اعوذ بالله من الشیطن الرجیم
انه من سلیمن و انه بسم الله الرحمن الرحیم
بسم الله المذل القھار لکل عدو و شیطان۔
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن
پس ( اے انسانو اور جنوں) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
اس آیت میں ایک لفظ ہے، آلاء. اور آلاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضرورت مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ کہیں آلاء کا لفظ عظیم الشان نعمتوں کے معنوں میں اور کہیں قدرت کی نشانیوں کے معنوں میں اور کہیں بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔-
آلاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے ہی بیان کیے ہیں ۔ تمام مترجمین نے بھی یہی اس لفظ کا ترجمہ کیا ہے ۔ اور یہی معنی ابن عباس ، قتادہ اور حسن بصری سے منقول ہیں ۔ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی تفسیر نقل فرمائی ہے : ’’فَبِأَيِّ نِعْمَةِ اللّٰهِ تُكَذِّبَانِ‘‘ ’’تم دونوں اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟‘‘
حدیث مبارکہ میں ہے کہ محمد کریم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں (فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ ) پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ ) (اے ہمارے پروردگار ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہئے۔
دوسرے معنی اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ۔ چنانچہ طبری ہی نے ابنِ زید کی تفسیر نقل فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا : ’’ اَلْآلَاءُ اَلْقُدْرَةُ، فَبِأَيِّ قُدْرَةِ اللّٰهِ تُكَذِّبَانِ‘‘ یعنی ’’تم دونوں اللہ کی کس کس قدرت کو جھٹلاؤ گے۔
اس کے تیسرے معنی ہیں خوبیاں ، اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے ، مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
نعمتوں و رحمتوں کے بیان اور ان کی یاد دہانی کے لیے یہ آیت سورہ رحمان میں اکتیس (۳۱) مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ یہ ایک خاص تعداد ہے اور عمل کے بعد اس آیت کی مداومت بھی روزانہ اکتیس مرتبہ ہی کی جائے گی تاکہ ہمارے ورد کی قران کے ساتھ عددی موافقت قائم ہو جائے۔ اب یہ اکتیس کی تعداد ہے کیوں، یہ جانتے ہیں۔
مفسر سلیمان الجمل لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آٹھ مرتبہ یہ آیت ان آیات کے بعد دہرائی جن میں اس کی مخلوق کے عجائب اور ان کی ابتدا و انتہا کا ذکر ہے۔ اسکے بعد پھر جہنم کے دروازوں کی تعداد کے مطابق سات مرتبہ یہی آیت ان آیات کے بعد دہرائی ہے جن میں آگ اور اس کی ہولناکیوں کا بیان ہے۔ پھر جنت کے دروازوں کی تعداد کے مطابق آٹھ مرتبہ دو جنتوں کے وصف میں اسے دہرایا ہے۔ پھر ان دو جنتوں کے علاوہ دوسری دو جنتوں کے وصف میں آٹھ مرتبہ دہرایا ہے۔ ٹوٹل تعداد ہوئی اکتیس۔ تو جو شخص پہلی آٹھ چیزوں کا عقیدہ و یقین رکھے گا اور ان کے تقاضے پر عمل کرے گا وہ اللہ کی طرف سے ان آٹھ نعمتوں کا مستحق ہو گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ساتھ اسے پہلی ساتوں آزمائشوں سے محفوظ رکھیں گے۔
فرض کیجیے کہ آپکو کوئی خوشی کی خبر یا کوئی دنیاوی نعمت ملی اور آپ نے کہا،
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ
پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔
تو در حقیقت آپ نے نہ صرف تازہ تازہ ملنے والی خبر و نعمت کا اقرار کیا کہ وہ الله رب القھار کی طرف سے ہے بلکہ پہلے کی بھی تمام نعمتوں کا اقرار کرتے ہوئے ایک طرح سے رب القھار کا شکریہ ادا کیا۔ آپ نے یہ بات تسلیم کی کہ آپکی کوئی اوقات نہیں بلکہ درحقیقت سب عطائیں رب القھار کی طرف سے ہیں اور وہی ان کا مالک ہے۔ اس آیت فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ کا ورد کر کے آپ قران مجید کی سورہ نسا کی ایک آیت ۷۹ کی بھی تائید کر رہے ہیں کہ جسمیں کہا گیا ہے،
ما اصابک من حسنۃ فمن اللہ وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک
اے انسان تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے ‘ اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب وعمل کی بدولت ہے ‘ ۔
سورہ ابراہیم کی آیت ۷ کہتی ہے۔
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان فرمادیا کہ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گااور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے۔ یہاں ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے ،اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے۔ (خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۷۵-۷۶)
ہمارے جد امجد حضرت حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جب کسی قوم کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ان سے شکر ادا کرنے کا مطالبہ فرماتا ہے، جب وہ شکر کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کی نعمت کو زیادہ کرنے پر قادر ہے اور جب وہ نا شکری کریں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو عذاب دینے پر قادر ہے اور وہ ان کی نعمت کو ان پر عذاب بنا دیتا ہے۔ (رسائل ابن ابی دنیا، کتاب الشکر للّٰہ عزّوجلّ، ۱ / ۴۸۴، الحدیث: ۶۰) (اس حدیث کو زبانی یاد کرنے والے کو عمل کی اجازت ہو گی)۔
حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعمت کی زیادتی سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ‘‘ یعنی اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔ جسے توبہ کرنے کی توفیق عطا ہوئی وہ توبہ کی قبولیت سے محروم نہ ہو گا کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے’’وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ‘‘ یعنی اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے ۔ (در منثور، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۵ / ۹)
تو درحقیقت کسی خوشی کی خبر یا کوئی بھی چیز ملنے پر جب آپ نے کہا فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ تو آپ نے رب القھار کا شکر ادا کیا نہ صرف حال میں بلکہ ماضی کی بھی تمام نعمتوں کا اقرار کر لیا۔ اب ایسا کرنے سے آپکو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ پہلا کام تو یہ ہوا کہ شیطان کی نانی فوت ہو گئی کیونکہ آپ نے شکر ادا کر لیا۔ دوسرا مندرجہ بالا دونوں احادیث سے بالکل واضح ہے کہ شکر ادا کرنے سے نعمتیں مزید بڑھتی ہیں۔ الله رب القھار اپنے احسانات بڑھاتا ہے اور انسان کی زندگی میں مزید آسائشیں اور آسانیاں آتی ہیں۔
سو آج کے بعد سے آپکو جو بھی خوشی کی خبر ملے، جو بھی چیز حاصل ہو مثلاً آپکی تنخواہ، گاڑی، گھر یہاں تک کہ ایک معمولی جراب بھی تو آپ نے کہنا ہے، فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ آہستہ آہستہ آپکی نعمتیں بڑھنی شروع ہو جائیں گی، آپکو خوشی کی خبریں زیادہ ملیں گی اور اس دنیا میں کس کو ایسا نہیں چاہیے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو آپکو ملے چاہے وہ جتنی اعلیٰ ہو چاہے جتنی حقیر آپ کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ مثلاً آپکو پتہ چلے کہ آپ حاملہ ہو گئی ہیں تو فورا کہیے فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ پھر ہر روز اپنے پیٹ کی طرف دیکھ کر کہیے فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن تو حمل کا شکر ادا ہو گا، نعمت کا اقرار ہو گا اور حمل محفوظ بھی رہے گا۔ شوہر کو پتہ چلے اُسکی بیوی حاملہ ہے تو فورا کہے فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ یہاں تک کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی یہ آیت پڑھ سکتے ہیں۔ عورت مرد اپنے بچوں، ماں باپ، بہن بھائی سب کو دیکھ کر یہ آیت پڑھ سکتے ہیں۔ گرمی سردی پانی پئیں کھانا کھائیں تو کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ کپڑے خریدیں و پہنیں تو کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ اپنے دوست کو مسکراتا دیکھیں تو کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن کہ دوستی بہت بڑی نعمت ہے۔ گاڑی میں بیٹھیں تو کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن ، اے سی و ہیٹر آن کریں تو کہیں فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن۔ آپ اپنے بیماروں کو دیکھ کر بھی آیت پڑھ سکتے ہیں اس سے وہ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔ غرض کہ اگر آپ نے کچھ عرصہ ایسا کرنا شروع کر دیا تو آپ دیکھیں گے کہ سارا دن ہی آپکی زبان پر یہ آیت جاری رہے گی۔ آپ قدم قدم پر یہ آیت پڑھ کر رب القھار کی نعمتوں کا اقرار کر رہے ہونگے اور پھر جو اِس آیت کے فوائد جاری ہونگے وہ ناقابل بیان ہونگے۔
ذوالحج کے پہلے دس دنوں کی بہت اہمیت و حیثیت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔
(باب ما جاء في العمل في أيام العشر، 3/131 ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)۔
اسی مناسبت سے ہم ذوالحجہ کے ان دس دنوں کا فائدہ اٹھائیں گے اور ایک نو دن کا عمل کرینگے آیت مبارکہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن کا۔ ایسا عمل نہ کبھی آپ نے پڑھا نہ دیکھا ہو گا۔ یہ خالصتاً ایک روحانی ہستی (جو انسان نہیں ہے) کا عطا کردہ ہے۔ البتہ شمع کا اضافہ میں نے کیا ہے۔
شمع کے اعداد پکچر میں دیے گئے ہیں۔ ان اعداد کو اپنے بائیں بازو پر کسی بھی رنگ کے پین یا مارکر سے لکھیے۔ شمع پر بھی کسی نوک دار چیز مثلاً کسی خالی پین یا خالی بال پوانٹ سے اعداد نقش کیجیے، آگ والے حصے سے نیچے کی طرف۔ بس شمع تیار۔ وقت سے پہلے بھی بہت ساری شمع تیار کر کے فریج میں رکھی جا سکتی ہیں۔ چونکہ آجکل سخت گرمی ہے اسلیے ٹھنڈی شمع دیر تک جلتی ہے۔ یہ عمل شمع کے بغیر بھی ہو سکتا ہے لیکن کوشش کریں کہ شمع کے ساتھ کریں۔ البتہ بازو پر اعداد ضرور لکھیے گا۔
آٹھ جون دو ہزار چوبیس کو پاکستان میں پہلی ذوالحجہ ہو گی اور آپکے عمل کا پہلا دن۔ بہرحال نہ بھی ہو تو آپ نے آٹھ جون کو مغرب کے بعد سے کسی بھی وقت عمل شروع کر لینا ہے۔ شمع کا طلسم اپنے بائیں بازو اور شمع پر لکھ کر شمع جلا کر چھ سو چھیاسٹھ ٦٦٦ بار آیت مبارکہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن کا ورد کرنا ہے اور نو دن لگاتار کرنا ہے۔ اصل تعداد تو یہی ہے لیکن اگر کوئی اتنی تعداد نہ پڑھ سکے تو پھر ٣٦٩ مرتبہ پڑھ لے۔ اگر ٦٦٦ کی تعداد منتخب کریں تو ایسے پڑھیں۔
چھ مرتبہ آیت مبارکہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن پڑھنے کے بعد ایک مرتبہ یہ الفاظ دھرائیے۔ (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )
پھر ساٹھ مرتبہ آیت فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن پڑھیے اور کہیے (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )۔
پھر چھ سو مرتبہ آیت پڑھیے اور کہیے (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )۔ بس عمل مکمل۔ بس اب دعا کر لیجیے جو چاہیں۔ اور جو مرضی نعمت مانگیے۔
اگر ٣٦٩ کی تعداد کا انتخاب کریں تو ایسے پڑھیں۔
پہلے نو مرتبہ آیت فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰن پڑھیے اور کہیے (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )۔
پھر ساٹھ مرتبہ آیت پڑھیے اور کہیے (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )۔
پھر تین سو مرتبہ آیت پڑھیے اور کہیے (لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ )۔
بس عمل مکمل اور اب دعا کر لیجیے جو چاہیں اور جو مرضی نعمت مانگیے۔
آپ عمل کے بعد یہ دعا بھی مانگ سکتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اجعَلِ القُرآنَ العَظِیمَ وَ آیَةِ المُبَارَکَةِ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا
تُکَذِّبٰن رَبِیعَ قُلُوبِنَا وَ نُورَ صُدُورِنَا وَ جَلَاءِ ھُمُومِنَا وَ ذَھَابِ اَحزَانِنَا۔
الله قران مجید اور اس آیت مبارکہ کو ہمارے دلوں کی بہار، ہمارے سینوں کی روشنی، ہماری پریشانیوں کو دور کرنے والا اور ہمارے غموں کا غائب کرنے والا بنا۔ (اس دعا کو تین یا نو مرتبہ عمل کے بعد دھرا لیا جائے)
جو بندہ اس عمل کو مکمل کر لے گا اُسکو میں ایک کمال کا طلسم، اساتذہ کا، تحفہ دونگا۔ جسکی اجازت صرف اُسی کو ہو گی جس نے عمل مکمل کیا ہو گا۔ اس طلسم سے لوگ آپ سے محبت کریں گے بفضل قھار۔ اس عمل کے دو طلسم ہونگے۔ ایک تو نو دن کی ریاضت کرنے کے بعد آپ کسی بھی وقت لکھ کر اپنے کمرے یا گھر میں فریم کر کے لٹکا سکتے ہیں خیر و برکت کے لیے۔ اس کی وڈیو چینل پر لگاونگا۔
اور ایک طلسم خاص ہو گا جو صرف میں ان باکس تحفہ کی نیت سے آپ لوگوں کو دونگا۔ اُسکا کوئی ہدیہ نہ ہو گا۔ ہدیہ بس یہی ہو گا کہ آپ عمل مکمل کریں۔ وہ طلسم تاحیات آپکے کام ائے گا، تسخیر و محبت کے لیے خصوصا خواتین کے۔ بلکہ مرد و خواتین دونوں کے ہی کیونکہ خواتین کو گھر کے اندر تسخیر کی ضرورت ہوتی ہے زیادہ تر اور مردوں کو گھر کے باہر۔ یہ طلسم رشتے کے لیے بھی نفع بخش ثابت ہو گا۔ لیکن یاد رکھیے گا کہ میں پہلے آپ سے حلف لونگا کہ آپ نے عمل کیا ہے اور پھر آپکو طلسم دونگا۔
یاد رکھیے گا کہ قرآنِ کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے یا بغیر ترجمہ کے دونوں صورتوں میں بڑا ثواب ہے، اگر کسی شخص کو ترجمہ نہیں آتا یا ترجمہ آتا ہے لیکن وہ معانی پر غور کیے بغیر صرف قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے تو یہ بھی بڑا اجر وثواب رکھتا ہے۔ ترجمہ کے ساتھ ہی قرآن کریم کا پڑھنا لازم نہیں ہے۔ قرآنِ مجید عربی میں نازل ہوا ہے اور اس کے ہر لفظ کی تلاوت پر احادیث میں دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کے عربی الفاظ پڑھے بغیر صرف ترجمہ پڑھے یا اس کے معانی میں غور کرے تو اسے بے شک قرآنِ کریم کا مفہوم سمجھنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن قرآنِ کریم کی تلاوت پر جو ثواب احادیثِ مبارکہ میں وارد ہے وہ نہیں ملے گا، جب کہ بغیر ترجمہ کے قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والا ہر ہر حرف پر دس نیکیوں کا مستحق بنتا ہے، جیساکہ حدیثِ مبارک میں ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کی فضیلت بتائی گئی ہے، اور اس کی مثال سمجھاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ “الم” ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف الگ حرف ہے اور لام الگ حرف ہے اور میم الگ حرف ہے، نکتہ اس میں یہ ہے کہ “الم” حروفِ مقطعات میں سے ہے، اور حروفِ مقطعات کا معنٰی و مفہوم جمہور اہلِ علم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔
حدیث شریف میں مثال ہی ان حروف کی دی گئی جن کا معنٰی کسی بھی امتی کو معلوم نہیں ہے، اور ان کے پڑھنے پر ہر حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ کیا گیا ہے، تو معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کی نفسِ تلاوت بھی مقصود ہے، اور اس پر اجر و ثواب مستقل ہے۔ اب جو لوگ بکواس کرتے نظر آتے ہیں کہ بغیر سمجھے قران پڑھنے کا ثواب نہیں ملتا تو مندرجہ بالا حدیث کے مطابق الف لام میم پر دس دس نیکیوں کا وعدہ اور یقین دھانی، ان میراثیوں کے منہ پر شاندار چپیڑ ہے۔
صدق الله العلی العظیم
والله اعلی و اعلم۔