:
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”جو شخص اس پوری سورت کو دس مرتبہ پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک محل تعمیر کرے گا۔‏‏‏‏“ سیدنا عمر نے کہا: یا رسول اللہ ! پھر تو ہم بہت سے محل بنوا لیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ اس سے بھی زیادہ اور اس سے بھی اچھے دینے والا ہے۔‏‏‏‏“ [مسند احمد:‏‏‏‏
دارمی میں ہے کہ دس مرتبہ پر ایک محل، بیس پر دو، تیس پر تین، یہ حدیث مرسل ہے۔ [سنن دارمي
لیجیے جناب سورہ اخلاص کا وظیفہ حدیث سے ثابت۔ اب جنت میں سو محل کے لالچ میں اگر کسی نے ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لی تو اوپر والی حدیث کے مطابق محلات کی بشارت اور نام نہاد عاملین اور پیروں اور انکے جانشین کے بقول رجعت اور کینسر کی بشارت۔ فیصلہ آپ پر چھوڑا۔
اب یہاں چند عقل کے چول یہ کہیں گے کہ اوپر والی احادیث کے مطابق تو بشارت جنت کی ہے یا مرنے کے بعد کی ہے، اس سے دنیا میں وظیفہ کرنا کیسے ثابت ہوا؟ تو عرض ہے کہ قرآن مجید یا حدیث میں کہاں قدغن لگائی گئی ہے کہ انسان اپنی دنیاوی حاجات میں الله کو نہیں پکار سکتا؟ یا اگر پکارے گا تو کوئی گستاخی یا لالچ کا مرتکب ہو گا؟ بلکہ ملاحضہ فرمائیے یہ احادیث،
سیدہ عائشہ نے فرمایا: ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگو یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی بےشک اللہ تعالیٰ اگر اس کو آسان نہ کرے تو وہ آسان نہیں ہوتا۔” مسند ابی یعلی
دنیاوی حاجات کو تلاوت قرآن سے حاصل/طلب کرنے کے کچھ حوالہ جات ہمیں حدیث کی معتبر کتابوں میں ملتے ہیں مثلاً،
حدیث شریف میں ہے: جس گھر میں روزانہ سورۃ البقرۃ پڑھی جائے وہ گھر شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔ اور شیطان سے محفوظ رہنے کا مطلب جادو جنات اور ظالم سے حفاظت ہے۔
سورۃ الواقعہ جو شخص ہر رات پڑھا کرے اللہ کے فضل سے کبھی فاقہ نہ ہوگا۔
جو لوگ بھی اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں تو ان پر اللہ کی طرف سے سکینہ نازل ہوتی ہے، اور انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان فرشتوں میں فرماتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں اور جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔
بچھو کے کاٹے کا دم سورہ فاتحہ سے اور سورہ فاتحہ کا سورہ شفا قرار دیے جانا۔
فلق و ناس سے محمد کریم کا حصار کرنا اور جادو / نظر بد کے توڑ کے لیے ان سورہ کا نازل ہونا۔
جب میں نے سورہ مزمل پر مضامین لکھنے شروع کیے تو نام نہاد پیروں/ عاملین نے اعتراض کر دیا کہ جو حاجت انسانی ایک نقش سے پوری ہو سکتی ہے جو پندرہ منٹ میں لکھا جا سکتا ہے، تو گھنٹہ گھنٹہ کئی دنوں تک بیٹھنے اور سورہ شریف کے ورد کی ضرورت کیا ہے۔ اب کہہ دینا آسان ہے لیکن پہلے یہ تو ثابت کر دیجیے کہ آپکے نقوش حاجات انسانی پوری کرنے پر قادر ہیں۔ دوسری بات یہ کہ حاجت تو شائد نقش سے پوری ہو جائے لیکن ثواب/ نیکی تو اس کام میں کوئی حاصل نہ ہوئی۔ اگر حاجت پوری نہ ہوئی تو پوری ایکسرسائز ضائع جائے گی اور صرف وقت کا ضیا گنا جائے گا۔ جبکہ کلام الہی کے ورد سے حاجت بھی پوری ہوگی اور نیکی و عبادت کا ثواب بھی ملے گا۔ اگر بفرض محال حاجت نہیں بھی پوری ہوتی تو کم از کم تلاوت قرآن کا ثواب اور برکات تو لازماً ملیں گی۔ سو یہ کہنا کہ لمبے وظائف سے کیا حاصل جب حاجت صرف ایک نقش سے پوری ہو سکتی ہے، اپنے اندر ایک کمزور اور گھٹیا نقطہ نظر ہے جسکا سادہ جواب یہ ہے کہ اگر آپکو اپنے اعمال کی وجہ سے ذکر کی توفیق نہیں ملی تو توبہ تائب کرو بجائے اسکے کہ لوگوں کو ذکر کی طرف سے بددل کیا جائے۔ یہاں تو روحانیت کے سو کالڈ علم بردار ، کراچی کے پلید ترین اگھوری جادو کے حامل سائیوں کے سفلی سو کالڈ مجربات بڑے فخر سے گروپس میں شئیر کرتے ہیں اور جاہل عوام ماشاالله، ان شاالله کے کمنٹس کی لائن لگا دیتی ہےیہ کراچی کی وہ پلید ترین ہستی تھی جسکے مرنے پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ ایک مرتبہ میرا ٹاکڑا بھی اس سے ہوا تھا۔ شیطان کا بہت بڑا پجاری تھا۔ اسی لیے اسلام میں علم حاصل کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے جو کہ عام عوام کے پاس وقت ہی نہیں حاصل کرنے کا۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ہر نقش و عمل کے ساتھ تلاوت قرآن و اسما لازمی ہوتی ہے تاکہ ناکامی بھی ہو تو وہ ناکامی نہ گنی جائے اور ذکر الہی کے فوائد سے ناکامی کا ازالہ ہو سکے۔
مضمون بہت لمبا ہو گیا ہمیشہ کی طرح۔ کوشش کرونگا کہ اسکو ایک اور قسط میں مکمل کیا جا سکے۔ آتے ہیں آج کے عمل کی طرف۔ یہ عمل اولیا کرام سے چلا آ رہا ہے اور تلاوت قرآن کی ایک خاص ترتیب پر مشتمل ہے۔ بزرگوں سے منقول ہے کہ اگر کوئی حاجت آن پڑے تو قرآن مجید کی سو آیات پڑھ کر دعا کی جائے تو پتھر بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ قرآن مجید کی سو چھوٹی چھوٹی آیات کو جمع کر لیں اور بوقت ضرورت اُن کو پڑھا کیجیے۔ لیکن کچھ روحانی رہنمائی سے میرے پاس اس عمل کی ایک اور صورت ہے جو مزید اعجاز دکھائے گی اور اس پر عمل کرنے سے قرآن کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ بھی جڑ جائے گا۔ جس سے ہدیث کے مطابق تو آپکے گھر میں خیر و برکات بڑھیں گی اور نام نہاد عاملین و فنکاروں کے نزدیک مصائب و مشکلات۔
طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی حاجت کے لیے دو رکعت نماز برائے قضائے حاجت پڑھیے اور قرآن مجید کھول کر تعوذ تسمیہ پڑھ کر الحمد لله رب العلمین سے شروع کیجیے۔ سات آیات سورہ فاتحہ کی پڑھ کر سورہ بقرہ شروع کر دیجیے۔ دونوں سورہ کے بیچ میں بسم الله نہ پڑھی جائے۔ سورہ بقرہ کی ۹۳ آیات پڑھ کر عمل ختم کر دیجیے۔ سو آیات پوری ہو گئیں۔ اب اپنی حاجت کے لیے دعا کر لیجیے۔ یہ سو آیات آپکی حاجت کے لیے کافی ہونگی۔ اگر چاہیں تو اگلے دن پھر تعوذ تسمیہ شروع میں ایک مرتبہ کے سو آیات پڑھ لیجیے، سورہ بقرہ کی آیت 94 سے شروع کیجیے اور سو آیات آگے کی پڑھ لیجیے۔ یعنی آیت نمبر 194 تک پڑھ لیجیے اور پھر دعا کر لیجیے۔ اب چاہیں تو اسی پر اکتفا کر لیجیے اور اگر چاہیں تو اگلے دن پھر وہیں سے شروع کر کے آگے کی سو آیات پڑھ لیں جہاں سے پچھلے دن چھوڑا تھا۔ کسی بھی حاجت کے لیے ایک دن کا عمل بھی کافی ہے اور اگر دس دن کر لیں تو ہزار آیات کی تلاوت ہو جائے گی جسکا روحانیت میں اپنا ایک خاص مقام ہے۔ عمل ایک دن کریں یا جتنے دن چاہیں کریں، یہ آپکی مرضی۔ لیکن جب بھی کریں ہر مرتبہ پچھلے دن سے آگے کی سو آیات پڑھیے اور ایک دن مین سو سے زیادہ آیات نہ پڑھیں۔ یہ عمل بجائے روز کرنے کے آپ لوگ ہر جمعہ کو بھی کر سکتے ہیں۔ اس طرح مہینہ میں آپ لوگوں کو چار سو آیات کے پڑھنے کا شرف حاصل ہو گا۔ اور روز بھی کر سکتے ہیں۔
اس عمل میں آپ لوگوں نے بس یہ دھیان رکھنا ہے کہ ایک تو سو آیات سے زیادہ دن میں نہیں پڑھنا، جب بھی عمل کرنا ہے پچھلے دن یا مرتبہ کی سو آیات سے آگے مزید سو آیات پڑھنی ہیں اور دوران تلاوت جب اگلی سورہ شروع ہو تو بیچ میں تعوذ یا تسمیہ نہیں پڑھنا۔ تعوذ و تسمیہ ہمیشہ تلاوت سے پہلے ایک مرتبہ ہی پڑھے جائیں گے۔
حاجت کے لیے ایسا تیز بہدف عمل آپکو کبھی کہیں نہیں ملے گا جو ایک دن کیا، چاہیے دو دن کیا، چاہے دس دن کیا، چاہے اور مزید دن کیا، جب چاہا ریسٹ لے کر عمل چھوڑ دیا اور جب چاہا عمل دوبارہ شروع کر لیا۔ اس طرح سو سو آیات پڑھنے سے ایک دن آپکا قرآن بھی ختم ہو جائے گا جو کہ خود ایک نہایت سعادت مند عمل ہے۔ جس طرح کہ آپ لوگ آگاہ ہیں کہ میں حیض کے دنوں میں عورت کے قرآن پڑھنے کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہوں۔ بس اتنا خیال رکھا جائے کہ حیض میں عورت یا تو زبانی قرآن پڑھے یا پھر موبائل سے دیکھ کر۔ اسکے علاوہ یہ عمل ایسا عمل ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت پڑی، فورا سو آیات پڑھ کر دل کو مطمعن کر لیا کہ آپ قرآن کی پناہ میں آ گئے۔
اس عمل کے ساتھ یہ شمع ان شاالله آپکے گھر کو بد اثرات سے پاک کرے گی اور خوش بختی کے دروازے کھولے گی۔ گھر سے جمیع نحو سات کا خاتمہ ہو گا۔ جو شمع جلا سکے وہ سو آیات کی تلاوت کے ساتھ شمع ضرور جلائے۔ جو نہ جلا سکے وہ نہ جلائے۔ شمع کے اعداد یہ ہیں۔
۲۹٦٦٦٦٦٦٠٤
یہ شمع جس بھی گھر میں جلے گی، اُس گھر اور وہاں کے لوگوں کی مشکلات کو دور کرے گی بفضل قھار۔
صدق الله العلی العظیم
وَاللّٰه اعلی و اعلم۔
Please follow and like us:
fb-share-icon

Leave a Comment