اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
انه من سلیمن وانه بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک جو کہ مارچ کے مہینے میں اپنی پوری عظمت و شان سے جلوہ گر ہونے جا رہا ہے۔ اس مقدس مہینے میں ایک عظیم سورہ فتح کا عمل آپکی خدمت میں پیش ہے جوکہ اپنی مثال آپ ہے اور روحانی دنیا کی رہنمائی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ عمل تو میں نے ہی ترتیب دیا ہے لیکن اسکے پیچھے صلاح مجھے اس عظیم سورہ کے موکلات نے دی ہے۔
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم
نے اور ان سے ان کے والد اسلم نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ پھر پوچھا اور جب اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے آپ کو) کہا تیری ماں تجھ پر روئے تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین مرتبہ عاجزی سے سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو دوڑایا اور لوگوں سے آگے ہو گیا (آپ کے برابر چلنا چھوڑ دیا) مجھے خوف تھا کہ کہیں اس حرکت پر میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہو جائے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے سوچا مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کچھ وحی نازل ہو گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو سلام کیا (سلام کے جواب کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر! آج رات مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج نکلتا ہے۔ پھر آپ نے سورۃ «إنا فتحنا لك فتحا مبينا» کی تلاوت فرمائی۔
صحیح بخاری
سورۃ الفتح کی فضیلت اور اس کے خواص
صحیح بخاری میں مرفوعاً مروی ہے:
(( لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ الْلَّیْلَۃَ سُوْرَۃٌ أَحَبُّ إِليَّ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا )) صحیح بخاری۔
[گذشتہ رات مجھ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایک سورت نازل ہوئی ہے،جو مجھے دنیا وما فیھا سے زیادہ محبوب ہے] اس سے مراد سورت {اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا} ہے۔
بعض بزرگوں نے کہا ہے کہ جو شخص اس سورت کو رمضان کی پہلی شب چاند دیکھتے وقت پڑھے،اس پر پورا سال رزق کی وسعت رہے گی اور جو شخص ہر دن پڑھا کرے گا،وہ خواب میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرے گا۔ ضعیف یعنی کمزور اس کے پڑھنے سے قوی یعنی طاقتور ہو گا۔ ذلیل اسکی تلاوت سے عزیز ہو گا، مغلوب یعنی بے بس منتصر یعنی بس والا ہو گا اور تنگ دست خوش حال ہو جائے گا۔مقروض کے قرض کی ادائی ہو جائے گی اور قیدی اس سے رہائی پائے گا اور مکروب یعنی دُکھی سے کرب یعنی دُکھ دور ہو گا۔
بعض مشائخ نے کہا ہے کہ اس کا اکیس بار پڑھنا ہر مطلوب کے حصول کا موجب اور ہر مکروہ کے دور کرنے کا موجب ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اگر اس سورہ مبارک کا ختم دلانا ہو تو اسکو انتیس مرتبہ پڑھا جائے لوگوں کو ساتھ ملا کر، نہیں تو انتیس جمع انتیس یعنی ۵۸ مرتبہ پڑھا جائے اور اگر اور زیادہ پڑھنا ہو تو ۸۷ مرتبہ پڑھوا لیا جائے لوگوں کو ساتھ ملا کر اور پھر ختم دلایا جائے۔ فتح و نصرت کا کمال عمل ہو جائے گا۔ اور یہ کام پیر کے دن کیا جائے۔ اور اس ختم کے دوران طلسماتی شمع ضرور روشن کی جائے۔
رمضان المبارک کے عمل کا طریقہ اب یہ ہو گا کہ پہلی رمضان کی رات کو شمع پر اعداد لکھیں اور درود و دعا دونوں اکھٹے پڑھ کر شمع پر دم کر دیں۔ اب شمع جلا کر دوبارہ درود اور دعا پڑھیں اور ایک مرتبہ پوری سورہ فتح انتیس آیات والی پڑھیں۔ اب دوبارہ دعا پڑھیے پھر درود پڑھیے اور عمل مکمل۔ اب ایک سفید بغیر لائنوں والا کاغذ لیجیے جسکے بیچ میں ایک گول دائرہ بنا کر اُسمیں “اللہ رسول محمد” لکھیے اور اُسکے اوپر گول دائرے میں بسم اللہ کے ساتھ سورہ فتح کی پہلی آیت انا فتحنا لک فتحا مبینا لکھ دیجیے۔
اب دوبارہ درود و دعا پڑھیں اور اُسکے بعد آیت مبارکہ
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
ترجمہ:
بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔
اس آیت کے اعداد ۱۲۳۳ ہیں اور یہ بڑے پاورفل اعداد ہیں۔ اب یہ آیت یا تو ۱۲۳۳ مرتبہ پڑھ کر پھر دعا اور درود پڑھ کر اپنے کاغذ پر دم کر لیں۔
لیکن اگر اتنا نہ پڑھ سکیں تو کم از کم درود، دعا اور پھر آیت ۶۶۶ مرتبہ پڑھ لیں اور دعا درود پڑھ کر کاغذ پر دم کر لیں۔ اس آیت کی ایک زکوة انیس ہزار بھی ہے۔ سو اس طرح ۶۶۶ کے حساب سے انتیس دنوں میں انیس ہزار تین سو چودہ پڑھی جائے گی۔ میں خود اس ماہ مبارک میں اس آیت کو انیس ہزار مرتبہ پڑھونگا بفضل قھار۔
دوسرے دن اسی طرح عمل کیجیے۔ پہلے درود پھر دعا پھر سورہ فتح پوری پھر دعا۔ اسکے بعد کاغذ پر سورہ فتح کی دوسری آیت لکھنی ہے، پہلی آیت کے بعد سے شروع کر کے گول دائرے میں ہی۔ یہ چیز آپکو تصویر سے سمجھ آ جائے گی۔ پھر درود، دعا پڑھ کر آیت مبارکہ انا فتحنا لک فتحامبینا مقررہ تعداد میں پڑھ کر پھر دعا، درود پڑھ کر کاغذ پر دم۔
اسی طرح آپ ہر روز ایک آیت کاغذ پر لکھیں گے یہاں تک کہ انتیس دنوں میں پوری انتیس آیات کاغذ پر لکھی جائیں گی اور ایک عظیم فتح نامہ تیار ہو جائے گا جسکو آپ فریم کروا کر گھر میں کہیں رکھ لیجیے یا دیوار پر لٹکا دیجیے۔
درود و دعا یہ ہیں۔
درود: اَللّٰھُمَّ صَلّ ِ عَلَی مَحَمَّدٍ الْفَاتِحِ لِمَا اُغْلِقَ وَالْخَاتِمِ لِمَا
سَبَقَ نَاصِرِ الْحَقّ ِ بِالْحَقّ ِ وَالْھَادِیْ اِلَی صِرَاطِکَ الْمُسْتَقِیْمِ وَ
عَلَی اٰلِهِ وَ صَحْبِهِ حَقَّ قَدْرِهِ وَ مِقْدَارِهِ الْعَظِیْم صَلَاةً تَفْتَحُ لَنَا
بِھَا اَبْوَابَ الْخَیْرَاتِ وَالتَّیْسِیْرِ وَ تُغْلِقُ بِھَا عَنَّا اَبْوَابَ الشُّرُوْرِ
وَالتَّعْسِیْرِ وَ تَکُوْنُ لَنَا بِھَا وَلِیًّا وَ نَصِیْرًا اَنْتَ مَوْلَانَا فَنِعْمَ
الْمَوْلَی وَ نِعْمَ النَّصِیْر۔
دعا: اللَّهُمَّ افْتَحْ لَنَا فَتْحاً مُبِيناً وَاهْدِنَا صِرَاطاً مُسْتَقِيْمًا
وَانْصُرْنَا نَصْرًا عَزِيْزًا وَأَتِمَّ عَلَيْنَا نَعْمَتَكَ وَأَنْزِلْ فِيْ قُلُوبِنَا
سَكِيْنَتَكَ وَانْشُرْ عَلَيْنَا فَضْلَكَ وَرَحْمَتَكَ وَاخْتِمْ بِالصَّالِحَاتِ
أَعْمَالَنَا وَبِالسَّعَادَةِ آجَالَنَا وَبَلِّغْنَا مِمَّا يُرْضِـيكَ آمَالَنَا۔
شمع کے اعداد یہ ہیں۔
221 222 900 570
یہ بڑی طاقتور شمع ہے۔ آپ سب کو احساس ہو گا جب آپ اسکو جلائیں گے۔
چونکہ رمضان کا موقع ہے اور عبادت کی طرف لوگوں کا بے تحاشہ رجحان ہو گا اسلیے اس عمل کے ساتھ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسم الٰہی یا فَتَّاحُ کی زکوة بھی ادا کر لیں۔ دن یا رات کی کسی بھی تین نمازوں کے بعد آپ نے یَا فَتَّاحُ کو پانچسو پانچسو مرتبہ پڑھ لینا ہے یعنی ٹوٹل پندرہ سو مرتبہ ایک دن میں۔ اسی طرح انتیس دن پڑھ لیجیے گا۔ یہ زکوة انے والے دنوں میں آپکے بہت کام آئے گی۔
نوٹ: (میرا مسلک یہ ہے کہ خواتین حیض کے دنوں میں قران مجید کی تلاوت موبائل فون سے دیکھ کر کر سکتی ہیں اور شمع بھی بنا کر جلا سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ آیات و اسمائے الٰہی کی پڑھائی بھی کر سکتی ہیں۔ چاہے بستر پر بیٹھ کر کر لیں۔ سو خواتین کے لیے بھی یہ عمل پہلی رمضان سے شروع ہو کر انتیس رمضان تک جاری رہے گا۔ چونکہ بہرحال حیض کے دنوں میں نماز نہیں ہو سکتی اسلیے اسم الہی فتاح کو دن یا رات میں کبھی بھی مختلف اوقات میں پانچسو پانچسو کی تین تسبیحات کر لیں تاکہ دن کی پندرہ سو کی تعداد مکمل ہو جائے۔ جن خواتین کو یہ بات سمجھ نہ ائے وہ بیشک پھر عمل ہی نہ کریں، شکریہ)
جو بندہ اس عمل کو مکمل کر لے گا وہ اگر چاہے گا تو اپنا نام، باپ کا نام بتا کر مجھ سے آیت مبارکہ انا فتحنا لک فتحا مبینا اور اسم الٰہی فتاح کا ایک طلسم لے سکتا ہے۔ یہ طلسم وہ بندہ لکھ کر گلے میں ڈالے گا اور اسکے بھی بڑے فوائد ہونگے۔
سورہ فتح صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی جب کہ مسلمان سخت مایوس و پریشان تھے۔ صلح حدیبیہ کی کفار کی شرائط کچھ ایسی تھیں جو محمد کریم نے تو مان لیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ مایوس ہوئے اور اکثر نے تو کھل کر احتجاج بھی کیا محمد کریم سے۔ ان صحابہ میں حضرت عمر رضی اللہ بھی شامل تھے جو کفار کے ساتھ جنگ کے لیے بالکل تیار تھے اور کمزوری والی ان شرائط پر پیچھے ہٹنے کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ لیکن محمد کریم کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئے اور اتباع رسول میں سر تسلیم خم کر دیا۔ اُس موقع پر، مایوسی کے ماحول میں یہ سورہ مبارکہ نازل ہوئی جسمیں رب القھار نے اپنے نبی رسول اللہ محمد کریم کو پہلی آیت میں ہی بشارت سنا دی کہ تمھیں روشن فتح عطا کر دی گئی ہے۔ آنے والے ایک سال کے اندر اندر یہ پیشنگوئی و نوید فتح بالکل درست ثابت ہوئی اور اللہ رب القھار نے اپنے نبی اور صحابہ کرام کو مکمل فتح سے نوازا۔
حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ سے لے کر ’’فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک آیات نازل ہوئیں ا س وقت حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حدیبیہ سے واپس لوٹ رہے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بہت حزن وملال تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ میں اونٹ نحر فرما دیا تھا، (جب یہ آیات نازل ہوئیں ) تو ارشاد فرمایا: ’’مجھ پرایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسّیر، باب صلح الحدیبیۃ فی الحدیبیۃ، ص۹۸۷، الحدیث: ۹۷(۱۷۸۶))
ترمذی شریف کی روایت میں ہے،حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ سے واپسی پرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’ آج مجھ پرایسی آیت نازل ہوئی ہے جومجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ،پھرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کومبارک ہو،بیشک اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیاکہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے گالیکن (ابھی تک یہ بیان نہیں فرمایا گیاکہ) ہمارے ساتھ کیاکیاجائے گا؟ پھرحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی:
’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(فتح:۵)
ترجمۂ
تاکہ وہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اورتاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
چونکہ سورہ فتح میں مسلمانوں کے لیے فتح کی پیشنگوئی و نوید تھی، تو یہ صرف اُس وقت کے لیے محدود نہ ہے بلکہ قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے یہ خوش خبری ہے۔ یہ بات مجھے سورہ پاک کے موکلات نے بتائی۔ آپ کو اپنی زندگی میں کوئی بھی فتح چاہیے ہو، چاہے جنگ میں دشمنوں کے خلاف ہو یا روزمرہ کی زندگی میں حاسدین کے خلاف یا اپنے کام میں، یا کسی کورٹ کیس میں، جادو میں شیاطین کے خلاف، اپنے عملیات و اذکار میں، وغیرہ، آپ اس سورہ مبارکہ کے ورد سے فتح و کامیابی کی لہروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ ویسے آپ بیشک ساری ساری رات الو کے پٹھوں کی طرح بیٹھ کر کائنات کو لوو یو لوو می کے میسیجز بھیجتے رہیں جیسا کہ لا آف اٹریکشن کے کرنے والے کہتے ہیں، لیکن گارنٹی لے لیجیے جو ایسی بکواس کا ذرا بھی اثر ہو۔ جب تک آپ قران و اسما نہیں پڑھیں گے، کائناتی نور و فتوحات کی قوتیں آپکی طرف نہیں آئیں گی۔ میرا چیلنج ہے آپکو۔ تین مہینے کائنات باجی کو لوو یو لوو می کر کے دیکھیے اور سارے وظائف چھوڑ دیجیے۔ تین مہینے سورہ فتح اور اس شمع کو جاری کر لیجیے۔ ایمانی قرآنی پھر یہاں بیان کیجیے کہ کیا فرق محسوس ہوا۔
جب کوئی بندہ قرآن و اسمائے الٰہی کا ورد کرتا ہے تو ملائکہ سورہ و اسم اُسکی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ حدیث دیکھیے۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ رات کے وقت سورۂ بقرہ تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس بندھا ہوا تھا کہ گھوڑا اچانک اچھلنے لگا، وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا)بھی ٹھہر گیا، انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا وہ خاموش ہو گئے تو وہ (گھوڑا) بھی ٹھہر گیا۔ انہوں نے پھر پڑھا تو گھوڑا پھر اچھلنے لگا، وہ فارغ ہوئے، اور ان کا بیٹا یحیی اس (گھوڑے) کے قریب ہی تھا، لہذا انہیں اندیشہ ہوا کہ وہ اسے نقصان نہ پہنچائے اور جب انہوں نے اسے دور کیا، اور آسمان کی طرف سر اٹھایا تو سائبان سا دکھائی دیا جس میں چراغوں کی طرح روشنی تھی، جب صبح ہوئی تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن حضیر! پڑھ، ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے۔ “ انہوں نے عرض کیا اللہ کے رسول! مجھے اندیشہ ہوا کہ (اگر میں پڑھتا رہتا تو) وہ یحیی کو روند ڈالتا، کیونکہ وہ اس کے قریب تھا، لہذا میں اس کی طرف متوجہ ہو گیا، میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو (اوپر) سائبان کی طرح کوئی چیز تھی اور اس میں چراغوں جیسی کوئی چیز تھی، میں باہر نکلا حتیٰ کہ میں نے اس (روشنی) کو نہ دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو وہ کیا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، فرمایا: ”وہ فرشتے تھے جو تمہاری آواز کے قریب آ گئے تھے، اگر تم پڑھتے رہتے تو وہ وہیں رہتے اور لوگ انہیں دیکھ لیتے اور وہ ان سے مخفی نہ رہتے۔ “ متفق علیہ۔ اور یہ الفاظ حدیث بخاری کے ہیں۔
امام ابن القیم جوزیہ رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب”الوابل الصیب من الکلم الطیب“ میں ذکرکے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ذکر الله تعالیٰ کو خوش کرتا ہے، شیطان کو بھگاتا ہے، غموں سے نجات دلاتا ہے، خوشی کا سبب ہے۔ قلب وبدن کو تقویت بخشتا ہے، دل اور چہرے کی نورانیت اس سے پیدا ہوتی ہے ۔ رزق میں فراوانی لاتا ہے ۔ رعب ودبدبہ اور (ایمانی) حلاوت اس سے حاصل ہوتی ہے ۔ دل میں الله تعالیٰ کی محبت میں اضافے کا سبب ہے، جو کہ اسلام کی روح اور اصل ہے ۔ حق تعالیٰ کی معرفت، ان کی طرف جھکاؤ اور قرب حاصل ہوتا ہے۔ دل کی زندگی اسی سے ہے۔ نیز یہ الله تعالیٰ کے بندہ کو یاد کرنے کا سبب بھی ہے۔
سو یاد رکھیے لا آف آٹریکشن اور اس طرح کے دیگر تمام لاز سب بکواس و بُل شِٹّ پر مبنی ہیں اور ایک مسلمان کے لیے اُنمیں کچھ نہیں رکھا۔ کائنات آنٹی کو پھنسانا اتنا آسان نہیں اور آپکے لوو یو لوو می والے ڈائیلوگ پر کائنات آنٹی بہت زور سے ہنستی ہونگیں۔ کائنات آنٹی کی توجہ حاصل کرنی ہے تو قرآن و اسما کو پکڑیے۔ امام ابن القیم اور فرماتے ہیں کہ ذکر کی سب سے اعلیٰ قسم قرآن پاک کی تلاوت، پھر الله تعالیٰ کا ذکر وتعریف اور پھر دعا ہے۔
سو حالنکہ دعا بھی عبادت کا ہی حصہ ہے لیکن بہرحال تیسرے نمبر پر ہے۔ سو قرآن و اسما کو چھوڑ کر صرف تیسرے نمبر کی چیز یعنی دعا پر لگے رہنا بھی عقل مندی کا تقاضہ نہیں۔ دعا کی جائے اور بہت کی جائے لیکن قرآن و اسما کے بعد۔
ویسے بھی قرآن میں رب القھار کا واضح فرمان ہے۔
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ-
ترجمۂ: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(پ15،بنی اسرآءیل:82)
سو قران و اسما ہی شفا و رحمت ہیں اور اسی سے جڑے رہنے میں سلامتی و عافیت ہے۔ ورنہ کرتے رہیے کائنات آنٹی کے ساتھ لوو یو لوو می۔ اصل کائنات نہ بھی ملی تو ہو سکتا ہے ساتھ والی پڑوسن کائنات ہی فدا ہو جائے آپ پر۔
صدق اللہ العلی العظیم
واللہ اعلی واعلم۔