اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
انه من سلیمن و انه بسم الله الرحمن الرحیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
یہ ایک طویل مضمون ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسکو سکون و اطمینان سے پڑھیں۔ پہلے صدقے کی فضیلت سے آگاہ ہوں اور پھر ایک مخصوص صدقہ، جو میں عملیات میں استعمال کرتا آیا ہوں، کے بارے جانیے اور جہاں کوئی ورد وظیفہ نقش وغیرہ کام نہ کرے وہاں اس صدقے کو آزمائیے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے کہا کہ میں ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ صدقہ کرنے کی غرض سے (رات کو) مال لے کر نکلا اور اس نے ایک چور کو دے دیا۔ صبح لوگ باتیں کرنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو وہ عرض گزار ہوا کہ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا اور بدکار عورت کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگوں نے چرچا کیا کہ آج رات بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں۔ میں ضرور پھر صدقہ دوں گا۔ وہ مال لے کر نکلا تو ایک مالدار کو دے دیا۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ غنی پر صدقہ کیا گیا ہے۔ تو اس نے کہا: اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، (افسوس کہ) چور، زانیہ اور غنی پر صدقہ کر بیٹھا! پھر اُسے لایا گیا تو اس سے کہا گیا: تم نے چور کو جو صدقہ دیا تو شاید وہ چوری کرنے سے رک جائے اور بدکار عورت، شاید وہ بدکاری سے باز آ جائے اور مالدار شاید عبرت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال دیا ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ یعنی بخاری (میراثیوں کی ناپسندیدہ ترین کتاب) و مسلم دونوں میں ہے۔
کثیر بن عبد اﷲ المزنی اپنے والد گرامی کے واسطہ سے اپنے جد امجد (حضرت عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتے ہیں۔
اِس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صدقہ برائی اور بدبختی کے ستر دروازے بند کر دیتا ہے۔
اس حدیث کو امام طبرنی نے روایت کیا ہے۔
حصرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلی اُمتوں کا واقعہ ہے کہ فرشتوں نے ایک شخص کی روح قبض کی اور پوچھا: کیا تم نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: یاد کرو۔ اس نے کہا: میں لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے نوکروں سے کہتا تھا کہ تنگ دست کو مہلت دینا اور مالدار سے درگزر کرنا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: اس سے درگزر کرو۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: میری والدہ ماجدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ گفتگو کر سکتیں تو صدقہ دیتیں، اب اگر میں ان کی طرف سے خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا؟ فرمایا: ہاں۔
یہ حدیث بھی متفق علیہ ہے۔ (اس لیے اپنے مرحومین کی طرف سے صدقہ کرنا بہت افضل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تو اسکو ایصال ثواب کے لیے قران خوانی سے بھی افضل جانتے و مانتے ہیں)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کے مرنے کے بعد اس کی نیکیوں اور اعمال میں سے جو چیزیں اسے نفع دیتی ہیں: ایک تو ان میں سے علم ہے جس کی وہ تعلیم دے اور پھیلائے، دوسرا نیک بیٹا (بیٹی) ہے جسے وہ چھوڑ کر مرا ہو، تیسرا قرآن ہے کہ اس نے کسی کو اس کا وارث بنایا ہو، چوتھی مسجد ہے جس کی اس نے تعمیر کی ہو، پانچواں وہ مکان ہے جو اس نے مسافروں کے قیام کے لیے بنایا ہو، چھٹی وہ نہر ہے جو اس نے جاری کی ہو، ساتواں وہ صدقہ ہے جو اس نے اپنی زندگی میں اور بحالتِ صحت اللہ کی راہ میں دیا ہو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو موت کے بعد بھی اس سے ملتی رہتی ہیں۔
اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
صدقہ خواہ کم ہو یا زیادہ اس کی دس عمدہ ترین خصلتیں ہیں ،پانچ دنیا میں اور پانچ آخرت میں۔
دنیوی پانچ یہ ہیں
۱۔مال کی صفائی۔
۲۔بدن کی صفائی۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((خُذْ مِنْ أَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا))[التوبۃ:۱۰۳]
’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے،جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں۔‘‘
۳۔بیماریوں اور مصیبتوں سے نجات:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((داووا مرضاکم بالصدقۃ))[بیہقی]
’’اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعہ کرو۔‘‘
۴۔غریبوں ،مسکینوں کوخوشی فراہم کرنا اور کی مصیبتوں کو دور کرنا:اور یہ افضل ترین عمل ہے۔
۵۔رزق میں برکت اور مال میں وسعت ہوتی ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
((وَمَآ أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ))[سبا:۳۹]
’’تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔‘‘
آخرت کی پانچ خصلتیں یہ ہیں۔
۱۔صدقہ اپنے صاحب کے لئے قیامت کی گرمی سے ڈھال بن جائے گا اور سایہ فراہم کرے گا۔
۲۔صدقہ سے حساب میں نرمی ہوگی۔
۳۔اس سے میزان بھاری ہو جائے گا۔
۴۔پل صراط سے گزرنے میں آسانی ہوگی۔
۵۔جنت میں درجات کی بلندی نصیب ہوگی۔
صدقہ میں اگر کوئی بھی فضیلت نہ ہوتی سوائے مسکین کی دعا کے تو یہ بھی کافی ہو جاتا۔لیکن صدقہ کرنے کے اثرات واضح ہیں، اس سے مال اور اولاد میں برکت ہوتی ہے، مصیبتں ٹل جاتی ہیں، آسانیاں پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ صدقہ کرنے والے کا دل بھی کھلا ہو جاتا ہے۔
امام ابن القیم ؒ فرماتے ہیں کہ:
مصیبتوں کو ٹالنے میں صدقہ کی عجیب تاثیر ہے خواہ یہ صدقہ فاجر یا ظالم کی طرف ہو یا کافر کی طرف سے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے بہت ساری مصیبتوں کو دور فرماتے ہیں، اور یہ تمام عام وخاص لوگوں کو معلوم ہے کیونکہ لوگوں کو اس کا تجربہ ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں جلدی کرو (یعنی موت یا بیماری سے پہلے صدقہ دو کیونکہ صدقہ دینے سے بلا نہیں بڑھتی یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے بلائیں ٹلتی ہیں۔)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سخی قریب ہے اللہ سے‘ قریب ہے جنت سے‘ قریب ہے لوگوں سے‘ دور ہے آگ سے۔ بخیل دور ہے اللہ سے‘ دور ہے جنت سے‘ دور ہے لوگوں سے‘ قریب ہے آگ سے۔ البتہ جاہل سخی دوست تر ہے اللہ کو عابد بخیل سے(ترمذی)۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ہر دن‘ جب کہ بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں۔ ایک کہتا ہے: اللھم اعط منفقا خلفا۔ دوسرا کہتا ہے: اللھم اعط ممسکا تلفا (متفق علیہ)‘ یعنی ایک سخی کو دعا دیتا ہے‘ دوسرا بخیل کے لیے بددعا کرتا ہے۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: قال اللّٰہ تعالٰی انفق یا ابن آدم انفق علیک (متفق علیہ)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کہ ایک گناہ گار عورت محض اس وجہ سے بخش دی گئی کہ اس کا گزر ایک کتے پر ہوا تھا جو برلب چاہ مارے پیاس کے زبان نکالے مرا جاتا تھا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتارکراور اپنی اوڑھنی میں باندھ کر پانی نکالا اوراس کو پلایا۔ اللہ نے اس بات پر اس کو بخش دیا۔ صحابہؓ نے کہا کہ کیا ہم کو بہائم میں بھی اجر ملتا ہے؟ فرمایا: ہر جگر تر میں اجر ہے(متفق علیہ)۔ جگر تر سے مراد حیوان ہے۔ یعنی ہر جانور کے کھلانے پلانے میں اجر ملتا ہے مگر وہ جانور جس کے قتل کا حکم ہے جیسے سانپ‘ بچھو۔
سنن ابن ماجہ کی ایک آخری حدیث ملاحضہ کیجیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی جناب میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ و اعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی، جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن اور اس مہینہ میں فرض کیا ہے، اور اس سال سے تا قیامت فرض ہے۔
صدقہ سے مراد صرف روپیہ پیسہ نہیں بلکہ صدقہ تو ایک ہڈی کا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے ایک چکن پیس کھایا اور اُسکی ہڈی کسی جانور، کتا و بلی، کو ڈال دی۔ آپ اپنے پرانے کپڑے صدقہ کر سکتے ہیں لیکن کپڑے صدقہ کرنے سے پہلے ایک مرتبہ انکو نمک و سرکہ میں دھو ڈالیے اور پھر صدقہ کیجیے۔ آپ اپنے بچوں کی پرانی سکول کی کتابیں بھی کسی اور کو دے دیں تو وہ بھی صدقہ ہو گا۔ کوئی سویٹ ڈش بنائیں اور فرض کریں وہ خراب ہو جائے تو کوڑے میں پھینکنے کی بجائے صدقہ کی نیت پڑھیں، دعا پڑھ کر دم کریں اور چیونٹیوں کو گھر کے باہر ڈال دیں۔ یعنی کوئی بھی چیز ہو جس سے کسی کی ضرورت و بھوک پوری ہو جائے، کوئی چیز نئی خریدنے کے علاوہ آپکی استعمال کردہ ادنی سے ادنی چیز کا بھی صدقہ ہو سکتا ہے۔ بس اس ایک مندرجہ بالا جملے کو ذہن نشین کر لیجیے۔ آئیے اب صدقہ کے کچھ طرائق جو میرے زیر استعمال ہیں وہ دیکھتے ہیں۔
طریقہ ۱۔
آپ جب بھی کوئی چیز صدقہ کرنے لگیں تو اسکو ہاتھ میں لے کر یہ نیت کریں۔
میں یہ صدقہ ادا کر رہا / رہی ہوں ، یا پھر ، میں یہ صدقہ فلانے کی طرف سے ادا کر رہا / رہی ہوں
برائے رَد اور حفاظت شر ِ شیطانی، شر ِ انسانی، امراض، حادثات اور برائے حصول صحت و سلامتی۔
پھر یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کر صدقے پر اور اپنے اوپر یا جسکی طرف سے صدقہ کر رہے ہیں اُسکے اوپر دم کریں۔ اگر کسی کی طرف سے کر رہے ہوں اور وہ موقعہ پر موجود نہ ہو تو کوئی بات نہیں، دم صرف صدقہ پر کر لیا جائے۔
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطَانِ الرَّجِيم وَ قُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْن۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَا شَآءَ اللّٰہُ ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔
اسکے بعد صدقہ کر دیا جائے۔ یہ تو ہو گیا ایک طریقہ اور یقین جانیے یہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ میرا ہزاروں بار کا مجرب ہے۔ یہ صدقہ چیزوں پیسوں سب کا ہو سکتا ہے۔
طریقہ ۲۔
پہلا طریقہ تو روزمرہ کے چھوٹے بڑے صدقات کے لیے ہے لیکن دوسرا طریقہ خالصتاً ایک عملیاتی طریقہ کار ہے۔ کوئی بھی حاجت، پریشانی یا بیماری ہو، سات مختلف کھانے پینے کی چیزوں کا بندوبست کیجیے۔ مثلاً ایک آٹے کا چھوٹا یا بڑا تھیلا یا کھلا آٹا ایک دو کلو۔ ایک بیکٹ چائے، ایک پیکٹ دودھ، آدھا کلو یا کلو لال لوبیہ، کالے چنے، مٹر (سبز مونگ، چھولیا)، چنے کی دال یا ماش مسور کی دال۔ انکا ایک تھیلا بنا کر پہلے مندرجہ بالا نیت کریں اور پھر دعا تین بار پڑھ کر دم کر دیں اور کسی غریب کی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہ صدقہ برائے ضرورت ایک مہینہ میں ایک مرتبہ بھی ہو سکتا ہے اور ہر ہفتہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپکی جیب پر منحصر ہے۔ اور اپنی حیثیت ہی کے مطابق آپ چیزوں کی مقدار کا بھی فیصلہ کیجیے۔ مثلاً کلو آدھا کلو کم لگتا ہے تو مقدار بڑھا لیں اور اگر کلو آدھا کلو زیادہ لگتا ہے تو مقدار گھٹا لیں۔ یعنی کہ اپنی جیب کے مطابق فیصلہ کریں کہ صدقے کے تھیلے میں آپ نے چیزیں کس مقدار میں ڈالنی ہیں۔
کچھ لوگ جو غیر ممالک میں ہیں اور وہاں انکو کوئی بندہ صدقہ لینے کے لیے نہ ملے تو کوئی ایسا دریا یا جھیل دیکھیں جسمیں مچھلیاں ہوں۔ اب اسی طرح ایک تھیلا صدقے کا بنائیں۔ آٹے کی جگہ کلو دو کلو گندم ڈالیں اور چھ اور مختلف قسم کی دالیں اُس میں مکس کر لیں۔ چھلی کے دانے بھی ہو سکتے ہیں۔ بس ایسی چیزیں ہوں جو پانی میں مکس نہ ہو جائیں بلکہ مچھلیاں انکو کھا سکیں۔ بس صدقہ ادا کر کے تھیلا سارے کا سارا دریا میں انڈیل دیں اور مچھلیوں کی دعوت کریں۔
اسی طرح سات مختلف قسم کی اجناس لے کر مکس کر کے صدقہ ادا کر کے پرندوں کو بھی دانے کے طور پر ڈالا جا سکتا ہے۔ جیسا آپکا علاقہ ہو اور جیسے آپکے لیے آسانی ہو، کیجیے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک صدقہ آپ انسانوں کو دیں، ایک صدقہ پرندوں کو، اور ایک صدقہ مچھلیوں کو۔ یقین کیجیے کہ آپکو اپنے حالات میں بدلاؤ محسوس ہو گا اور آپکے لیے خیر و برکت کے دروازے کھلیں گے اور آپکو ریلیف محسوس ہو گا۔
طریقہ نمبر ایک کی مدد سے آپ لوگ روزانہ کی بنیاد پر صدقات کر سکتے ہیں۔ مثلاً کسی فقیر کو دس روپے دینے لگیں تو پہلے نیت و دعا پڑھی اور پھر دیے۔ کچھ کھانا کھایا اور بچا ہوا کھانا نیت و دعا پڑھ کر کتوں کو یا دیگر جانوروں کو ڈال دیا۔ اپنا پرانا سوٹ کسی کام والی کو دینے سے پہلے نیت و دعا پڑھ لی۔ جبکہ طریقہ نمبر دو ایک مخصوص صدقہ ہے جسکے لیے اہتمام بھی کرنا پڑے گا اور پیسے بھی خرچنے پڑیں گے۔
صدقہ کے بارے آئیے آج آپکو ایک راز کی بات بتاؤں۔ یہ بات آپ نے پہلے شائد ہی کبھی سنی و پڑھی ہو۔ صدقہ عام طور پر پریشانی و مشکل میں دیا جاتا ہے۔ یعنی پہلے کوئی بیماری پریشانی و مشکل، پھر صدقہ۔ لیکن صدقہ صرف اسی تک محدود نہیں۔ آپ اپنی خواہشات و حاجات کے حصول کے لیے بھی صدقہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً کسی لڑکی کی شادی نہیں ہو رہی تو وہ طریقہ نمبر دو کے مطابق صدقہ کرے۔ صدقے کا تھیلا بنائے۔ نیت کرے کہ میں صدقہ اسلیے ادا کر رہی ہوں کہ میری شادی جلد از جلد کسی اچھی جگہ ہو جائے۔ پھر دعا پڑھ کر دم کرے صدقے اور اپنے اوپر اور صدقہ کر دے۔ اور حسب حیثیت اس صدقے کو ہر ہفتے یا ہر مہینے یا دو مہینے کے بعد ادا کرے۔ بس ہر حاجت کے لیے آپ یہ صدقہ وقت سے پہلے کر سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ کسی پریشانی و مشکل میں ہی صدقہ کیا جائے۔ کوئی ماں یہ چاہتی ہے کہ اُسکی بیٹی بیٹے کا کسی یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہو جائے تو طریقہ نمبر دو کے مطابق صدقہ کر دے اور بے فکر ہو جائے۔
امید کرتا ہوں کہ اس مضمون کو پڑھا اور سمجھا جائے گا، قدر کی جائے گی اور فیض حاصل کیا جائے گا۔ کچھ وقت گزرا ایک ماں کو میں نے یہ صدقہ بتایا۔ اُس نے اپنی بیٹی کو پتہ نہیں کیا بتایا کہ اُسکی بیٹی نے اپنے امتحانات کے لیے ایک انوکھا صدقہ کیا۔ اُس بیٹی نے سات مخلتف رنگوں کی ٹافیاں ڈھونڈیں، امتحانات کی نیت کی، دعا پڑھ کر دم کی اور صدقہ بچوں میں بانٹ دیا۔ جو بچی پانچویں چھٹی پوزیشن پر آتی تھی وہ دوسرے نمبر پر آئی۔ سب حیران مجھ سمیت کہ اس بچی نے کیا کمال کیا۔
سو صدقہ کیجیے اور موج کیجیے۔
صدق الله العلی العظیم
والله اعلی و اعلم۔